برطانیہ کے وزیر دفاع نے افغان ایئر فورس کے سابق پائلٹ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو اپنے ملک میں برطانوی ایئر فورس کے ساتھ جنگ میں شامل تھے اور برطانویوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف لڑ رہے تھے
اب انہیں برطانیہ سے روانڈا ملک بدر کیا جا رہا ہے اور برطانوی وزارتِ خارجہ نے ان کی برطانیہ سے بے دخلی کو روکنے سے انکار کر دیا ہے
برطانوی ہاؤس آف کامنز میں وزیر دفاع جیمز ہیپی سے پائلٹ کے کیس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ”یہ شخص ’اصولی طور پر‘ برطانیہ کی افغان نقل مکانی اور امدادی پالیسی کے لیے اہل نہیں ہے“
سکیورٹی وجوہات کے باعث اس پائلٹ کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے۔ مذکورہ پائلٹ نے طالبان کے خلاف درجنوں کارروائیوں میں حصہ لیا اور مغربی اتحاد نے انہیں ’پیٹریاٹ‘ یعنی ’محبِ وطن‘ کا لقب دیا
یہ پائلٹ برطانوی فوج کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف کڑتے رہے۔ بعد ازاں اتحادی اور امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک چھوڑ گئے
وہ فرانس سے ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے انگلش چینل عبور کرتے ہوئے برطانیہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس برطانیہ پہنچنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا
برطانوی فوجیوں کے ساتھ جنگ میں شامل اس پائلٹ نے برطانیہ س پناہ کی درخواست کی لیکن اسے اس لیے رد کر دیا گیا کہ وہ فرانس سے غیرقانونی طریقے سے برطانیہ آئے تھے
وزیر دفاع سے جب لیبر پارٹی کے ارکانِ اسمبلی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا ”دیکھیں گے کہ قانون کے تحت کوئی راستہ ہے، جس کے ذریعے ان کی درخواست قبول کی جا سکے“
لیکن انہوں نے مزید کہا ”اصولی طور پر، برطانوی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کام کرنے والے کے بجائے، افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے ایک رکن کے طور پر، (پائلٹ) خود بخود دائرہ کار میں نہیں آئے گا۔“
واضح رہے کہ برطانیہ میں متعدد مذہبی رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پائلٹ کو پناہ دی جائے اور روانڈا ملک بدر نہ کیا جائے۔ برطانیہ نے روانڈا کی حکومت سے معاہدہ کیا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، پناہ گزینوں کو روانڈا میں رکھا جائے گا
ادہر مذکورہ پائلٹ نے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کو بھی خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے ان سے اس کیس میں مداخلت کی اپیل کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح برطانیہ اور مغرب نے ان کی خدمات کو بھلا دیا ہے
حکومتی ترجمان نے بتایا ”ہم 2015ع سے افغانستان، شام، ہانگ کانگ اور یوکرین سے تحفظ کے لیے آنے والے پانچ لاکھ لوگوں کو پناہ دی ہے۔“