کراچی گرامر اسکول پر سینئر صحافی آمنہ عیسانی کے سنگین الزامات

نیوز ڈیسک

کراچی – سینئر صحافی اور انگریزی روزنامے دی نیوز کے انٹرٹینمنٹ پیج کی ایڈیٹر آمنہ عیسانی نے کراچی کے معروف اور مہنگے ترین تعلیمی ادارے کراچی گرامر اسکول کی انتظامیہ پر سنگین الزات عائد کیے ہیں

آمنہ عیسانی نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ کراچی گرامر اسکول جانے والے دو بچوں کی ماں ہونے کے ناطے میں یہ کہوں گی کہ یہ ادارہ تباہی کا شکار ہے اور بچوں کی فلاح و بہبود انتظامیہ کی آخری ترجیح ہے

انہوں نے لکھا کہ میں اپنے بچوں کے تجربات پر ایک کتاب لکھ سکتی ہوں

اپنی ٹوئٹ میں آمنہ عیسانی کا مزید کہنا تھا کہ میرا بڑا بیٹا، جس کے تمام مضامین میں اے گریڈ تھے، اسے اسٹوڈنٹ کاؤنسلر نے کہا کہ اسے اچھے کالج میں جانے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے، وہ ہر وقت گھٹیا باتیں اور حوصلہ شکنی کرتی رہتی تھیں۔ انہی کاؤنسلر پر الزام تھا کہ ان کا ایک نوعمر طالب علم کے ساتھ افیئر تھا، تاہم اسکول انتظامیہ نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا

اس سوال پر کہ آپ اب تک خاموش کیوں رہیں؟ آمنہ نے کہا کہ کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسکول میرے بیٹے کے کالج میں داخلے کو خطرے میں ڈالے، کیونکہ وہ ایسا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے

ثنا میر نامی صارف نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میں اے لیولز کے لیے کراچی گرامر اسکول میں زیرِ تعلیم تھی۔ وہاں زہریلے پن کی سطح حیران کر دینے والی تھی۔ اساتذہ بالکل اچھے نہیں تھے، اسکول میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا تھا، کسی کو طلبہ کی بھلائی کی پرواہ نہیں تھی۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے بچوں کو وہاں داخل نہ کرنے کا انتخاب کیا

ایک اور صارف نے لکھا کہ میرے بچے بھی کراچی گرامر اسکول ہی جاتے ہیں اور وہ اب بھی ڈیفنس میں واقع بڑے اسکولوں سے بہت بہتر ہے۔ اس پر آمنہ نے لکھا کہ جونیئر اور مڈل سیکشن اب بھی بہت اچھے ہیں لیکن کالج سیکشن کی صورتحال خراب ہے

سینئر صحافی ماہم مہر نے آمنہ عیسانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا کہ بہت خوشی ہوئی آپ نے بات کی۔ کسی کو تو اسکول میں ایک لڑکے کی طرف سے حالیہ مبینہ عصمت دری، غنڈہ گردی، اپسکرٹنگ، اسنیپ چیٹ وڈیوز اور طلبہ کی تذلیل اور کاؤنسلر کے معاملے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا کہ والدین بھی اسکول جانے سے ڈرتے ہیں

آمنہ عیسانی نے ماہم مہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ وہ کہانیاں حیران کن اور بالکل سچی تھیں۔ جب طلبہ نے اساتذہ سے شکایت کی تو اسکول نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہر چیز کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کی گئی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close