میں ہزاروں برس کی کہانیوں کا عکس بھی ہوں۔ یہی عکس تو آپ کو دکھانے ہیں۔ وہی فسانے تو آپ کو سنانے ہیں۔ گویا ایک طویل محفل سجانی ہے۔ میں اگرچہ میزبان ہوں، داستان گو بھی ہوں، کہانی کار بھی ہوں۔ مگر یہ داستان کہیں میری اور کہیں میرے یار شہزاد احمد حمید کی زبانی آپ تک پہنچے گی۔میرا یار شہزاد حمید بھی بہت آوارہ گرد ہے۔ ذوقِ سفر اس کی رگ رگ میں رچا ہوا ہے۔ کبھی اکیلا، کبھی دوستوں کی ہمراہی میں سفر پر نکلتا ہے، علاقے گھومتا ہے، کہانیاں چنتا، حروف بنتا اور وہی بیان کرتا ہے۔ میں بھی پاﺅں میں چکر باندھے اس دوست کی مدد سے اپنی داستان آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ یہ کہانی جب بھی کسی وسیلے سے، سنہرے حیلے سے آپ تک پہنچے تو مجھے اور میرے یار دلدار کو دعاﺅں میں یاد رکھئے گا۔ اللہ آپ سب سے راضی ہو۔۔۔ آمین
ورق کھولئے اور میرے کناروں کی بہاروں سے، دور کے اشاروں سے، دلربا نظاروں سے میری سلطنت کا لطف اٹھائیے۔
سندھوسلطنت۔۔ ایک نظر
سنگے خاباب یعنی شیر کے منہ سے نکل کر سندھو ایک لکیر کی مانند، چھوٹی سی ندی کی صورت بہنا شروع کرتا ہے۔ وہاں اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ عظیم دریائے سندھ ہے۔ تبت سے دم چک کے مقام سے کشمیر میں داخل ہوتا ہے اور شمال مشرق کی بستی ”تاشی گانگ“ کے مقام پر پہلا معاون دریا ”زنکسار“ اس میں گرتا ہے۔ کشمیر کی تنگ اور جنت نظیر وادیوں سے گزرتا، پہاڑوں میں راستہ بناتا بہت سے ندی نالوں سے پانی لیتا ”وانخو“ گاﺅں کے نیچے سے بہتا ”مرول ٹاپ“ سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں لداخ کی جانب سے بہتا ”لداخ ریور“ اس میں گرتا ہے۔پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے ”شیوک“ اس کا پہلا اور بڑا معاون دریا ”چھومندو“ کے مقام پر سندھو سے ملتا ہے۔ اس ملاپ کے بعد یہ نسبتاً کھلی وادی میں داخل ہو کے ”سفرنگا“ کے ریت کے میدان کے بیچ سے گزرتا سکردو کی جانب بہتا ہے۔ ایسا ریت کا میدان لداخ کے قریب بھی اس کے کناروں پر پھیلا دور تک چلا گیا ہے۔ سکردو کے پانچ کلو میٹر مغرب میں شمال سے ”شگر“ کی دلفریب وادی کی برف سے پھوٹنے والا دریائے ”شگر“ اس میں گرتا ہے۔ اس سفر میں بہت سی ندیاں اور چشمے بھی اس کے ہمسفر بنتے ہیں۔ سکردو سے گزر کر دریا پھر سے تنگ وادی میں پہنچتا ہے، خوب شور مچاتا جگلوٹ سے سات (7) کلومیٹر ڈاﺅن اسٹریم ”دریائے گلگت“ سے ملاپ کرتا ہے اور ”بنجی“ سے کچھ اپ اسٹریم ”دریائے استور“ اور سندھو کا سنگم ہے۔ سندھو شمال مغرب کی سمت بہتا اپنا رخ مغرب کی جانب کرتا وادی ”چلاس“ کی طرف مڑتا ہے۔ راستے میں نانگا پربت کی چوٹی اسے سلام پیش کرتی ہے۔ ان اونچے پہاڑوں میں سندھو بڑی شان سے بہتا بھاشا کے مقام پر اپنا رخ جنوب کی جانب گھماتا تربیلا جھیل میں اترتا ہے۔ منبع سے تربیلا تک 1200 میل سے زیادہ کا سفر پہاڑی گزرگاہوں کے درمیان ہی ہے۔
تربیلا سے نیچے (ڈاﺅن اسٹریم) دریا کا پاٹ پھیلنا شروع ہوتا ہے۔ اس میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے جزیرے ابھرتے ہیں، جو ”بیلے“ کہلاتے ہیں۔ ان میں خودرو نباتات اور درختوں کی بھرمار ہے۔ تربیلا سے تیس (30) میل نیچے کی جانب اٹک سے کچھ پہلے دریائے ”کابل“ اپنے دوسرے معاون دریاﺅں ”چترال اور سوات“ سمیت سندھو میں اترتا ہے۔ سندھو کا نیلا اور کابل کا خاکستری پانی مل کر کچھ دور تک ساتھ ساتھ بہتے ہیں اور پھر آپس میں مل جاتے ہیں۔ یہ اب پانچ دریاﺅں کی زمین میں بہنے لگتا ہے۔ مزید دس (10) کلومیٹر نیچے کی جانب ”نیا باغ“ کے مقام پر ”دریائے ہیرو“ بھی اس میں گر جاتا ہے۔ یہاں اس کے کنارے بابا ”پیر بخشؒ‘‘ کا مزار اور ایک پرانا قبرستان بھی ہے۔
گڑیالہ گاﺅں سے بارہ (12) میل تک سندھو مغربی سمت بہتا اپنا رخ تبدیل کرکے ”کالا چٹا“ پہاڑی سلسلے کو کاٹتا جنوب کی سمت بہتا ہے۔ ”خوشحال گڑھ“ کے قریب دائیں طرف سے ”کوہاٹی اور ٹبری“ ندیاں اس میں اترتی ہیں۔ ”پیر پھائی کے قریب دریائے ”سواں“ اس میں گرتا ہے۔ سندھو اور سواں کے ملاپ کے جنوبی سمت ہی کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہماری سیاست کی بھینٹ چڑھا۔کالاباغ کے جنوب میں ہی ”چشمہ بیراج“ ہے۔ اٹک سے چشمہ کا فاصلہ سو (100) میل ہے۔ یہاں دریا کا پاٹ چوڑا اور اس میں پیچ و خم ہیں۔ کالاباغ سے ڈیلٹا تک اس کی لمبائی آٹھ سو (800) میل ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق سندھو کی لمبائی اٹھارہ سو (1800) نہیں بلکہ اکیس سو (2100) میل یا تین ہزار ایک سو اسی (3180) کلو میٹر ہے۔
کالا باغ سے مزید تیس (30) میل نیچے کی جانب دریائے ”گومل“ اس میں گرتا ہے۔ بلوچستان کے دو دریا ”ناڑی اور بولان“ بھی ایک زمانے میں اس میں گرتے تھے لیکن اب ان کا پانی ”کچھی“ کینال کے ذریعہ علاقائی زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح دریائے ”مولا اور کلاچی“ اب برساتی نالے بن کر رہ گئے ہیں اور صرف مون سون کے دنوں میں ہی اپنا پانی سندھو میں اتارتے ہیں۔
پنجاب کے جنوبی سرے پر پنجند کے مقام پر پنجند کے پانچوں دریا اکٹھے ہوتے ہیں اور وہاں سے دریائے چناب ان کا پانی سمیٹ کر ”مٹھن کوٹ“ پہنچ کر سندھو میں گر جاتا ہے۔ سکھر تک سندھو اپنی ہی موج اور روانی سے بہتا ہے۔ اس سے آگے اس کا بہاﺅ بتدریج سست ہونے لگتا ہے اور ٹھٹہ اور بدین کے قریب ہتھیلی کی رگوں اور ہاتھ کی انگلیوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ندیوں کا جال بناتا قطرہ قطرہ بحیرہ عرب میں اترتا ہے۔
سندھو نے مجھے بتایا؛ ”میں پہاڑوں کو توڑتا پھوڑتا، میدانوں میں بل کھاتا، طغیانی مچاتا اپنا ڈیلٹا تشکیل دیتا سمندر میں گرتا ہوں۔ اس ساری گزر گاہ کو تم 3 منزلوں میں تقسیم کر لو۔“
”پہلی؛ کوہستانی منزل۔ میرے منبع سے شروع ہو کر کالاباغ تک کا سفر۔ اس سفر میں میں تیز بہتا ہوں۔ خوب جھاگ اڑاتا اور شور مچاتا ہوں۔ زنکسار، شیوک، شگر، گلگت، استور، کابل، گومل اور بہت سے ندی، نالے، چشمے (جن کی تعداد میں خود نہیں جانتا) مجھ میں شامل ہوتے میرے شور اور جھاگ کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ میں بھرپور جوان بن جاتا ہوں۔ یہیں مجھ پر دنیا کا سب سے بڑا مٹی کی بھرائی کا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ بارہ (12) سو میل کے اس سفر میں اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر لاتا ان سے کھیلتا دوسری منزل میں داخل ہوتا ہوں۔“
”دوسری؛ میدانی منزل۔ کالا باغ سے شروع ہونے والے اس آٹھ سو (800) میل کے طویل سفر میں پنجند کے دریا، برساتی نالے اور پہاڑی ندیاں مجھے میں شامل ہوتی ہیں۔ حیدرآباد میں اس مرحلے کا اختتام ہوتا ہے۔ میں پرسکون بہتا ہوں۔ کئی مقامات پر میرا پاٹ میلوں پر پھیل جاتا ہے۔ میں یہاں اپنی مرضی سے تراش خراش اور اطرافی کٹاﺅ کرتا رہتا ہوں۔ اپنے ساتھ قیمتی اور زرخیز مٹی لاتا دنیا کا سب سے مشہور اور زرخیز سندھ طاس کا میدان تشکیل دیتا ہوں۔ یہیں مجھ پر جناح، تونسہ، گدو، سکھر، کوٹری بیراج تعمیر ہوئے ہیں۔ان سے نکالی گئی نہروں نے پنجاب اور سندھ کے زرعی میدان کو دوام بخشا ہے اور تمھارے ملک کی بجلی کی بڑی پیداوار بھی حاصل ہوتی ہے۔ حیدرآباد سے میری تیسری یعنی ڈیلٹائی منزل کا آغاز ہوتا ہے۔“
”ڈیلٹائی منزل۔ حیدرآباد سے ڈیلٹا تک کا 100 میل کاسفر۔ جیسے دریائے نیل کا ڈیلٹا قاہرہ سے شروع ہوتا ہے، ویسے ہی میرا ڈیلٹا ہاتھ کی ہتھیلی کی رگوں کی طرح حیدرآباد سے۔ یہاں میری رفتار انتہائی سست ہے بلکہ بہت نحیف ہے۔ میں بوڑھے کی طرح سسکتا بہتا ہوں۔ مجھے خود احساس ہوتا ہے میں رہ گیا ہوں، کمزور پڑ گیا ہوں۔ باریک سی پانی کی لکیروں میں بٹ گیا ہوں اور قطرہ قطرہ سمندر میں اتر رہا ہوں، جیسے کسی نے مجھے زہر دے دیا ہو اور میں سسک سسک کر مر رہا ہوں۔ تمھارے لوگوں نے مجھے زہر تو دیا ہے ذرہ ذرہ زہر گندے پانی کی صورت میں ماحولیاتی کشیدگی مجھ میں اتار کر۔ پہلے اس ڈیلٹا میں بھی میں پرجوش انداز میں اترتا تھا۔“
وہ بولتا جا رہا ہے دل کے بھید کھولتا جا رہا ہے؛ ”میرے ڈیلٹا میں کبھی میٹھے پانی کی سترہ (17) کھاڑیاں تھیں۔ کراچی سے زیریں سندھ تک گیارہ(11) میٹھے پانی کی جھیلیں تھیں۔ یہ سب مہمان پرندوں کا مسکن تھیں۔ اب ساری جھیلیں کھاری ہو گئیں ہیں، پرندے روٹھ گئے ہیں۔ میں سکڑ گیا ہوں، سمندر پھیل کر آگے بڑھ آیا ہے۔ اس کے نمکین پانی نے میرے میٹھے پانی کی جھیلوں کو کھارا کر دیا ہے۔ ”تِمر“ میں گھنے قدرتی جنگلات میں آبی حیات کی بہتات تھی۔ جھینگے، مچھلی، کیکڑے تھے، جن کی تجارت سے تم کروڑوں ڈالر کمایا کرتے تھے۔ یہا ں بسنے والے کشتیوں کے گھروں میں رہتے تھے۔ ان جنگلات سے سالانہ 18 سے 20 ہزار ٹن لکڑی حاصل ہوتی تھی، جن سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے تھے۔ ان جنگلات کے نقصان سے لاکھوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ کبھی چوالیس (44) اقسام کی آبی حیات کی تجارت ہوتی تھی، جو اب کم ہو گئی ہے۔ ان جنگلات کا تحفظ سرکار کی اہم ذمہ داری ہونی چاہیے لیکن تم اور تمھاری سرکار تو سوچنا ہی تب شروع کرتے ہو جب نقصان کی تلافی ممکن نہیں رہتی ہے۔“
”آﺅ میں تمھیں تفصیل سے اپنے سفر کی کہانی سناﺅں۔ تمھیں ان ادوار میں لے جاﺅں جو ناقابلِ یقین حد تک کمال تھے۔ جب میرے گرد دنیا کی قدیم ترین تہذیب آباد تھی۔ میں تمھیں ان سینکڑوں قافلوں اور بیسیوں بادشاہوں کی کہانیاں سناﺅں گا، جو میرے تیز رفتار پانیوں کو عبور کرکے برصغیر پر حملہ آور ہوئے تھے۔ میری اپنی کہانی، میری زبانی لیکن تحریر تم کرو گے۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 1)
-
سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط: 2)