بلوچستان کی حکومت نے حال ہی میں گرفتار ہونے والے بلوچ علیحدگی پسند رہنما گلزار امام شنبے کو منگل کے روز میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے
گلزار امام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ”مسائل کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے، کئی سالوں سے جاری لڑائی میں نقصانات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ میں نے محسوس کیا ریاست ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں اصلاح کا موقع دے گی“
وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو اور سینیٹر آغا عمر احمد زئی بھی اس کانفرنس میں موجود تھے
گلزار امام عرف شمبے کو کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع سول سیکریٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے میڈیا سے مختصر بات چیت کی اور چند سوالات کے جوابات بھی دیے
گلزار امام بظاہر صحتمند نظر آ رہے تھے، ان کی شیو بنی تھی، سفید شلوار قمیض میں تھے اور کالی ویسٹ کوٹ پہن رکھی تھی
کانفرنس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ آڈیٹوریم میں صحافیوں کو موبائل فون اور کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں تھی اور صرف سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے کیمرے کوریج کر رہے تھے، تاہم صحافیوں کو سابق عسکریت پسند رہنما سے سوال کرنے کی اجازت تھی
میڈیا کے نمائندوں کی طرف سے تین سوالات پوچھنے کے بعد میر ضیا لانگو نے مزید سوال روک دیے اور کہا ”گلزار امام شاملِ تفتیش ہے، اس لیے مزید سوالات نہیں کیے جا سکتے“
گلزار امام شمبے نے اپنے تعارف سے بات شروع کی اور اپنی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں پر پیشمانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا ”میں گزشتہ پندرہ سالوں سے بلوچستان میں جاری مسلح تحریک کا متحرک حصہ رہا ہوں، اس شورش میں ہر طرح کے حالات سے گزرا ہوں۔ بحیثیت بلوچ میرا مقصد اپنی قومی زبان، اپنے علاقے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے“
ان کا کہنا تھا ”میں کچھ عرصہ قبل گرفتار ہوا۔ دوران حراست مجھے اپنے ماضی کو نئے زوایے سے دیکھنے اور پرکھنے کا اچھا موقع ملا۔ اس دوران میں نے مسلح تحریکوں کا عالمی لٹریچر کا نزدیک سے تجزیہ کیا اور میں بلوچ قومی پرامن تحریک کے اکابرین سے بھی ملا ہوں۔ جن سے بحث و مباحثے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ صرف آئینی و سیاسی طریقے سے ممکن ہے“
گلزار امام کا کہنا تھا ”ریاست کو سمجھے بغیر ہم نے اس جنگ کا آغاز کیا۔ میں بہت عرصہ لڑا، جس سے آپ سب واقف ہیں۔ میں نے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو کھویا۔ ایک تکلیف دہ تجربے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا، وہ غلط تھا“
انہوں نے کہا ”مسلح جنگ سے بلوچستان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھبیر سے گھبیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ مخصوص طاقتیں بلوچ کو صرف ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں“
گلزار امام کا کہنا تھا ”میں سمجھتا ہوں کہ نقصان صرف بلوچ قوم کا ہو رہا ہے، لہٰذا میں اپنی مرضی سے پیش ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ مسلح جنگ سے بلوچستان ترقی میں پیچھے اور پتھروں کے زمانے میں چلا گیا ہے۔ میں اپنے دوستوں سے، جو مسلح جنگ میں مصروف عمل ہیں، اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں تاکہ ریاست کے ساتھ بات چیت، منطق اور دلائل کے ساتھ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں“
سابق عسکریت پسند رہنما نے کہا ”لڑائی سے بلوچستان مزید پسماندگی کا شکار ہو گیا ہے اور دوسرے صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں بلوچ طالب علموں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ لڑائی میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے بلوچستان کی حقیقی ترقی میں اپنا پرامن کردار ادا کریں۔ ہمارے مسائل کا پرامن حل ممکن ہے۔ دنیا اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دنیا میں جتنے مسائل ہوئے ہیں، ان کا حل پرامن بات چیت کے ذریعے ہی نکالا گیا ہے“
ان کا کہنا تھا ”بلوچستان آج جن مسائل کا شکار ہے، میں سمجھتا ہوں وفاقی اور صوبائی حکومت، ریاست کے ادارے اور بلوچستان کی مسلح تنظیمیں سب اس کے ذمہ دار ہیں، لہٰذا ہمیں کئی سالوں سے جاری اس بلا سود کی لڑائی میں نقصانات کا احاطہ کرنا چاہیے“
گلزار امام کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے اداروں کو بلوچستان کے مسائل کا ادراک ہے اگر آپ کا طریقہ ٹھیک ہو تو میں نے محسوس کیا کہ وہ سنتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ریاست ایک ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں اصلاح کا موقع دے گی“
گلزار امام نے کہا ”میں تمام لواحقین سے معافی کا طلبگار ہوں جن کے لوگ اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں یا مالی نقصانات ہوئے ہیں“
پریس کانفرنس میں مسلح تحریک کو چلانے کے لیے فنڈنگ اور غیر ملکی مدد کے حوالے سے سوال کے جواب میں گلزار امام کا کہنا تھا ”دنیا میں اصول ہے جہاں جنگیں ہوتی ہیں، وہاں ضرور ہر ملک کے مفادات ہوتے ہیں جو تحریکیں اور جنگیں چلتی ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اسی طرح بلوچ بھیس میں لڑی والی جنگ کے بھی اپنے مفادات ہوں گے۔ بلوچوں کے جیو پولیٹیکل حیثیت پر دنیا کی نظریں ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اس لیے بلوچوں کو کہیں نہ کہیں سے ضرور تعاون مل رہا ہوگا“
مقدمات کا سامنا کرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام قانونی ضابطے پورے کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسلح تنظیموں سے وابستہ افراد کو بات چیت پر قائل کرنے سے متعلق سابق عسکریت پسند رہنما کا کہنا تھا ”بات چیت کے لیے میری سوچ یہی ہے کہ رابطے کی کوشش کروں گا تاکہ جو دوست وہاں بیٹھے ہیں وہ واپسی کا راستہ انتخاب کریں اور ہم بلوچستان کی حقیقی ترقی میں مل کر اپنا کردار ادا کریں“
ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کی نظر میں بلوچستان کے بنیادی مسائل کیا ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں؟ اس پر گلزار امام نے بے روزگاری، لاپتہ افراد اور صوبے میں سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کو بڑی وجوہات قرار دیا
انہوں نے کہا ”میں سمجھتا ہوں بے روزگاری بلوچستان کا بڑا مسئلہ ہے یہاں وسائل ہونے کے باوجود بے روزگاری ہے۔ اسی طرح لاپتہ افراد ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ اسی طرح میں سرکاری ٹھیکیدار رہا ہوں میں نے محکمہ بلدیات میں ٹھیکیداری کی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان میں فنڈز کا درست استعمال نہیں ہو رہا“
ایک سوال پر گلزار امام کا کہنا تھا ”بلوچستان کی شورش کی سیاسی تاریخ رہی ہے، جس سے سب واقف ہے (بلوچستان کے لوگوں کے) تحفظات تو ہیں کمزوریاں دونوں جانب سے بہت زیادہ ہیں، لیکن کم سے کم ایک سال تک میں یہاں (حراست میں ) رہا ہوں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ ریاست کی جانب سے ان تحفظات کو دور کرنے کی سنجیدگی ہے“
مسلح جنگ میں کیا کیا کھویا؟ اس پر گلزار امام کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عزیز و قارب دوستوں کو کھویا۔ انہوں نے کہا ”آج بھی جو اس جنگ میں شریک ہیں ان سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ہمسائیہ ممالک کو بھی دیکھیں جن کے اپنے مفادات ہیں جو ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں“
اس دوران وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر پریس کانفرنس ختم کردی کہ ”آپ بہت زیادہ سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے انہیں عدالت میں بھی پیش کرنا ہے“
اس موقع وزیر داخلہ میر ضیا لانگو کا کہنا تھا ”ریاست بات چیت پر یقین رکھتی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں، بات چیت آخری آپشن ہے۔ جس کو حقوق نہیں ملتے وہ پاکستان کے آئین و قانون کے تحت حقوق مانگے، لیکن وہ لوگ جو ریاست کی بنیادوں سےکھیلیں گے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی، کوئی بات چیت کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔“
سنیٹر آغا عمراحمد زئی نے اس موقع پر کہا ”ہمارے سامنے ایران عراق کی جنگ کی مثال ہے، جن کے درمیان لڑائی ہوئی اور آخر مسئلہ مذاکرات سے حل ہوا۔ افغانستان آپ کے سامنے ہے، جس نے سپر پاور سے لڑائی کی اور آخر میں مذاکرات ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ مفاہمتی عمل کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت کو طلبہ کے لیے راستہ کھولنا چاہیے، پانچ ہزار طلبہ سالانہ گریجویٹ ہوتے ہیں، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، ان کو مصروف رکھا جائے“
گرفتاری
گلزار امام کی گرفتاری کی خبر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے سات مئی کو جاری کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز نے انٹیلیجنس آپریشن میں ہائی ویلیو ٹارگٹ گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا
یاد رہے گلزار امام کی تنظیم نے لگ بھگ ساڑھے چار ماہ قبل گرفتاری کی اطلاع دی تھی
بی این اے کے ترجمان مرید بلوچ نے نومبر 2022 میں جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ گلزار امام پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں
آئی ایس پی آر کے مطابق بی این اے، بلوچ ریپبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے وجود میں آئی تھی اور اس تنظیم نے 20 جنوری 2022 کو لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی، نیز بلوچ نیشنلسٹ آرمی پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث ہے
آئی ایس پی آر کے مطابق گلزار امام 2018 تک بلوچ ریپبلکن آرمی میں براہمداغ بگٹی کے نائب بھی رہے
آئی ایس پی آر کے مطابق گلزار امام کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک کامیاب آپریشن کے بعد گرفتار کیا گیا اور یہ گرفتاری بی این اے اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ دشمن انٹیلیجنس ایجنسیوں سے گلزار امام کے روابط کی چھان بین کی جا رہی ہے
گلزار امام کون ہیں؟
گلزار امام بی این اے کے بانی رہنما ہیں اور آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی تشکیل میں بھی گلزار امام کا کردار رہا ہے، جبکہ وہ بلوچ راجی آجوئی سانگر کے آپریشنل سربراہ بھی تھے
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے لیے ضیاء الرحمٰن خان کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے شہر پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلزار امام نے سیاست کا آغاز 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے ’امان‘ نامی ایک دھڑے سے کیا تھا
انہیں برسوں میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تین دھڑوں کا انضمام اور اس کے بعد دوبارہ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، تو گلزار امام بلوچ علیحدگی پسند رہنما بشیر زیب کی قیادت میں بننے والے ایک دھڑے میں شامل ہو گئے
بشیر زیب آج کل بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں
پنجگور کے ایک سیاسی رہنما کے مطابق کہ 2008 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بی ایس او (آزاد) کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا تھا
اس دوران گلزار امام نے بلوچ عسکریت پسند رہنما براہمداغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعد ہی انہیں بی آر اے مکران ریجن کا کمانڈر بنا دیا گیا
براہمداغ بگٹی سے علیحدگی
براہمداغ بگٹی ممتاز بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں، جو بلوچ ری پبلکن آرمی کے ساتھ ساتھ بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں
سن 2006ع میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد براہمداغ بگٹی افغانستان منتقل ہو گئے تھے جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے
سن 2018 کے وسط میں گلزار امام کے براہمداغ بگٹی کے ساتھ مختلف معاملات پر اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے، جس میں ایک اہم وجہ طبقے کی بنیاد پر قیادت تھی
اکتوبر 2018 میں بی آر اے کی جانب سے ایک اعلامیے میں گلزار امام پر ماورائے عدالت قتل اور بھتہ وصولی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں تنظیم سے نکالے جانے کا اعلان کیا گیا۔ یوں بی آر اے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑے کی سربراہی براہمداغ بگٹی جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی گلزار امام کر رہے تھے
بی آر اے میں دھڑے بندی کے بعد گلزار امام نے ایک بیان میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی، حیربیار مری اور مہران مری کا نام لیے بغیر بلوچ شورش میں شامل سرداروں پر کڑی تنقید کی تھی
اُن کا کہنا تھا ”بلوچ تحریک کی وہ قیادت جو سردار گھرانوں پر مشتمل ہے، انہیں کارکنان کے ساتھ قبائلی رویہ برتنا ترک کرنا پڑے گا اور تنظیم کے اندر موجود مسائل کا حل قبائلی نہیں بلکہ سیاسی طریقۂ کار سے نکالنا پڑے گا۔“
مبصرین کے مطابق اپنے دھڑے کی تشکیل کے بعد گلزار امام مکران کی سطح پر خصوصاً پنجگور میں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما کے طور پر ابھر کرسامنے آئے جب کہ براہمداغ بگٹی کا دھڑا کافی کمزور ہوا
گلزار امام نے بی آر اے کے اپنے دھڑے کو بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ کا بھی حصہ بنایا جو جولائی 2020 میں پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا
براس میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی، گلزار امام بلوچ کی ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیمیں شامل تھیں
11 جنوری 2022 کو دو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گلزار امام کی بی آر اے اورسرفراز بنگلزئی کی قیادت میں قائم یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے ایک دھڑے نے انضمام کرکے ’بی این اے‘ کے نام سے ایک نئی علیحدگی پسند تنظیم کے قیام کا اعلان کیا
گلزار امام کی گرفتاری اور بیان کی اہمیت
تجزیہ کاروں کے نزدیک گلزار امام کی گرفتاری بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ تجزیہ کار سلیم صافی نے جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گلزار امام کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا یہ کلبوشن جادھو کی گرفتاری کے بعد آئی ایس آئی کی سب بڑی کامیابی قرار دی جاتی ہے۔‘
ان کے بقول ’گلزار امام میدان کے آدمی تھے وہ نوجوانوں کو فیلڈ میں جا کر لڑاتے تھے۔ خوش آئند بات ہے کہ ریاست نے فیصلہ کیا ہے ان کو لاپتہ کرنے، مارنے یا انتقام لینے کے بجائے معاف کیا جائے اور قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ خود بھی اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کو بھی ان کی تلقین کریں۔‘
سلیم صافی کے مطابق ’عسکریت پسند اپنے ماضی کے حوالے سے ایک جگہ پھنس گئے ہیں اور ریاست اپنی جگہ پھنس گئی ہے۔ اب ریاست کی جانب سے موقع دینا اچھی بات ہے۔ اس سے باقی عسکریت پسندوں کو اچھا پیغام جائے گا۔ گلزار امام شمبے کی جانب سے بھی یہ اچھا فیصلہ ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے سیاسی محاذ پر بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’گلزار امام اس سے پہلے ٹھیکیدار تھے۔ حافظ قرآن تھے، پڑھے لکھے آدمی تھے ان کا دوسرے لوگوں کو عسکریت پسندی کی جانب راغب کرنے میں بڑا کردار رہا ہے۔‘
سلیم صافی کے مطابق ’ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہے اور پرآسائش زندگی گزارے۔ بلوچستان میں لوگوں کی عسکریت پسندی کی جانب جانے کی وجہ ریاست کی غلطیاں اور صوبے کی محرومیاں ہیں۔ ریاست کو سوچنا چاہیے کہ لوگ اس جانب کیوں گئے۔‘
ان کا کہنا تھا ’عسکریت پسندی چاہے وہ کوئی بھی ہو دائمی حل صرف فوجی آپریشن نہیں ہیں۔ ریاست کو محرومیاں دور کرنا ہوں گی یہ یقینی بنانا ہوگا کہ لوگ اس جانب نہ جائیں۔‘