ذکر ہے بیتے سال کا، جب ہمیں ایک طبی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سابق مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا
کانفرنس سے جونہی کچھ فراغت ملی، ہم نے ڈھاکہ شہر میں بائیکیا منگوا کر اس جگہ کی راہ پکڑی، جہاں جانے کا شوق بھی بہت تھا، پر شاید بطور پاکستانی وہاں جانا بنتا نہ تھا۔ ہم آج بھی یہ جان نہیں پائے کہ یہ فیصلہ غلط تھا یا درست۔۔
یہ تھا لبریشن وار میوزیم، اور جنگ آزادی بھی 1857 والی نہیں، 1947 والی بھی نہیں، بلکہ ایک اور ’جنگِ آزادی‘ ، جس سے ہمارا بھی کچھ لینا بنتا ہے
ہمارا ہوٹل گلشن کے علاقے میں تھا جو ڈھاکہ کے پوش علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ڈھاکہ بنگلہ دیش کے دوسرے شہروں سلہٹ اور چھوٹوگرام (چٹاگانگ) کی نسبت جدید اور بہتر شہر ہے یا شاید بنگال کا واحد شہر ہے۔ عمدہ گاڑیاں، چھاؤنی، اسٹاف کارز، ایئر فورس میوزیم، سائنس کالج، بلند عمارات، کراچی کی شاہراہ فیصل کی طرح طویل شاہراہ۔ میٹرو ٹرین کا ڈھانچہ بالکل تیار۔ آنکھوں کے قومی ادارے کے پیچھے عوامی لائبریری ہے اور اس کے ساتھ جنگ آزادی میوزیم۔
میوزیم کے ارد گرد تو اندرون شہر ٹائپ ہی علاقہ تھا مگر میوزیم کی عمارت جدید طرزِ تعمیر کی حامل بڑی پرشکوہ تھی۔ استقبالیے پر دیکھا کہ غیر ملکیوں اور سارک ملکوں کی فیس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چار و ناچار خود کو سارک ممالک کا باشندہ ظاہر کرنا پڑا۔
استقبالیہ خاتون نے ہماری طرف دیکھا اور سپاٹ لہجے میں وہی سوال پوچھا، جس کا ڈر تھا، ’سارک کے کون سے ملک سے؟‘
ذہن میں کئی خیال آئے، گئے۔ سوچا کہ نیپال یا سری لنکا کہہ دوں، مگر پھر دھڑکتے دل کے ساتھ سچ اگل ہی دیا، ’پاکستان۔‘ خاتون نے میکانیکی انداز میں ٹکٹ کاٹ کر ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔
میوزیم کے ٹیرس پر ایک جنگی جہاز ٹنگا تھا۔ ڈرتے ڈرتے ساتھ میں لگی تختی پڑھی۔ شکر ہے ہمارا نہ تھا۔ انڈیا نے 1971 میں اس جہاز سے ’امدادی‘ بمباری کی تھی اور پھر 1998 میں تحفے کے طور پر بنگلہ دیش کو دان کر دیا تھا
ہم سوچنے لگے کہ بھئی تحفہ ہی دینا تھا تو کوئی پل بنا دیتے، کوئی فیکٹری لگا دیتے، استعمال شدہ ناکارہ بمبار جہاز دینے کی کیا تُک بنتی ہے؟ لیکن خیر کیا کیجیے کہ تاریخ اتنی ہی ظالم، بھیانک اور بے رحم ہوتی ہے
میوزیم کے مرکزی دروازے میں داخل ہونے لگے تو سنتری نے ہمارے کندھوں پر لٹکا بیگ اتار کر وہیں چھوڑنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے بیگ سے پین اور ڈائری نکالنا چاہی تو اس نے شاید ہماری شکل دیکھ کر پوچھ لیا، ’کہاں سے ہو؟‘
ہم نے پھر جی کڑا کیا اور بتا دیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ہمیں گلے لگا لیا۔ ’پاکستان کرکٹ، آئی لوو۔ شاہد آفریدی، شاہین آفریدی آئی لوو۔‘
بعد میں بھی ہم نے بنگلہ دیش میں جگہ جگہ دیکھا کہ وہاں شاہد آفریدی کی بہت مانگ ہے
میوزیم چار گیلریوں پر مشتمل ہے۔ یہ چار گیلریاں بنگال کے گوروں سے پہلے دور سے آج تک کی جدوجہد کی داستاں سناتی ہیں۔ شاہ جلال جن کے مزار کو سلہٹ میں دیکھا تھا، ان کا ذکر شروع میں ہی تھا۔ ابنِ بطوطہ بنفسِ نفیس ان سے ملنے بنگال آئے تھے اور ان کی کرامات سے فیضیاب ہوئے تھے
2022ع کے بعد ہمارے ہاں فیضیاب ہونے کے معنی بھی مخصوص ہو چلے ہیں۔ نجانے یہاں استعمال کرنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ اب ابن بطوطہ واقعی ملنے آیا تھا یا تاریخ کو مذہب اور روحانیت کی چھلنی سے گزرنا پڑا ہے؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔۔
میوزیم میں نصب آثار، تصاویر اور دوسرے وسائل کی مدد سے بتائی گئی بنگال کی تاریخ تقسیم ہند تک تو کم و بیش وہی تھی، جو ہم نے مطالعۂ پاکستان میں پہلے سے پڑھ رکھی تھی۔ گڑبڑ اس کے بعد شروع ہونے لگی
بنگلہ زبان تحریک تو ہمیں پڑھائی ہی نہیں گئی نہ بتائی گئی۔ ایک جامع اور مربوط تحریک اپنی زبان بچانے کے لیے۔ پتہ نہیں بچانا یہاں درست لفظ اور زبان کے لیے استعمال بھی ہو سکتا یا نہیں۔ قائداعظم کا بیان، سیاستدانوں کی سازشیں، مقامیوں کی بےچینی۔ مظاہرین پر فائرنگ، جانوں کا ضیاع، جن کا لہو پی کر زبان بچ گئی۔۔ خود وہ چند تصویروں کی شکل میں باقی رہ گئے
میوزیم سے پتہ چلا کہ پاکستان نے اردو کو متحدہ پاکستان کی واحد زبان بنانے کا اعلان کیا تھا، جس کے خلاف بنگالیوں نے سخت مزاحمت کی
21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے بہت بڑا جلوس نکالا، جس پر پولیس نے فائر کھول دیا۔ پانچ طلبہ مارے گئے، جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے
یہ تاریخ میں شاید پہلا موقع تھا کہ کسی نے اپنی مادری زبان کو بچانے کی خاطر جان کی قربانی دی۔ اسی دن کی یاد میں دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، حتیٰ کہ خود پاکستان میں بھی۔ لیکن وہاں کم کم ہی بتایا جاتا ہے کہ اس دن کی ابتدا کیسے ہوئی تھی
آج، اس کے ستر سال بعد والا بنگال بھی اپنی قوم اور اپنی زبان سے بری طرح جڑا ہے، تو جانے اس وقت کیسے سوچ لیا گیا کہ بنگالی زبان سے بےوفائی کر جائیں گے؟
ہم میوزیم میں آگے بڑھ رہے تھے، سال قدموں سے لپٹے ہوئے تھے۔ 1971 آتے آتے ہمارے قدم بوجھل ہونے لگے۔ مارچ 1971، کہنے کو بہار کا آغاز مگر کتنی خونی بہار تھی۔ لیڈر جیلوں میں۔ الیکشن تماشہ بن گئے۔ زمین کا بوجھ اٹھانے والے لاشوں میں بدلنے لگے یا خود بوجھ بن کر سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کا آسرا ڈھونڈھنے لگے
وجہ یہ تھی کہ بھٹو اور مجیب کی نہیں بنی تھی یا جرنیلوں کی نالائقی تھی کہ سب کچھ کنٹرول کرنے کی کوشش میں سب کچھ ہاتھوں سے نکل گیا۔ مان لیا کہ اکٹھے رہنا مشکل تھا مگر اپنے بوجھ ڈھونے والے عوام سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
تصاویر تھیں یا انسانیت ننگی پڑی تھی۔ اس کا اگر ایک فیصد بھی سچ ہے تو باہر کھڑا بندوق بردار سنتری یا تو کسی اور دھرتی کا تھا یا پھر خودی کے کسی ایسے درجے پر پہنچ چکا تھا کہ اپنا نسلی ٹراما پراسیس کر کے بہت آگے بڑھ چکا تھا۔ بے مہر صبحوں سے مہرباں راتوں کی طرف۔۔
جنگ کے آخری دنوں میں پاکستانی فوج کی مختلف یونٹوں اور افسران کی آپسی ٹیلیفونک اور وائرلیس سیٹ کی گفتگو کو ٹرانسکرائب کر کے میوزیم میں ڈسپلے کیا گیا ہے۔ روح تک کانپ جاتی ہے۔
اس خطے میں بلکہ ہر خطے میں ہر دور میں عام انسانی جان ارزاں ہی رہی ہے مگر اس قدر ارزانی کہ ایک دوسرے کو ہی نوچ ڈالو صرف اس وجہ سے کہ اس کی زبان یا ماخذ مختلف ہے؟ بےبی ریحانہ کا کیا قصور تھا، یا وہ دل کا ڈاکٹر۔۔ چن چن کے انٹیلیکچوئلز اور اشرافیہ کو مارنا کہ نیا معاشرہ تخلیق ہو بھی جائے تو لولا لنگڑا ہی ہو۔
ہم نازیوں کو نسل کشی پر کوستے رہے جبکہ ہمارے باجو میں بھی موت کی فیکٹری اگ آئی تھی۔
میوزیم کی دیواروں میں دنیا کے ’نوٹس لینے‘ اور مداخلت کے اخباری تراشے چسپاں ہیں۔ جانے وہ کتنے موثر تھے۔ ہمارے قدم سخت سنگِ مرمر میں دھنستے جا رہے تھے
ہم دنیا کے ہر میوزیم، ہر کہانی میں مظلوم ٹھہرتے تھے۔ یہ واحد میوزیم تھا، واحد کہانی تھی جس میں ہم ظالم تھے۔ ظلم ایسا کہ یا مرو، یا مارو یا کہیں اور جا بسو۔۔
کنکریٹ کے وہ پائپ، جن میں بنگالی پناہ گزیں انڈیا جا کر رہے۔ بچوں، عورتوں، بوڑھوں کی آنکھوں سے جھلکتی بےبسی۔ اک سرد لہر سی رینگ گئی ریڑھ کی ہڈی میں۔ ٹھیک 24 سال پہلے اک علاقے سے الگ ہوئے تھے کہ ان کا خدا کے وجود کا تصور مختلف تھا اور اب جن کا تصور آپ جیسا ہی تھا، ان ہی سے بھاگ کر پناہ بھی لی تو کہاں؟ مختلف خدا والوں کے پاس۔
تاریخ اپنے رخ بدلنے کے لیے شاید انسانی عقل پر پتھر باندھ دیتی ہے اور جب تک ہم ان پتھروں کو جھٹکتے ہیں، تاریخ صفحہ پلٹ چکی ہوتی ہے، ساتھ ہی جغرافیہ بھی اور بوجھ اٹھانے والوں کے بوجھ کی نوعیت بھی۔
میں نے یورپ میں این فرینک میوزیم بھی دیکھا تھا اور ہولوکاسٹ میوزیم بھی۔ مگر ان کہانیوں کے کردار دوسری دنیاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو میری مٹی کا قصہ تھا۔ بنگلہ دیش کا سفر اختیار کرنے سے ایک روز قبل کشور آپا سے ملاقات یاد آ گئی۔
انہوں نے یہی کہا تھا کہ نہ اگلتے بنے گی نہ نگلتے۔ انڈیا مدد کو آیا۔ نیت کچھ بھی ہو، پناہ گزینوں کو روٹی، علاج، چھت دی۔
ان کیمپوں کے مناظر بھی دلخراش۔ خود اک غریب ملک اور کیسے سہارا دیتا لوگوں کے جم غفیر کو؟ بنگالی خواتین کو حاملہ کرنے کا الزام بھی تصاویر کی صورت میں موجود تھا۔ ہم نے وہاں سے ہی ایک دوست کو میسج کیا جو گو کہ اب ادارے کا ادنیٰ ملازم تھا مگر 1971 کے کئی سال بعد پیدا ہوا تھا کہ بھائی تم لوگوں کو بغاوت کچلنے بھیجا تھا اور تم وہاں یہ گل کھلاتے رہے۔
جنرل نیازی کا پورٹریٹ، سرنڈر کرتے ہوئے گویا میوزیم کا سینٹر پیس ہے۔ ڈاکٹر سے خارش کا کہہ کر وردی ایکسکیوز لے لیتے اور کسی اور لباس میں آ جاتے۔ کچھ علامتی چیزیں بھی بڑی خوفناک ہوتی ہیں۔
میوزیم میں تاریخ کے سچ کے کچھ گوشے ڈھانپ لیے گئے تھے جیسے بہاریوں کا قتلِ عام یا مشرقی حصے کی فوج کے کچھ افسران کی کرنی کا بدلہ وہاں پھنسے ہوئے سول لوگوں سے لینا۔ مکتی باہنیوں کا مغربیوں کے ساتھ سلوک۔
یہ باتیں اپنی جگہ مگر ان دیواروں پر نصب سچ اتنا بھاری، اتنا کڑوا اور دہلا دینا والا تھا کہ سر خود بخود جھکتا چلا گیا۔ آس پاس چلتے پھرتے لوگوں سے نظر ملانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ہر کوئی خود کو گھورتا محسوس ہو رہا تھا۔
دیکھنے کو ابھی اور بھی بہت کچھ ہوگا، مگر اپنی ہمت یہیں جواب دے گئی اور ہم دھیرے دھیرے چلتے چلتے جنگِ آزادی میوزیم سے باہر نکل آئے۔ ذہن میں فیض کا مصرع گونج رہا تھا:
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)