اینٹی کرپشن واچ ڈاگ، اسپاٹ لائٹ آن کرپشن نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کے ساتھ 2019 میں عدالت سے باہر ہونے والے تصفیے کے بارے میں عوامی سطح پر بیان دے
’اسپاٹ لائٹ آن کرپشن‘ نے کہا ہے ”ہمیں تشویش ہے کہ یہ تصفیہ اب پاکستان میں سیاسی بحران اور بدعنوانی کے الزامات کا مرکز ہے“
واچ ڈاگ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے ”اس کیس کی وسیع تر غلط معلومات اور متعصبانہ رپورٹنگ کے پیش نظر جو کہ سنگین سماجی بدامنی کا باعث بن رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ این سی اے تصفیے کے بارے میں ایک عوامی بیان دے اور بنیادی تصفیہ دستاویز جاری کرے“
یاد رہے کہ سال 2019 میں بھی واچ ڈاگ نے پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے طریقے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے واجبات میں کمی کر کے ملک ریاض این سی اے کے ساتھ ہوئے تصفیے کی مد میں ادا کردہ رقم سے بذاتِ خود مستفید ہوئے
ان کا کہنا تھا ”ہمارا خیال یہ ہے کہ این سی اے کو کبھی بھی اپنے آپ کو کسی غیر ملکی ریاست سے متاثر ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اس طرح سے اپنی تحقیقات کو دوبارہ کیسے انجام دیتا ہے“
واچ ڈاگ نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ’وہ روس سے آگے بھی کچھ دیکھے‘
ان کا کہنا تھا ”کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی بدعنوان اشرافیہ آسانی کے ساتھ کسی بھی پارٹی کے کسی بھی قابل اعتماد قانون نافذ کرنے والے یا سیاسی ردعمل کے بغیر برطانیہ میں آنے اور جانے، جائیداد خریدنے، یا سیاسی فنڈ ریزنگ کی تقریبات منعقد کرتی ہے
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ایک چونکا دینے والا الزام ہے کہ ہم کس طرح پوری دنیا میں کلیپٹو کریسی کو فعال کرنے میں اپنے کردار سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں
ذرائع کے مطابق این سی اے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی درخواست پر عوامی بیان دینے سے گریز کر رہا ہے، جو پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش کا شکار ہے
تاہم، ایف سی ڈی او اور این سی اے دونوں نے تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا
عمران خان کیا کہتے ہیں؟
عمران خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں پاکستانی کرنسی میں تبدیل ہونے کے بعد جمع کرائی گئی تھی۔ اگر منتقل کی گئی یہ رقم ’ناجائز‘ ہے اور بحریہ ٹاؤن نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے تو یہ واقعی عجیب بات ہے کہ آج تک آپ نے بحریہ ٹاؤن کے مالکان کے خلاف کوئی تعزیری اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں مذکورہ رقم کی وصولی کے لیے اس بنیاد پر کوئی درخواست دی کہ یہ ناجائز رقم ہے
سابق وزیراعظم عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف کارروائی میں ناکامی کی نشاندہی کرتے ہوئے تحقیقات کی صداقت پر سوال اٹھایا
عمران خان نے کہا کہ یہ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں پاکستانی کرنسی میں تبدیل ہونے کے بعد جمع کرائی گئی تھی۔ اگر منتقل کی گئی یہ رقم ’ناجائز‘ ہے اور بحریہ ٹاؤن نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے تو یہ واقعی عجیب بات ہے کہ آج تک آپ نے بحریہ ٹاؤن کے مالکان کے خلاف کوئی تعزیری اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں مذکورہ رقم کی وصولی کے لیے اس بنیاد پر کوئی درخواست دی کہ یہ ناجائز رقم ہے
انہوں نے نیب کو بتایا کہ چونکہ وہ ملک ریاض اور نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے لاعلم تھے، اس لیے انہوں نے شہزاد اکبر کی بریفنگ پر انحصار کیا ، اسی لیے یہ معاملہ کابینہ میں زیر بحث نہیں آیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ سے ایک خفیہ معاہدہ منظور کروایا تھا۔ تاہم میں ایسے کسی دوسرے خفیہ معاہدے سے واقف نہیں ہوں جس پر شہزاد اکبر نے 06 نومبر 2019 کو دستخط کروائے ہوں
عمران خان نے نیب کو بتایا کہ میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ میں رازداری کے کسی خفیہ معاہدے سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے برطانیہ سے ریاست پاکستان کو رقوم کی واپسی کے لیے این سی اے کو کوئی نامزد اکاؤنٹ فراہم کرنے میں حصہ لیا
القادر ٹرسٹ کیس کے دیگر کرداروں کی باری کب آئے گی؟
القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں ایک بھونچال کی سی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کو اس اسکینڈل کے دیگر کرداروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی، جن میں مرکزی کردار ملک ریاض بھی شامل ہیں
پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے القادر ٹرسٹ کیس میں ملک کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے
واضح رہے کہ پاکستان میں احتساب کا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق باقاعدہ تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صرف عمران خان کے خلاف پھرتی کے ساتھ کارروائی ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن حکومتی عہدیدار اور میڈیا ملک ریاض کا نام تک نہیں لے رہے اور صرف ’ایک پراپرٹی ٹائیکون‘ کہہ کر معاملے کو گول کر رہے ہیں
نیب کے امور پر نگاہ رکھنے والے ایک تجزیہ کار برگیڈئر فاروق حمید کہتے ہیں ”مجھے نہیں لگتا کہ القادر ٹرسٹ معاملے کے بقیہ کرداروں کے خلاف کوئی موثر کارروائی ہو سکے گی۔ خاص طور پر ملک ریاض کے خلاف کارروائی تو بہت ہی مشکل ہے کیونکہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور اشرافیہ میں ان کا کافی اثر رسوخ ہے، وہ میڈیا کو اشتہار دیتے ہیں اس لیے ان کے خلاف مین اسٹریم میڈیا بھی سوال اٹھانے سے عموما گریز کرتا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں کئی مرتبہ جب ٹی وی چینلز پر جاتا ہوں تو وہاں کبھی ملک ریاض کے بارے میں بات کرنی پڑے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام نہیں لینا اس سے اشتہارات متاثر ہو سکتے ہیں“
انہوں نے کہا ’’بعض لوگ انہیں کنگ میکر بھی سمجھتے رہے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے دور میں ڈاکٹر طاہرالقادری لانگ مارچ نکانے جا رہے تھے تو ان کو منانے کے لیے ملک ریاض ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس آئے تھے۔‘‘
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ نیب کے حکام نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا کہ ملک ریاض کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں کافی ٹھوس مواد موجود ہے، لیکن اس کے باوجود تجزیہ کار رضوان رضی کہتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض کو قانون کے کٹہرے میں لانا آ سان نہیں ہے
رضوان رضی کا کہنا ہے کہ ایک ایسا شخص، جس کے خلاف ملک کے ٹاپ ٹین ٹی وی چینلز میں خبر تک نہ آ سکے اس پر کون ہاتھ ڈال سکے گا۔ وہ اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹس کے لیے بحریہ کا نام استعمال کرتے رہے اس پر ان کے خلاف عدالت کا فیصلہ بھی آیا لیکن وہ حکم امتناعی لے کر کام کرتے رہے
سینئر صحافی میاں غفار کہتے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کے نام پر صرف عمران خان کے خلاف کارروائی مناسب نہیں۔ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ میاں غفار کو یقین ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں انسانوں کی قیمت لگانا قدرے آسان ہے، اس لیے ملک ریاض کے خلاف کارروائی ہونے کا کوئی امکان نہیں
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کے علاوہ بھی کئی اور ایسے سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک ریاض کو جواب دینے ہیں۔ ان کے بقول ملک ریاض اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹس کے لیے گاؤں کے گاؤں خریدتے رہے لیکن کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ ان دیہاتوں میں سڑکوں اور دیگر سرکاری املاک کی صورت میں موجود اراضی کہاں گئی؟