چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تو وہیں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو سابق وزیر اعظم کی رہائی کے بعد بھی جاری ہے
لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں میں سے اکثر کو نقضِ عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا، جبکہ کچھ کو کور کمانڈر کے گھر سمیت دیگر مقامات پر حملہ کرنے یا اس میں سہولت کاری کرنے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا
تاہم اس دوران صحافی اور اینکر آفتاب اقبال، تجزیہ کار اوریا مقبول جان اور عمران ریاض خان کو غائب کرنے کی اطلاعات سوشل میڈیا پر سامنے آئیں جس پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے
واضح رہے کہ اوریا مقبول جان، آفتاب اقبال اور عمران ریاض کے لیے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانیے کی حمایت کرتے ہیں
12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو نیب سمیت متعدد کیسز میں عبوری ضمانت دی تھی۔ اس کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تو تھم گیا مگر گرفتاریاں نہ تھم سکیں
وزیراعظم شہباز شریف نے 72 گھنٹوں میں ’شرپسندوں‘ کو کٹہرے میں لانے کے احکامات دیے تھے۔ ادھر پولیس کی جانب سے اب تک کئی ہزار افراد کو انتشار اور نقص امن کے الزام میں اپم پی او کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے
صحافی آفتاب اقبال کو جمعے کو عدالت میں پیش کر کے رہا کر دیا گیا۔ انہیں جمعرات کی شب ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا تھا اور جمعے کے روز لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، جس کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی
دوسری طرف عمران ریاض اور اوریا مقبول کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواستیں زیر سماعت ہیں، تاہم وہ کہاں ہیں، اس بارے میں تاحال کچھ واضح نہیں ہے
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق ”آفتاب اقبال اور عمران ریاض دونوں کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کی جانب سے ان کی رہائی عمل میں آ چکی ہے“
آئی جی پنجاب کے مطابق ’عمران ریاض کو کچھ دن قبل گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا، جہاں انہوں نے تحریری بیان میں ’اچھے رویے‘ کی یقین دہانی کروائی جو کورٹ میں بھی پیش کر دی گئی ہے“
آئی جی پنجاب کے مطابق ”اس کے بعد ایم پی او واپس لے لیا گیا اور وہ آزاد ہو گئے“
آئی جی پنجاب نے اوریا مقبول جان کی پولیس کی جانب سے گرفتاری کی تردید کی اور کہا ”اوریا مقبول کو نہ ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا، نہ ہی ہمیں وہ کسی کیس میں مطلوب ہیں“
واضح رہے کہ صحافی اور اینکرآفتاب اقبال عرصہ دراز سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور ان دنوں ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے مختلف شوز پیش کرتے ہیں
یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقبولیت رکھنے والے ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو کس الزام میں اٹھایا جا رہا ہے اور اس دوران ان سے کیا سلوک کیا جاتا ہے، اس بارے میں آفتاب اقبال کا کہنا ہے کہ جس دن کور کمانڈر کے گھر پر حملے کا واقعہ ہوا اس دن وہ وہاں رپورٹنگ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کی چار مختلف ٹیمیں کوریج کر رہی تھیں
وہ بتاتے ہیں ”مجھے اب کبھی کبھی موقع ملتا ہے فیلڈ رپورٹنگ کا۔ اس وقت میں لائیو ٹرانسمیشن میں بار بار یہی کہتا پایا جا رہا ہوں کہ ’یہ نہ کرو، کور کمانڈر کے گھر داخل ہونے کی کوشش نہ کرو، اپنی تحریک کو خراب کرو گے’ تو میرے لیے کہا گیا کہ آفتاب اقبال بھی وہاں پائے گئے تھے، ان کو بھی ٹھوک دو“
آفتاب اقبال کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کی دوپہر اس وقت سو رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے جس وقت ان کو اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شکر ہے کہ اس وقت گھر میں بیٹیاں اور اہلیہ نہیں تھیں۔‘
انھوں نے کہا ”تقریباً پنڈرہ کے قریب پولیس والے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس افراد میرے گھر آئے اور میرے فون اور لیپ ٹاپ اٹھا کر مجھے یہاں سے لے کر گئے۔۔میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور منھ پر کالے رنگ کی بوری نما چیز چڑھا دی گئی۔ میں نے پوچھا چارج کیا ہے اور وارنٹ کہاں ہے تو مجھے کچھ نہیں بتایا گیا۔ انھوں نے مجھے سفید ڈالے میں بٹھایا جو ایجنسی کا تھا۔ تقریباً پینتالیس منٹ تک وہ مجھے ادھر سے ادھر گھماتے رہے، پھر مجھے عقوبت خانے کی مانند ایک جگہ پر لے جایا گیا جس میں ہرے رنگ کی سلاخوں والے سیل تھے اور جس میں نیچے سے روٹی پانی دینے کی جگہ تھی“
آفتاب اقبال نے بتایا ”جب مجھے آفیسر کے سامنے لے جایا گیا تو مجھے ہتھکڑیاں ڈالی گئیں۔ اس آفیسر نے ماسک پہنا ہوا تھا جنھوں نے میری برین واشنگ کی کوشش کی تاہم ان کا انداز دانشورانہ تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں افطار کے بعد بات کر سکوں گا تاہم اس کی نوبت نہیں آئی اور اس سے پہلے ہی پنجاب پولیس مجھے لے کر خوفناک بلائنڈ فولڈ کر کے ایک دوسرے مقام پر لے گئی۔ ساری رات میں تھانے میں بند ایک چٹائی پر رہا جس میں کونے پر ایک کموڈ لگا تھا۔“
آفتاب اقبال کے مطابق اس دوران انھوں نے بارہا اپنے گھر بات کرنے کی درخواست کی، تاہم اس کی اجازت نہیں دی گئی
وہ بتاتے ہیں ”میں نے ایس ایچ او سے بارہا درخواست کی کہ میرے گھر کال کر کے بتا دیں کہ میں ابھی زندہ ہوں مگر انھوں نے کہا کہ سر یہ میرے اختیار میں نہیں۔۔ ساری رات ایسے ہی گزری صبح خاکی وردی میں پولیس آئی اور وہاں سے ایم پی او کے تحت جیل لے گئے اور سرکار نے کہا کہ آپ تاحکم ثانی یہیں رہیں گے۔ ابھی فارم وغیرہ فل ہو رہے تھے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پیش کرنے کے آرڈر کر دیے اور پیشی کے بعد رہائی عمل میں آئی“
دوسری طرف اوریا مقبول جان کے بیٹے سرمد مقبول کا کہنا ہے ”جمعے کی رات کو ساڑھے گیارہ کے قریب تین کالی ویگو اور ایک ایلیٹ فورس کی گاڑی والد کے گھر کے باہر آئی جنھوں نے گیٹ کے اوپر لگا سی سی ٹی وی کیمرہ سب سے پہلے توڑا اور گیٹ پھلانگ کر اندر آئے۔ اس وقت گھر پر والد، والدہ اور دو ملازم موجود تھے۔ شور سن کر والد اور والدہ کمرے سے نکلے تو ان کو کہا گیا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلیں نہیں۔ پہلے وہ سب پورے گھر میں پھیل گئے پھر انھوں نے سی سی ٹی وی کا پورا سسٹم نکلا۔ ابو کا فون اور لیپ ٹاپ اٹھایا۔ میری والدہ شدید گھبرا گئیں اور انھوں نے پوچھا کہ آپ انھیں کہاں لے کر جا رہے ہیں اور آپ کون ہیں تو انھوں نے کچھ نہیں بتایا اور کہا ہم ان کو ابھی لے کر آتے ہیں آپ فکر نہ کریں“
سرمد کے مطابق ان کی امی نے درخواست کی تو انہوں نے امی کا فون واپس کیا اور والد کو ان کے فون، لیپ ٹاپ اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کے لے گئے
سرمد کا کہنا ہے ”بغیر کچھ بتائے، سرچ وارنٹ دکھائے بغیر۔ ان کے یونیفارم بالکل سیاہ تھے جس پر کوئی شناخت نہیں تھی“
سرمد اس دن دبئی میں تھے۔ اگلے دن انھوں نے پاکستان پہنچ کر ہفتے کے روز پٹیشنن دائر کی، جس کے بعد پیر کے روز کیس کی سماعت ہوئی
سرمد کے مطابق جسٹس عالیہ نیلم نے اوریا مقبول جان کو دو بجے پیش کرنے کا حکم دیا۔ دو بجے جب سرمد عدالت پہنچے تو وہاں آئی جی پنجاب اور ایس ایس پی موجود تھے۔ کورٹ چار بجے شروع ہوئی اور ایس ایس پی نے بیان دیا کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ ہم نے نہیں اٹھایا۔‘
سرمد کہتے ہیں کہ ’ہم نے عدالت میں سامنے والے گھر کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بطور ثبوت جمع کروائی ہے اور کہا کہ اس میں ایلیٹ فورس کی گاڑی ہے اور سارا واقعہ نظر آ رہا ہے۔
’اس کے بعد عدالت نے انھیں منگل کی صبح تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے لیے سیف سٹی کیمرہ کے ذریعے چیک کریں کہ گاڑیاں کہاں گئیں اور صبح تک رپورٹ بھی پیش کریں۔‘
وہ کہتے ہیں ’جمعے کی رات سے پیر کی شام ہو گئی، نہ یہ پتا ہے کہ وہ کہاں ہیں نہ یہ پتہ کہ وہ محفوظ ہیں نہ یہ پتہ کہ ان پر کوئی تشدد تو نہیں ہوا۔
’ان کی عمر 67 سال ہے اور انھیں ایک دوا باقاعدہ لینا ہوتی ہے۔ ان کے پاس نہ کپڑے ہیں، نہ دوائیاں۔ ہمیں کچھ نہیں پتا، نہ کوئی بتانے کو تیار ہے۔‘
اوریا مقبول جان کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں منگل کو ہوگی
عمران خان کی گرفتاری کے اگلے ہی روز اینکر پرسن اور یوٹیوبر عمران ریاض کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیے جانے کی خبریں منظر عام پر آئیں
اس گرفتاری کے بعد عمران ریاض کے وکیل نے ان کی بازیابی کی درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے ان کو پیش کرنے کی ہدایات کی تاہم تاحال انہیں پیش نہیں کیا جا سکا ہے
پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں سماعت میں عدالت نے ضلعی پولیس افسر کی استدعا پر عمران ریاض کی بازیابی کے لیے اڑتالیس گھنٹوں کی مہلت دے دی ہے
ان کے وکیل شاہزیب مسعود نے عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلوائی گئی جس میں دکھایا گیا ہے ان کو زبردستی کھینچ کے گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے
’عدالت نے ڈی پی او سے کہا ہے کہ عمران ریاض کو ڈھونڈنے کے لیے ایجنسیز کی مدد لیں اور 48 گھنٹوں میں پیش کریں۔‘
دوسری جانب عمران ریاض کی اہلیہ نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے ویڈیو پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہمیں نہیں پتا کہ پچھلے پانچ دن سے عمران کہاں ہیں۔‘
انھوں نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دعا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اپنے ججز اور وکلا کی ٹیم پر مکمل اعتماد ہے۔ ہم نے جو دروازہ کھٹکھٹایا ہے اعلیٰ عدلیہ کا، وہ ہمیں انصاف ضرور عطا کریں گے۔‘
عمران ریاض کی اہلیہ نے کہا کہ ’اگلے 48 گھنٹے ہمارے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ عدالت نے کہا ہے کہ 48 گھنٹوں میں عمران کو عدالت میں پیش کیا جائے اللہ کرے وہ ہمارے ساتھ ہوں۔‘
ہم نے عمران ریاض کے بھائی سے اس حوالے سے رابطہ کر کے ان کا موقف لینے کی کوشش کی تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا
ادھر مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق پنجاب پولیس نے عمران ریاض کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا ہے
صحافی عبد القادرنے لکھا کہ ’عمران ریاض سے متعلق آنے والی افواہیں تشویشناک ہیں۔ انھیں وکلا اور خاندان تک فوری رسائی دی جائے۔
’اہل خانہ اور کم عمر بچوں کے لیے مشکل لمحات میں ان کی فوری اورمحفوظ واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔‘
صحافی عارف حمید بھٹی نے لکھا کہ ’سینئر صحافی عمران ریاض خان ابھی تک لا پتہ ہے۔ ان کے والدین، بیوی، بچے سخت پریشان ہیں۔ ان کا مذاق اڑانے والوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔‘