ایک طرف جہاں ماحولیاتی اثرات کے باعث صوبہ بلوچستان شدید موسمی حالات کا سامنا کر رہا ہے، وہیں قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے اب زیادہ تر علاقوں میں دن بہ دن پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے
مذکورہ صورتحال کے پیش نظر کوئٹہ کی بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بیوٹمز) کے شعبہ الیکٹرانکس انجینیئرنگ میں زیر تعلیم تین طلبہ نے اس بنیادی اور اہم مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے
طالب علم محمد موسیٰ اور ان کے دس ساتھیوں نے اپنے فائنل پروجیکٹ کے طور پر ’ایٹماسفیرک واٹر جنریٹر فار پبلک ڈسپینسر‘ نامی مشین بنائی ہے، جو ہوا میں موجود نمی سے صاف پانی نکال لیتی ہے
محمد موسیٰ کے مطابق ”اس مشین کو بنیادی طور پر چار چیزوں پل شیئر، ہیٹ سنک، ریڈی ایٹر اور بیٹری سے بنایا گیا ہے۔ مشین کو اسٹارٹ کرنے سے پہلے اس میں تھوڑا سا پانی ڈالتے ہیں لیکن جب یہ سٹارٹ ہوجائے تو یہ آہستہ آہستہ پانی پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے“
موسیٰ بتاتے ہیں ”اگر ہم رات کے وقت اسے اسٹارٹ کر دیں چوں کہ اس وقت ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے تو یہ مشین ایک گھنٹے میں تیس ملی لیٹر کے آس پاس صاف اور پینے کے قابل پانی ہوا سے کھینچ لاتی ہے“
موسیٰ نے مزید بتایا کہ یہ مشین اگر ان سمندری علاقوں میں نصب کی جائے، جہاں پر ہوا میں نمی زیادہ ہو تو یہ اور بھی اچھا نتیجہ دے سکتی ہے
محمد موسیٰ کے مطابق اس طرح کی مشین افریقہ میں بھی بنانے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر لاکھوں کا خرچہ آیا تھا
انہوں نے بتایا ”یہ ہم دوستوں نے اپنے جیب خرچ کے پیسوں سے ہی بنائی ہے، جس پر صرف ساٹھ ہزار روپے کے قریب خرچہ آیا ہے“
اس پروجیکٹ میں محمد موسیٰ اور ان کے دو ساتھیوں کے سپر وائز اور جرمنی سے شعبہ ایلیکٹرک انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر یوسف نودانی نے بتایا کہ بنیادی طور پر ان کو یہ خیال تب آیا، جب ان کے آبائی شہر سبّی جن کا شمار پاکستان کے گرم ترین شہروں میں ہوتا ہے میں پینے کا صاف پانی ناپید ہونے لگا
ڈاکٹر یوسف نودانی کے مطابق ”اگر ہم کیلکولیشن کریں تو ہوا میں اس وقت پینتیس سو لاکھ کروڑ گلین پانی کی بہت بڑی مقدار موجود ہے جو بغیر کسی استعمال کے ضائع ہوتا ہے اس مشین میں سے ہم ہوا میں موجود ننانوے فی صد نمی سے آسانی سے پانی حاصل کرسکتے ہیں جو نہ صرف ان لوگوں کے لیے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں بلکہ بلوچستان جیسے خشک علاقوں میں زراعت کے لیے بھی ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے“
محکمہ واٹر اینڈ سینیٹیشن اتھارٹی (واسا) کے اعداد و شمار کے مطابق صرف بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کی بائیس لاکھ آبادی کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اکیاسی ملین سے زائد گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ واسا کے جانب سے شہر میں بنائے گئے چار سو پانچ ٹیوب ویلز سے صرف پچیس ملین گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے
محکمہ واسا ہی کے مطابق کوئٹہ شہر میں پچھلے چار سالوں سے واٹر لیول ایک سو سے ایک سو بیس فٹ تک مزید نیچے گر چکا ہے
محکمہ واسا کے ہائیڈرولوجسٹ حمید اللہ نے بتایا کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کا گراف سالانہ بنیادوں پر دس میٹر سے زائد تک گر رہا ہے ”1998 میں زیر زمیں پانی کی سطح 80 سے 100 فٹ کے درمیان تھی مگر اب یہ 500 سے فٹ سے بھی نیچے چلی گئی ہے“
پینے کے صاف پانی کا مسئلہ اب دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر بڑے اور چھوٹے شہر کا بھی مسئلہ بنتا جا رہا ہے
محمد موسیٰ اور ان کی ساتھیوں کی بنائی ہوئی مشین کو حکومتی لیول پر پزیرائی کے ساتھ اگر بڑے پیمانے پر رائج کیا جائے تو پانی کی کمی کا یہ سنگین ترین مسئلہ کسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔