اور جب زخمی ماں نے بچوں سے کہا، جاؤ اپنی جان بچاؤ۔۔ کولمبیا طیارہ حادثہ کی مزید تفصیلات

ویب ڈیسک

کولمبیا میں ایمازون کے پُرخطر ایمازون جنگل میں چالیس دن کے بعد بچائے جانے والے چار بچوں کی ماں ان کا طیارہ گرنے کے بعد چار دن تک زندہ رہی تھیں

مگدلینا مکیٹیو بُری طرح زخمی تھیں، انہوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں اور مدد تلاش کریں

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، بچوں کے والد مینوئل رانوک نے کہا ”میری بڑی بیٹی نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ نے انہیں جنگل سے باہر نکلنے اور خود کو بچانے کی تلقین کی تھی۔“

تیرہ، نو، پانچ اور ایک سال کی عمر کے چار بہن بھائیوں کو جمعہ کو جنگل سے بچا کر ہوائی جہاز سے باہر لایا گیا، جو طیارہ حادثے کے بعد ایمازون کے خطرات سے بھرے جنگل میں کھو گئے تھے اور چالیس دن تک بھٹکتے رہے

رانوک نے ہسپتال کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرنے سے پہلے، ان کی ماں نے انہیں کچھ اس طرح کہا، ’تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ، تمہارے والد تمہیں اتنا ہی پیار دیں گے، جتنی محبت میں دیا کرتی تھی‘ انہوں نے مزید کہا کہ تیرہ سالہ لیسلی نے یہ واضح کیا ہے کہ، درحقیقت، ان کی والدہ چار دن تک زندہ تھیں‘

جنگل میں بچوں کے وقت اور ان کے معجزانہ طور پر بچ جانے کے بارے میں تفصیلات سامنے آ رہی ہیں

ریسکیو ورکر نکولس آرڈنیز گومز نے اس لمحے کو یاد کیا، جب انہوں نے بچوں کا پتہ لگایا: سب سے بڑی بیٹی لیسلی چھوٹے بچے کو اپنی گود میں لے کر میری جانب بھاگتی ہوئی آئی، لیسلی نے کہا ‘میں بھوکی ہوں۔۔ دو لڑکوں میں سے ایک لیٹا ہوا تھا، اس نے اٹھ کر مجھ سے کہا ’میری ماں مر گئی ہے‘۔ امدادی کارکنوں نے ان سے انتہائی نرمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تمہارے دوست ہیں اور ہمیں تمہارے گھر والوں نے بھیجا ہے‘

آرڈنیز گومز نے کہا کہ لڑکے نے کہا ’مجھے کچھ روٹی اور ساسیج چاہیے‘

یہ بچے مقامی گروپ ہیوٹو کے رکن ہیں اور ان کے دادا نے کولمبیا کے میڈیا کو بتایا کہ کھانے کے پھل اور بیجوں کے بارے میں ان کا علم ان کی بقا کی وجہ بنا ہے

اپنے بہن بھائیوں کو زندہ رکھنے میں مدد کرنے کا سہرا سب سے بڑی بچی، تیرہ سالہ لیسلی کے سر ہے

کولمبیا کے جنگلات میں جہاز گرا تو اس میں سوار بڑی عمر کے تمام افراد کی موت ہو گئی البتہ تیرہ برس کی لیسلی، ان کی نو برس کی بہن سولینی، پانچ برس کے بھائی تیان نورئیل اور ایک سال کی بہن کرسٹین سلامت رہے۔ سب سے بڑی بہن لیسلی نے چالیس دن تک انتہائی بہادری اور ذہانت سے چھوٹے بھائی بہنوں کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ سب کے زندہ رہنے کی راہیں بھی تلاش کیں

جہاز تباہ ہونے کے بعد ابتدائی دنوں میں ان بچوں نے جہاز پر موجود آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیا ملبے سے نکال کر استعمال کیں

سرچ آپریشن کی قیادت کرنے والے فوج کے جنرل پیدرو سانشز کا کہنا تھا کہ جب ان بچوں کے پاس کوئی بھی غذائی چیز موجود نہ رہی تو انہوں نے اس جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی

اپنے طویل سفر کے دوران بچوں نے کئی جنگلی پھل کھائے، جن میں جنگلی آڑو، جنگلی آم شامل تھے

سرچ ٹیم میں شامل مقامی قبائل کی تنظیم ’نیشنل انڈیجینس آرگنائزئشن‘ کے ایک رکن لوئس اکسوتا کا کہنا تھا کہ ان بچوں نے کئی ایسی جڑی بوٹیاں اور پودوں کے جڑیں بھی اپنی غذائی ضروریات کے لیے کھائیں، جو انہیں کھانے کے قابل معلوم ہوئیں

رپورٹس کے مطابق بچوں نے جو بھی جنگلی چیزیں کھائیں، وہ ان کے زندہ رہنے کے لیے تو کافی تھیں البتہ وہ لگ بھگ چھ ہفتوں میں انتہائی کمزور ہو چکے ہیں۔ اس دوران کمزری کے سبب پانچ سالہ بچہ مزید چلنے کے قابل نہیں رہا تھا

سرچ ٹیم کے ایک اور رکن ہینری گوریرو نے بتایا کہ جب یہ بچے جہاز کے ملبے کے پاس سے جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو تیرہ سالہ لیسلی نے وہاں ملبے سے کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل اٹھا لی تھی۔ اس کے بعد وہ ایک ایسی جگہ پہنچے، جہاں دریا قریب تھا یوں ان کے پاس پینے کے لیے پانی متواتر دستیاب تھا

کولمبیا کی فوج نے بھی سرچ آپریشن میں کئی مقامات پر بچوں کے لیے غذائی اجزا فضا سے جنگل میں پھینکی تھیں لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان بچوں کو ان غذائی اجزا میں سے کچھ ملا تھا یا نہیں

ہینری گوریرو کا مزید کہنا تھا کہ لیسلی نے ملبے کے پاس روانہ ہوتے وقت نہ صرف بوتل اٹھائی تھی بلکہ ایک ایسا چھوٹا سوٹ کیس بھی اٹھا لیا تھا، جس میں ترپال موجود تھی۔ اسی طرح وہاں ایک تولیہ موجود تھا، جسے یہ لڑکی ساتھ لائی تھی

انہوں نے کہا کہ ان بچوں نے ایک ٹارچ، کچھ کپڑے اور دو موبائل فون بھی ساتھ لیے تھے

ان بچوں نے کئی بار سفر کے دوران ترپال سے اپنے لیے پناہ گاہ بنائی۔ بچے زمین پر سوتے تھے تو اس دوران تولیے کو زمین پر بچھا لیتے تھے اور اس پر لیٹ جاتے تھے

ہینری گوریرو کے مطابق بچے اپنے ساتھ دو موبائل فون لے کر تو آ گئے تھے لیکن وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ جنگل میں موبائل فون کے سگنل نہیں آتے

ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں موبائل فون ممکنہ طور پر رات میں بچوں کے استعمال میں آتے ہوں گے تاکہ ان کی توجہ منتشر ہو البتہ ان کے لیے اس کا استعمال اس وقت تک ہی ممکن ہو سکا، جب تک ان موبائل فونز کی بیٹریاں چارج تھیں

لیسلی نے ترپال کے ساتھ ساتھ سوٹ کیس میں ایک کھلونا میوزک باکس بھی ڈال لیا تھا

کولمبیا کی وزارتِ دفاع نے تیرہ سالہ لیسلی کو خاص طور پر سراہا ہے۔ ایک بیان میں وزارتِ دفاع نے لیسلی کو بہادری، قائدانہ کردار، خود اور اپنے ساتھ مزید تین بچوں کے زندہ رہنے کی کوشش پر خاص طور پر شکریہ ادا کیا ہے

بیان کے مطابق لیسلی کی جنگل کے بارے میں معلومات اور تین بچوں کا وہاں زندہ رکھنے کے لیے خیال رکھنے پر خاص طور پر شکر گزار ہیں

سرچ ٹیم کے رکن ہینری گوریرو نے کہا کہ لیسلی نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عقل مندی کے ساتھ ملبے سے اپنے ساتھ اشیا اٹھائیں

سرچ ٹیم میں شامل ’نیشنل انڈیجینس آرگنائزئشن‘ کے رکن لوئس اکسوتا کا کہنا تھا کہ بڑے بچے جنگل سے بخوبی واقف تھے۔ یہ بچے بھی ’ہوئی توتو‘ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو بہت کم عمر میں جنگل سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بچے جانتے تھے کہ جنگل میں کیا کھایا جا سکتا ہے اور کونسی چیزیں ایسی ہیں جو نہیں کھانی۔

ان کے مطابق جنگل سے آگاہی اور بلند حوصلے کی وجہ سے یہ بچے جنگل میں زندہ رہنے میں کامیاب رہے

بچوں کو بچانے کی اتوار کو جاری کی گئی فوٹیج میں، چاروں بہن بھائی جنہوں نے کئی ہفتے جنگل میں تنہا گذارے تھے، بے حال نظر آئے

گوریرو نے کہا ’ان کے ذہن میں صرف ایک ہی چیز تھی کہ کھانا، کھانا اور کھانا، جب وہ مل گئے تو وہ چاول کی کھیر کھانا چاہتے تھے، وہ روٹی کھانا چاہتے تھے‘

مگدلینا مکیٹیو اور ان کے بچے یکم مئی کو سیسنا 206 ہوائی جہاز میں ایمازون میں سنجوس ارار کیوارا صوبے سے ڈیل گویئر جا رہے تھے

وہ وہاں اپنے بچوں کو ان کے والد سے ملوانے لے جا رہی تھیں، جو باغی گروپ کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد اپنے گھر سے فرار ہو گئے تھے

جہاز کا انجن خراب ہوا اور جہاز جنوبی کولمبیا کے گھنے جنگل میں گر گیا۔ امدای ٹیم کو جہاز کا ملبہ تلاش کرنے میں دو ہفتے لگے

جہاز میں موجود بچوں کی ماں اور دو پائلٹوں کی لاشیں فوج کو جائے حادثہ سے ملی تھیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بچے مدد کی تلاش کے لیے جنگل میں بھٹک گئے تھے

لاپتہ بچے ایک بڑے ریسکیو آپریشن کی تلاش کا مرکز بن گئے، جس میں 100 سے زیادہ فوجی، مقامی لوگ اور سونگھنے والے کتوں نے حصہ لیا

تلاش کرنے والی ٹیموں نے جنگل میں کئی جگہ نشانات دیکھے، جن میں پیروں کے نشانات اور پھلوں کے ٹکڑے بھی شامل تھے، جنہیں کاٹا گیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں یقین ہوا کہ بچے حادثے میں بچ گئے تھے

ہیلی کاپٹروں نے اس علاقے پر پرواز کی اور ہوئی ٹوٹو زبان میں ان کی دادی کی جانب سے ریکاڑڈ کیا ہوا پیغام نشر کیا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ کوئی سراغ چھوڑیں تاکہ ان کا پتہ لگایا جا سکے

بچوں نے اپنے ریسکیورز کو بتایا کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر اور پیغام سنا ہے

کولمبیا کے اس گھنے جنگل میں 24 گھنٹوں کے دوران صرف آٹھ گھنٹے ہی اس قدر روشنی میسر تھی کہ بچوں کی تلاش کا آپریشن جاری رہ سکے

بچوں کی تلاش کے لیے لگ بھگ دو ہزار چھ سو کلو میٹر کے رقبے میں آپریشن 40 دن تک جاری رہا

تلاش کے آپریشن میں اس وقت کامیابی ملی جب جہاز کے ملبے سے لگ بھگ پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر یہ چاروں بچے مقامی قبائل کے افراد کو مل گئے

طبی امداد دینے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا نفسیاتی علاج بھی کیا جا رہا ہے

کولمبیا کے فیملی ویلفیئر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ آسترید کیسرز کا کہنا تھا کہ 13 سالہ لیسلی اور نو سالہ تیان نوریل کو تیز بخار ہے البتہ پیر کو ان چاروں بچوں نے بھر پور نیند لی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کی حالت توقع کے مطابق بہتر ہو رہی ہے البتہ انہیں مزید کچھ ہفتوں کے لیے اسپتال میں رہنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close