پاکستان میں بدلتے ہوئے حالات میں ایک مرتبہ پھر سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث جاری ہے۔ تجزیہ کار اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی سیاسی حکومت بنوانے میں کامیاب ہو سکے گی؟ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والی حکومت کی کامیابی کے امکانات کتنے ہوں گے
حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ایک ‘کنگز پارٹی‘ تیار کی جا رہی ہے، جس میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو شامل کیا جائے گا۔ دوسری طرف ایک بڑے ٹی وی چینل پر بات کرنے والے کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں نے پنجاب میں دو نئی سیاسی جماعتیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے ایک جہانگیر ترین کی سیاسی جماعت ہوگی اور دوسری عمران خان کو ‘مائینیس‘ کر کے بننے والی پاکستان تحریک انصاف ہوگی
کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بننے والی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا اندازہ لگانے سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستانی سیاست میں مداخلت نہ کرنے اور غیرجانبدار رہنے کا اعلان کر چکنے والی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خود اپنی مرضی کی سیاسی جماعت بنانے اور اقتدار میں لانے میں کوئی دلچسپی رکھتی بھی ہے یا نہیں؟
ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ یہ بات قبل از وقت ہے۔ ابھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی بنیادی حیثیت منوانے کا چیلنج درپیش ہے۔ وہ ابھی کئی دوسرے مسائل کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔ مرضی کی حکومت بنوانے کا مرحلہ ابھی دور ہے
ایک اور تجزیہ نگار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا رول ختم ہو گیا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی ساری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہی ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو انگیج کر کے ہی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے نظر آتے رہتے ہیں
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید کہتے ہیں کہ اس صورتحال کو منفی انداز میں دیکھنا درست نہیں، اسٹیبلشمنٹ پاکستانی کی ریاست کا ایک ایم ستون اور اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس کے کاندھوں پر نہ صرف قومی سلامتی کا بوجھ ہے بلکہ اس نے کئی مرتبہ سویلین حکومت کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کے حل میں مدد دی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ایک زمینی حقیقت ہے اس کو نظر انداز کرکے اہم فیصلے نہیں کیے جا سکتے، اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے
کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومت بنوانے کی اب بھی اہلیت رکھتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف سیاسی مبصرین مختلف آرا کا اظہار کرتے ہیں
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے خیال میں حکومت بنانے کے عمل میں بہت سے عوامل درپیش ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ساری چیزیں طے شدہ انداز میں آگے بڑھیں یہ حالات پر منحصر ہے کہ وہ کسی ایسے اقدام کے لیے کس حد تک سپورٹ فراہم کرتے ہیں
سلمان عابد کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس نئی حکومت بنوانے کی طاقت تو موجود ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی انجنینرنگ، جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور سیاسی معاملات میں مداخلت جیسے پرانے الزامات کا پھر سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفاد میں یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے دور رہے
ڈاکٹر عاصم کے بقول اسٹیبلشمنٹ فی الحال اپنی طاقت منوانے کے مرحلے سے گذر رہی ہے جسے پچھلے کچھ عرصے میں چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اپنی کھوئی ہوئی رٹ کی بحالی تو ضرور چاہے گی۔ اگر اس نے اپنا وزن کسی سیاسی دھڑے کی طرف ڈال دیا تو اس کے اثرات الیکشنز، ووٹرز اور سیاست پر ضرور ہوں گے
کیا اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے بننے والی حکومت کامیاب ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر عوام کی حمایت سے بننے والی حکومت ہی ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے
فاروق حمید کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی اسٹیبلشمنٹ اور عوامی منتخب حکومتیں ایک صفحے پر تھیں تب ملک میں استحکام بھی تھا اور ملک نے ترقی بھی کی تھی تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر فطری طور پر زبردستی بنوائے گئے اتحادوں کو برسر اقتدار لانے سے حکومت شارٹ ٹرم اہداف تو شاید پورے کر لے لیکن وہ لانگ ٹرم ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے گی
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اپنے لیے ”کمفرٹ زون‘‘ کی تلاش میں ہے۔ وہ پچھلے ایک سال سے سخت دباو میں رہی ہے۔ وہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاری پراپیگنڈے کا توڑ چاہتی ہے، معیشت کی بہتری کی خواہاں ہے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کا حل چاہتی ہے
ان کے خیال میں عام آدمی کی بہتری کے لیے ایک مضبوط حکومت ہی ڈیلور کر سکتی ہے لیکن اگر اتحادی اکٹھے کرکے ڈھیلی ڈھالی کمزور حکومت بنوائی گئی تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے گی
ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا اثر رسوخ آئندہ بھی رہے گا
کیا سیاستدان سیویلین بالا دستی کے لیے متحد ہو سکتے ہیں؟ اس سوال پر تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں ”جب تک پاکستانی سیاستدان خود سیویلین بالا دستی کے لیے مخلص ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہیں ہوتے سیویلین بالا دستی کا تصور خواب ہی رہے گا۔ سیاست دانوں کا ایک گروپ سویلین بالادستی کی بات کرتا ہے تو دوسرا اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتا ہے۔ پہلے نواز شریف سویلین بالادستی کی آواز بلند کر رہے تھے لیکن عمران اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔ اب عمران سیویلین بالادستی کی دہائی دے رہے ہیں لیکن نواز شریف اور پی ڈی ایم کے لوگ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گئے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو ووٹ کی عزت، سیویلین بالا دستی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پر عملی طور پر متحد ہونا ہوگا
فاروق حمید کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں سیاست دانوں کے سویلین بالا دستی کے لیے متحد ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہمارے سیاست دان اپنی اخلاقی پوزیشن کھو چکے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی اور اپنے خاندانوں سے آگے بڑھ کر نہیں سوچ رہے۔ وہ صرف شارٹ ٹرم مسائل کی طرف دیکھ رہے ہیں
ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں کہ پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ایک قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اگر سیاست دان الیکشن کی شفافیت پر کمپرومائز نہ کریں اور مرضی کے نتائج کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھیں تو ایک غیر متنازعہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے سویلین بالادستی کی طرف پیش رفت ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سیاست دانوں کو الیکشن اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے اپنے اندر اتفاق پیدا کرنا ہوگا۔