پُل پر بیٹھا بوڑھا آدمی (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

ارنسٹ ہیمنگوے (مترجم: منور آکاش)

ایک بوڑھا، جس نے اسٹیل کے کناروں والی عینک پہنی ہوئی تھی اور جس کے کپڑے بہت گرد آلود تھے، سڑک کے کنارے بیٹھا تھا۔۔ یہاں دریا پر کشتیوں والا ایک پل تھا، چھکڑے، ٹرک، مرد عورتیں اور بچے اس پر سے گزر رہے تھے۔ چھکڑوں کو خچر کھینچ رہے تھے، جو پل کی ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے لڑ کھڑا رہے تھے۔ سپاہی ان پہیوں میں ہاتھ ڈال کر ان کو چڑھنے میں مدد کر رہے تھے۔ ٹرک آگے بڑھ رہے تھے اور نظروں سے اوجھل ہوتے جا رہے تھے، ان کے پیچھے پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتے ہوئے کسان گھٹنوں تک مٹی سے اٹے تھے مگر بوڑھا آدمی بنا کوئی حرکت کیے یہاں بیٹھا تھا۔

میرا کام تھا کہ پل کو عبور کروں، آگے بڑھوں اور دیکھوں کہ دشمن کتنی پیش قدمی کر چکا ہے۔ میں نے ایسا کیا اور واپس پل پر لوٹ آیا۔ اب یہاں زیادہ چھکڑے نہیں تھے اور چند لوگ ہی تھے، جو پیدل عبور کررہے تھے مگر بوڑھا آدمی اب بھی یہاں موجود تھا۔

”آپ کہاں سے آئے ہیں؟“ میں نے اس سے پوچھا

”سین کارلوس سے“ اس نے کہا اور مسکرایا

یہ اس کا آبائی گاؤں تھا، اس لیے اس کے ذکر نے اسے خوشی دی، تب ہی وہ مسکرایا ”میں جانوروں کی دیکھ بھال کررہا تھا۔“ اس نے وضاحت کی

”اوہ!“ میں نے کہا، مگر میں ٹھیک سے سمجھا نہیں

”ہاں“ اس نے کہا، ”میں وہاں رہا، تم نے دیکھا میں جانوروں کی حفاظت کر رہا تھا، میں وہ آخری آدمی تھا، جس نے سین کارلوس گاؤں چھوڑا۔“

وہ گڈریا نہیں لگتا تھا نہ ہی چرواہا۔ میں نے اس کے سیاہ گرد آلود کپڑوں کی طرف دیکھا اور اس کے دھول میں اٹے ہوئے سانولے چہرے کو اس کی اسٹیل کے کناروں والی عینک کو اور پوچھا ”وہ کون سے جانور تھے؟“

”مختلف جانور“ اس نے کہا اور اپنے سر کو ہلایا، ”مجھے ان کو چھوڑنا پڑا۔“

میں پل کو دیکھ رہا تھا اور ابروڈیلٹا کے افریقہ جیسے دِکھنے والے ملک کو اور حیران ہو رہا تھا کہ اب وہ وقت کتنا دور ہے، جب ہمارا سامنا دشمن سے ہوگا۔ میں غور سے اس پہلے شور کو سننے کی کوشش کر رہا تھا، جو کہ اشارہ ہوگا کہ دشمن قریب ہے۔ بوڑھا آدمی اب بھی وہاں بیٹھا تھا۔

”وہ کون سے جانور تھے؟“ میں نے پوچھا

”وہاں تین جانور اکٹھے تھے“ اس نےوضاحت کی، ”وہ بکریاں ایک بلی اور کبوتروں کے چار جوڑے تھے۔“

”اور آپ نے ان کو چھوڑ دیا تھا؟“ میں نے پوچھا

”ہاں۔ فوج کی وجہ سے۔۔ کپتان نے مجھے جنگی سامان توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

”اور آپ کا خاندان نہیں گیا؟“ میں نے پل کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، جہاں چند آخری چھکڑے جلدی جلدی ڈھلوان پارکررہے تھے

”نہیں“ اس نے کہا، ”صرف جانور میں نے کہا ناں، بلی یقیناً وہ ٹھیک ہوگی۔۔ بلی اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے مگر میں نہیں جانتا دوسروں کا کیا بنے گا۔۔

”میں سیاست کے بغیر ہوں اس نے جواب دیا، ”میری عمر چھہتر برس ہے۔ میں بارہ کلو میٹر سفر کر کے آیا ہوں اور اب میرا خیال ہے کہ مزید نہیں چل سکتا۔“

”یہ رکنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔“ میں نے کہا، ”اگر آپ تھوڑی ہمت کریں تو سڑک پر کافی ٹرک جا رہے ہیں جو تمہیں ٹورٹو سانک پہنچا دیں گے۔“

”میں کچھ انتظار کروں گا۔“ اس نے کہا، ”اور پھر میں چلا جاؤں گا۔ ٹرک کس طرف جارہے ہیں؟“

”بارسلونا کی طرف۔۔“ میں نے اسے بتایا

”میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی اس سمت پر نہیں ہے“ اس نے کہا، ”مگر آپ کا شکریہ، آپ کا ایک بار پھر بہت شکریہ۔“

اس نے میری طرف بہت خالی اور تھکی ہوئی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اپنی پریشانی کسی دوسرے کے ساتھ بانٹ رہا ہو۔ وہ بولا، ”بلی بالکل ٹھیک رہے گی۔ مجھے یقین ہے۔۔ بلی کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر دوسرے۔۔۔ آپ دیگر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟“

”شاید وہ بھی اس سب سے نکل آئیں اور ٹھیک رہیں۔“

”تمہیں ایسا لگتا ہے؟“

”کیوں نہیں۔“ میں نے پل کے کنارے کی طرف دور تک دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں اب مزید چھکڑے نہیں تھے

”مگر وہ لوگ توپ خانے سے کیا کریں گے۔ جب کہ مجھے توپ خانے کی وجہ سے جانے کو کہا۔“

”کیا آپ نے کبوتروں کے پنجرے کا تالا کھول دیا تھا؟“ میں پوچھا

”ہاں“

”پھر وہ اڑ جائیں گے۔“

”ہاں، وہ ضرور اڑ جائیں گے۔۔ مگر دوسرے۔۔۔ دوسروں کے بارے میں سوچنا شاید بہتر نہیں۔“ اس نے کہا ”اگر آپ نے آرام کر لیا تو میں جاؤں۔“

میں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”اٹھیے اور چلنے کی کوشش کیجئے۔“

”آپ کا شکریہ۔“ اس نے کہا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔۔ وہ ادھر ادھر جھولتا اور پھر گرد آلود راستے پر بیٹھ جاتا،
”میں جانوروں کا خیال رکھ رہا تھا۔“ اس نے دھیمی آواز میں کہا مگر اس کی آواز مجھ تک نہیں آئی۔ ”میں صرف جانوروں کا خیال رکھتا تھا۔“

میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ ایسٹر کا اتوار تھا اور فسطائی اصولوں کے پیروکار اِبرو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔ یہ ایک سرمئی دھندلکے والا دن تھا، دھیمی پرواز والا۔۔ پس ان کے منصوبے زیادہ بلند نہیں تھے۔ اور یہ سچ ہے کہ بِلیاں جانتی ہیں کہ اپنا خیال کیسے رکھا جا سکتا ہے اور بس یہی ایک خوش قسمتی تھی جو اس بوڑھے آدمی کے ساتھ تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close