سوشل میڈیا کی تاریخ کی سب سے بڑی بندش کے باوجود حکومت عوامی مزاحمت سے نمٹنے میں ناکام کیوں رہی؟

ویب ڈیسک

گزشتہ دنوں پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ایک طرف جہاں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے خلاف سڑکوں پر تھے، وہیں سوشل میڈیا اس جنگ کا دوسرا میدان بنا ہوا تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس جنگ میں عمران خان کے حامیوں کا پلڑا بھاری دکھائی دیا

منگل کو جیسے ہی عمران خان کی نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں گرفتاری کی وڈیو وائرل ہوئیں تو اس کے فوری بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر آنسو گیس کے شدید دھوئیں اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کی تصاویر گردش کر رہی تھیں

اس بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے انٹرنیٹ ہی بند کر دیا۔ پورے ملک میں سوشل میڈیا سائٹس بند ہو گئیں، لوگوں کو فیس بک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہوا

انٹرنیٹ کے اس بلیک آؤٹ کے لیے پاکستانیوں کی اکثریت تیار نہیں تھی۔ جن کے لیے ممکن تھا، انھوں نے وی پی این کا استعمال کیا- یہ ایسی سروس ہے، جو کسی صارف کے انٹرنیٹ کے مقام کو بدل دیتی ہے۔ ٹریکرز کے مطابق ایسی خدمات کی مانگ میں تیرہ سو فیصد اضافہ ہوا

پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ٹی وی دیکھنا فائدہ مند نہیں کیوں کہ کیا بتایا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، اس کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ حکومت نے مزاحمت کے دوران انٹرنیٹ کی بندش کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام معلومات پر کنٹرول رکھنے، احتجاج اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ملک کو آف لائن کرتے ہیں

امریکہ کے دی ایٹلانٹک کونسل نامی تھنک ٹینک کے عزیر یونس کہتے ہیں ”پاکستان میں عام لوگوں کا مرکزی میڈیا پر اعتماد اس حد تک ختم ہو چکا ہے کہ لوگ آن لائن جا کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے“

تو جب عمران خان کی گرفتاری جیسی بریکنگ خبر کا معاملہ ہو تو لوگ آن لائن جاتے ہیں، نامور صحافیوں اور یو ٹیوب چینل کا سہارا لیتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں

عزیر کہتے ہیں ”میں جیو نیوز دیکھ رہا تھا جو ملک کا ایک بڑا براڈ کاسٹر ہے، لیکن مجھے ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر مظاہروں کے بارے میں زیادہ معلومات مل رہی تھیں کہ کہاں آنسو گیس چل رہی ہے اور کہاں کون زخمی ہوا ہے۔ جیو یہ سب نہیں دکھا رہا تھا“

پاکستان میں ڈجیٹل حقوق پر کام کرنے والی کارکن نگہت داد کا کہنا ہے کہ لوگ جس طرح کی بھی معلومات حاصل کر رہے ہوں، ان کی آن لائن موجودگی کو محدود کرنا بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے

ڈجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سربراہ کا کہنا ہے ”جب آپ انٹرنیٹ بند کر دیتے ہیں تو لوگوں کے پاس معلومات تک رسائی کا اختیار باقی نہیں رہتا“

ان کا ماننا ہے کہ ایسی پابندی آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہے۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ تک رسائی کا حق اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے

گذشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں انٹرنیٹ سنسرشپ عام ہوتی جا رہی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار انٹرنیٹ کی بندش اب تک کی سب سے سخت سنسرشپ تھی

عمران خان نے اپنی سیاسی واپسی کے سفر میں اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ان کی ریلیوں میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہوتی ہے

برطانیہ میں انٹرنیٹ مانیٹر کرنے والی کمپنی نیٹ بلاکس کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے قبل ان کی تین ریلیوں کے دوران انٹرنیٹ کی بندش ہوئی، لیکن اس بار کی بندش سب سے سخت تھی

نیٹ بلاکس کے ایلپ توکر کہتے ہیں کہ حالیہ وقتوں میں یہ پاکستان کی سب سے سخت انٹرنیٹ بندش تھی

انھوں نے کہا ”اس بار بندش کے مختلف طریقے وسیع پیمانے پر استعمال کیے گئے، موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم دونوں کو نشانہ بنایا گیا، جو بیانیے پر قابو پانے کی واضح کوشش لگتی ہے“

نیٹ بلاکس کے مطابق جن علاقوں میں موبائل نیٹ ورک متاثر ہوا، ان کی اکثریت پنجاب میں تھی جو پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور اس وقت عمران خان کا مضبوط گڑھ بن رہا ہے

ٹیلی کام اتھارٹی نے بعد میں اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے ہی وزارت داخلہ کی ہدایات پر انٹرنیٹ کی بندش کا انتظام کیا۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کے لیے انٹرنیٹ کی بندش ایک ایسا منفی اقدام تھا، جس نے صحت، ایمرجنسی اور معاشی سہولیات تک عوامی رسائی میں مشکلات پیدا کیں۔ جبکہ ملک کی پہلے سے ہی کمزور معیشت پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا۔ سامان کی رسد سے منسلک شعبے کے ساتھ ساتھ ٹیک کمیونٹی سمیت لاکھوں پاکستانی روزگار کے لیے انٹرنیٹ پر منحصر ہیں

بدھ کے دن سینکڑوں پاکستان کاروباری رہنماوں اور انسانی حقوق کارکنوں نے انٹرنیٹ کی بندش کی مذمت کی اور ایک خط کے ذریعے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملک کے متحرک ٹیک شعبے پر منفی اثر پڑے گا، جو بیرونی سرمایہ کاری لانے کے چند ذرائع میں سے ایک ہے

تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ حکام عمران خان کی آن لائن مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے ملکی معیشت کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں

تحریک انصاف کو سیاسی حریفوں پر یہ واضح برتری حاصل ہے کہ نوجوان اور ٹیکنالوجی سے لیس ووٹروں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ پارٹی کی سوشل میڈیا مشین مدمقابل جماعتوں سے بہت آگے ہے

اسفندیار میر یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ فار پیس سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو فوج مخالف سیاسی تحریک کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پریشانی لاحق ہے

اسفند یار میر کا کہنا ہے ”فوج ٹوئٹر پر اس بات پر نظر رکھتی ہے کہ کس ٹویٹ کو کتنی بار شیئر کیا گیا اور کس کو کتنا پسند کیا گیا اور اسی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سیاسی طور پر کس بات کو عوام کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے“

عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پی ٹی آئی ٹوئٹر پر اپنے 90 لاکھ صارفین کو وقتاً فوقتاً باقاعدہ معلومات فراہم کر رہی تھی۔ خود عمران خان کے ٹوئٹر پر ایک کروڑ نوے لاکھ فالوور ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں فوج کے ساٹھ لاکھ اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساٹھ لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں

عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جب فوج اور عمران خان کے راستے جدا ہوئے تو پی ٹی آئی آن لائن فوج کی حمایت کرنے والوں کو بھی اپنے ساتھ ہی لے اڑی

عزیر یونس کہتے ہیں ”تب سے عسکری اسٹیبلشمنٹ کو آن لائن محاذ پر پسپائی کا سامنا رہا ہے اور بیانیے پر قابو پانے میں مشکلات کا شکار رہی ہے“

عزیر یونس کہتے ہیں ”عسکری اسٹیبلشمنٹ کے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے جو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ اس لیے اسے بند کرنا ہی آسان طریقہ تھا“

لیکن سوشل میڈیا کو بند کرنا حالیہ انٹرنیٹ بندش کا صرف ایک پہلو تھا۔ مظاہرین کو منظم کرنے کی کوشش میں واٹس ایپ کافی اہمیت رکھتا ہے

سیاسی محاذ پر دونوں اطراف سے اپنا پیغام واٹس ایپ کے ذریعے پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری رہا

عزیر یونس کا کہنا ہے ”تحریک انصاف نے بہترین انداز میں ایسی کمینوٹیز اور گرپس تشکیل دیے ہیں، جن کے ذریعے اپنا بیانیہ یا معلومات پھیلائی جاتی ہیں“

عمران خان کی رہائی کے بعد انٹرنیٹ کی بندش رفتہ رفتہ ختم ہوئی لیکن سیاسی گرما گرمی اور آن لائن بحث اب تک جاری ہے

ڈجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں ”لوگ، عمران خان کے ساتھ جو ہوا، صرف اس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ معاشی صورت حال کی وجہ سے بھی جذباتی ہیں۔۔ یہ غصہ اور مایوسی اب پھٹنے کے قریب ہے، ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close