کیا ’ای ڈی این اے‘ انسانوں کی رازداری کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوگا؟

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے ’ای ڈی این اے‘ (eDNA) کی دریافت کے بعد اس کی رازداری اور نگرانی کے حوالے سے کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے ، جیسا کہ انسانوں کی طرف سے مسلسل پھیلایا جانے والا ان کا جینیاتی مواد سائنسی ترقی کی بدولت اب ان کی رازداری کو بھی متاثر کر سکتا ہے

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کی طرف سے ان کی کہیں بھی موجودگی کے عرصے کے دوران مختلف شکلوں میں لیکن مسلسل پھیلائے جانے والے جینیاتی مواد کے نشانات کو اب جلد ہی کسی بھی فرد یہاں تک کہ پورے کے پورے نسلی گروہوں کا پتہ لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا

سائنسدانوں نے حال ہی میں اس حوالے سے ’اخلاقی دلدل‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ انتباہ بھی جاری کیا ہے

حال ہی میں تیار کی گئی ایک نئی تکنیک ماحولیاتی ڈی این اے یا eDNA نامی جینیاتی مواد کے چھوٹے چھوٹے نمونوں سے بھی بہت سی معلومات اکٹھا کی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ جینیاتی مواد ہے، جس کے نشانات سبھی انسان اور جانور اپنے پیچھے ہوا میں اور زمین پر ہر جگہ چھوڑ جاتے ہیں

نیچر ایکالوجی اینڈ ایوولیوشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مصنفین کے مطابق یہ طریقہِ کار طبی اور سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مجرموں کا سراغ لگانے میں بھی بہت زیادہ مدد کر سکتا ہے۔ تاہم ان سائنسدانوں کے مطابق یہی پہلو رازداری اور نگرانی کے حوالے سے بہت سے خدشات کو بھی جنم دیتا ہے

واضح رہے کہ انسانی ڈی این اے جلد یا بالوں کے خلیات، کھانسی کے دوران منہ سے ہوا کے ساتھ خارج ہونے والے ذرات یا پھر بیت الخلاء میں بہائے گئے استعمال شدہ اور گندے پانی سمیت ہر جگہ ہو سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سائنسدان معدومیت کے خطرے سے دو چار جانوروں کی بقا میں مدد کے لیے جنگلی جانوروں کے ’ای ڈی این اے‘ نمونے بڑی تیزی سے جمع کرتے رہے ہیں

امریکہ کی یونیورسٹی آف فلوریڈا کی وِہٹنی لیبارٹری فار میرین بائیو سائنس کے تحقیقی ماہرین کی توجہ بقا کے خطرے کے شکار سمندری کچھووں کے ای ڈی این اے نمونے جمع کرنے پر مرکوز تھی۔ لیکن محققین کی اس بین الاقوامی ٹیم نے اتفاقی طور پر انسانی ای ڈی این اے کی ایک بڑی مقدار بھی جمع کر لی، جسے انہوں نے ’ہیومن جینیٹک بائی کیچ‘ کا نام دیا

وِہٹنی لیبارٹری میں جنگلی حیات میں پائی جانے والی بیماریوں کے جینومک پروفیسر ڈیوڈ ڈفی اس تحقیقی منصوبے کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ملنے والے انسانی ای ڈی این اے کی مقدار اور اس کے معیار پر ’مسلسل حیران‘ ہیں

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”زیادہ تر کیسز میں ای ڈی این اے کا معیار تقریباً کسی بھی شخص سے براہ راست حاصل کردہ نمونوں کے معیار کے برابر ہی ہوتا ہے‘‘

اس ریسرچ ٹیم نے ایک ویٹرنری ہسپتال میں ہوا سے ای ڈی این اے کے نمونے حاصل کر کے اس کے عملے، عملے کے زیرِ علاج بیمار جانوروں اور جانوروں میں عام وائرس تک کا پتہ چلا لیا۔ اس تحقیقی مطالعے کے مصنفین میں سے ایک وِہٹنی لیبارٹری کے مارک میکالی نے کہا کہ ڈی این اے کے نمونوں کو ترتیب دے کر ٹیم یہ شناخت کرنے میں بھی کامیاب رہی کہ آیا کسی شخص کو آٹزم اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا خطرہ زیادہ خطرہ ہے

مارک میکالی کا کہنا تھا ”یہ سارے کا سارا ذاتی، موروثی اور صحت سے متعلق ڈیٹا ماحول میں آزادانہ طور پر دستیاب ہے اور یہ اس وقت بھی ہمارے ارد گرد کی ہوا میں تیر رہا ہے‘‘

امریکہ ہی کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں قانون کی پروفیسر نیتالی رام، جو اس سائنسی تحقیق کا حصہ نہیں تھیں، کہتی ہیں ”ان نتائج سے جینیاتی راز داری یا جینیٹک پرائیویسی اور پولیسنگ کے حوالے سے ان کے استعمال اور ان کی حدود کے بارے میں سنگین تشویش پیدا ہونا چاہیے‘‘

پروفیسر نیتالی رام نے متنبہ کیا کہ کسی بھی فرد کی رضامندی کے بغیر اس کے ای ڈی این اے کا استعمال عام لوگوں کو انفرادی سطح پر ٹریک کرنے حتیٰ کہ ’کمزور سماجی گروہوں اور نسلی اقلیتوں‘ کو نشانہ بنانے تک کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے

ان ہی خدشات کی بنا پر ای ڈی این اے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی ٹیم نے خود بھی اس حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے ایک بیان میں پالیسی سازوں اور دیگر سائنسدانوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ایسے ضابطوں کی تیاری کے لیے کام شروع کر دیں، جو eDNA کے حوالے سے ممکنہ ’اخلاقی دلدل‘ کا قبل از وقت تدارک کر سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close