ایک عوامی دانشور، گل حسن کلمتی

ڈاکٹر نذیر محمود (ترجمہ: امر گل)

گل حسن کلمتی سے میری شناسائی 1980ع کی دہائی کے اوائل میں ہوئی، جب میں کراچی میں کالج کا طالب علم تھا۔ ترقی پسند طلبہ کی سیاست میں سرگرم ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ہم تقریباً ہر ایک کو جانتے تھے- یا اس کے بارے میں سنا تھا، جس نے جنرل ضیاء کی فوجی آمریت کو کسی نہ کسی طریقے سے چیلنج کیا تھا

کلمتی 16 مئی 2023 کو 66 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے، چار دہائیوں سے زیادہ کی سخت محنت سے کامیابیوں کی ایک طویل فہرست چھوڑ گئے۔ انہوں نے 13 کتابیں اور درجنوں مضامین اور آرٹیکلز لکھے تھے، جن میں زیادہ تر سندھ کے فن تعمیر، کمیونٹی کلچر، تاریخ اور سماجی مسائل پر تھے، جن میں زیادہ تر توجہ کراچی اور اس کے نوآبادیاتی ورثے پر تھی

انہوں نے کراچی کے بارے میں انسائیکلوپیڈک علم جمع کر رکھا تھا اور اپنے ساتھیوں، دوستوں اور ماضی کو ایک مختلف زاویے سے تلاش کرنے میں دلچسپی رکھنے والے تمام لوگوں سے بے حد احترام کا رشتہ بنایا تھا

گڈاپ میں پیدا ہوئے، جو اُس وقت ٹھٹہ کا حصہ تھا، کلمتی کا خاندانی پس منظر بہت عاجزانہ تھا اور انہوں نے اپنے والد کی، جو پرانی سبزی منڈی میں آڑھتی تھے۔ 1963 میں، جنرل ایوب خان کے دور میں، گڈاپ سمیت درجنوں دیہات کراچی کی بڑی انتظامی حدود کا حصہ بن گئے، جس سے کلمتی کراچی کا باشندہ بنا۔

برفت، جاموٹوں اور جوکھیو کے ساتھ ساتھ، کلمتی بھی اس خطے کے مقامی باشندے ہیں اور کراچی اور اس کے ساحلی علاقوں سے ان کا رشتہ کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ مالی مشکلات کے باوجود، گل حسن ایک معقول تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہے – پہلے سندھ مسلم گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج اور پھر جامعہ کراچی سے، جہاں سے انہوں نے صحافت میں ماسٹرز آف آرٹس (ایم اے) کیا۔

کارکن اور مصنف گل حسن کلمتی، جو 16 مئی کو انتقال کر گئے، سندھ کی لوک داستانوں، تاریخ اور ان کی برادریوں کے بارے میں علم کے حوالے سے ان کی وسیع خدمات کے لیے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا

انہوں نے اپنی ڈگری 1980 کی دہائی کے اوائل میں حاصل کی۔ میرے ایک دوست، جو یونیورسٹی میں کلمتی کے ساتھی تھے، مجھے بتاتے ہیں کہ اس وقت شعبہ صحافت میں صرف دو سندھی بولنے والے طالب علم تھے، کلمتی اور دوسرے اظہر ابڑو، (جن کے والد جمال ابڑو سندھی افسانہ نگار تھے) یہ دونوں بہترین طلباء میں سے ایک تھے

یہ وہ وقت تھا، جب سندھ سیاسی اتھل پتھل سے گزر رہا تھا کیونکہ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی، جو ایک سندھی تھے۔ بھٹو حکومت کے دوران طلباء کو جو سیاسی آزادی حاصل تھی، وہ جنرل ضیاء کے دور میں جدوجہد کر رہے تھے

پھر بھی کیمپس میں بحث و مباحثے کا ایک متحرک کلچر تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کراچی کے طلبہ رہنما حاصل بزنجو، حسین حقانی، مظہر عباس، مصطفیٰ کاظمی، شفیع نقی جامعی اور بہت سے دوسرے طلبہ مختلف طلبہ انجمنوں کے پلیٹ فارم سے فعال کردار ادا کر رہے تھے

گل حسن کلمتی شروع میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کے ساتھ تھے، جس کے بعد انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) میں شمولیت اختیار کی۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں جب میں کالج کا طالب علم بنا تو جنرل ضیاء اقتدار میں پانچ سال سے زیادہ عرصے سے رہ چکے تھے اور تمام لبرل اور ترقی پسند تنظیموں کو کچلنے میں کامیاب ہو چکے تھے

سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور تقریباً سات سال گورنر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل صادق الرشید ابراہیم عباسی کی فوجی انتظامیہ نے کھل کر قدامت پسند اور مذہبی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) کا ساتھ دیا، جس میں ایک عسکریت پسند دھڑا بھی تھا، جو ونگ ’تھنڈر اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے

جنرل ضیاء ملک کی تمام جمہوری قوتوں کے خلاف ریاستی مشینری کا استعمال کر رہے تھے، وہ طلباء کارکنوں اور رہنماؤں کا بھی شکار کر رہے تھے جنہوں نے اس کی آمریت کو چیلنج کرنے کی جرأت کی۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک، کلمتی رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک کے قریب ہو گئے، انہوں نے ایک ایسی فکری بنیاد تلاش کی، جس کی سندھ میں کوئی مثال نہیں تھی

پلیجو بلا شبہ ایک زبردست خطیب، ایک باکمال قاری اور ایک قابل مصنف تھے، جو اپنے پیروکاروں کو بے حد متاثر کر سکتے تھے۔ شاید یہ پلیجو کی ذہانت اور پھر عبدالواحد آریسر کی سندھیوں کے حقوق کے لیے سیاسی سرگرمی تھی، جس نے گل حسن کلمتی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا

وہ کچھ عرصہ ماما رحیم بلوچ کے ساتھ جئے سندھ محاذ (جے ایس ایم) اور سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) سے بھی وابستہ رہے لیکن پھر 1990 کی دہائی کے اوائل تک فعال سیاست چھوڑ دی۔ 30 کی دہائی میں، گل حسن نے ایک سیاسی کارکن سے ایک دانشور اور مصنف بن گئے۔

جب ہمارے سینئر کامریڈ ڈاکٹر جبار خٹک اور سہیل سانگی – دونوں ترقی پسند سیاسی رہنما جنہوں نے ضیاء آمریت کے دوران برسوں قید کی صعوبتیں برداشت کیں – نے اپنا سندھی روزنامہ عوامی آواز شروع کیا تو کلمتی نے ایسے مضامین لکھنا شروع کیے، جن سے 1990 کی دہائی میں ان کے لکھنے کے کیریئر کا آغاز ہوا

ان کی تحریریں ’عوامی آواز‘ کے ادبی صفحے اور تاریخ اور سماجی مسائل کے لیے وقف ’مورڑے جو ماگ‘ صفحے میں شائع ہوئیں۔ ’مورڑے جو ماگ‘ یعنی مورڑو کی سرزمین۔۔ مورڑو سندھ کا ایک لوک کردار ہے، جو بہت سی مقامی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ کلمتی نے مقامی برادریوں، ان کے جغرافیہ اور قبائل کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھنا شروع کیا، جس سے ان کے سندھی قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہوا

اس وقت، نشریاتی صحافی رضا علی عابدی دریائے سندھ کے بارے میں ایک ریڈیو پروگرام — ’شیر دریا‘ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (BBC) پر کر رہے تھے — جس نے کلمتی کی توجہ مبذول کرائی۔ ایک اور عمدہ دانشور انور پیرزادو کی ادارت میں، اور BBC سے خصوصی اجازت حاصل کرتے ہوئے، کلمتی نے ’سندھو جی سفر کہانی‘ کے عنوان سے اس سیریز کا سندھی میں ترجمہ کرنا شروع کیا، جو عوامی آواز میں بھی شائع ہوا

اس دوران وہ کراچی اور اس کے دیہات کی نوآبادیاتی طرز تعمیر، تاریخ اور جغرافیہ پر بھی لکھتے رہے۔ اس کے بعد ان کی شاندار تخلیق ’کراچی — سندھ جی مارئی‘ [کراچی: سندھ کی ماروی] شائع ہوئی۔ اس کتاب کو کئی ایوارڈز ملے اور اس کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ کیا گیا

ان کا ایک اور شاہکار ’کراچی جا لافانی کردار‘ [کراچی کے لافانی کردار] ہے، جس میں ان لوگوں کی تفصیلی معلومات اور زندگی کی تاریخ ملتی ہے، جنہوں نے بطور شہر کراچی کی ترقی میں کردار ادا کیا۔ اس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی بہت سی عظیم شخصیات شامل ہیں، جنہوں نے کراچی کے منظر نامے پر اپنا نشان چھوڑا ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل یہ تصنیف کراچی کی پچھلی دو صدیوں کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے، حالانکہ اب تک انگریزی میں صرف پہلی جلد ہی منظر عام پر آئی ہے

کلمتی نے سندھ کے جزائر اور ان کے جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں بھی لکھا۔ ’سندھ جا سامونڈی بیٹ‘ [سندھ کے سمندری جزائر] میں، وہ کراچی کے تقریباً تمام جزیروں اور ان کی ماہی گیر برادریوں کے ماضی اور حال کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کی ایک اور ’کتاب عشق جون گلیوں‘ (عشق کی گلیاں) دو جلدوں میں ہے۔

انہوں نے سندھی میں سفرنامے بھی لکھے، خاص طور پر کالاش وادی کے بارے میں۔

انہوں نے بھنبھور سے کیچ مکران تک کا سفر کیا، اس راستے کی کھوج میں، جو سسئی نے بلوچستان میں اپنے عاشق پنہون تک پہنچنے کے لیے اختیار کیا ہوگا

’سسئی پنہوں‘ سندھ کی ایک اور لوک کہانی ہے، جس میں سندھ سے سسئی اور مکران سے پنہوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفرار ہو جاتے ہیں۔ جب پنہون کو مکران واپس لے جایا جاتا ہے، سسئی پنہوں کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے گھر سے نکل پڑتی ہے۔ بظاہر یہ کہانی ایک حقیقی کہانی سے زیادہ ایک افسانہ لگتی ہے، لیکن کلمتی نے اس خطے کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے اسے اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی

کلمتی نے کراچی انڈیجینس رائٹس الائنس بھی قائم کیا، جس نے مقامی لوگوں کے لیے کچھ لابنگ کا کام کیا، جو کراچی کے معاملات میں شاذ و نادر ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ تقریباً بیس سال قبل کراچی چھوڑنے کے بعد، مجھے ان سے ملنے کا موقع کم ہی ملا، صرف کبھی کبھار ان سے یا تو کسی ادبی میلے میں، کراچی پریس کلب میں، یا اتوار کو ریگل کے قریب پرانے کتابوں کے بازار کا دورہ پر ملاقات ہو جاتی، جہاں اختر بلوچ — ہمارے ایک اور دوست – بھی اکثر مل جاتے تھے

کلمتی کی کراچی ڈسٹرکٹ کاؤنسل میں سرکاری ملازمت تھی، جہاں سے وہ ایک سینئر افسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہ ایک عاجز اور سادہ آدمی رہے اور اپنے علم سے کبھی کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی کی ضلعی انتظامیہ میں ہونے کی وجہ سے انہیں میونسپل آفس میں پرانے ریکارڈ تک رسائی حاصل تھی، جسے وہ اپنی تحریروں میں استعمال کرتے تھے

گزشتہ 70 سالوں میں کراچی انتظامیہ میں سینکڑوں افسران کام کر چکے ہوں گے، لیکن بوسیدہ فائلوں میں چھپے ریکارڈ تک رسائی کی زحمت شاید ہی کسی نے کی۔ کلمتی نے ایسے صفحات کو چھاننے میں بھی جان کھپائی، جنہیں دیمک چاٹ چکی تھی اور انہوں نے ان لوگوں سے بھی بات کی جو اسے اپنی تحقیقی دلچسپیوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے کراچی کے پانی کے پرانے ذرائع کے بارے میں لکھا، جس میں آبی گزرگاہیں اور کنویں بھی شامل ہیں، جو برطانوی حکمرانوں اور کچھ مخیر حضرات نے بنائے تھے

انہوں نے کراچی میں نئی ​​ہاؤسنگ اسکیموں کے خلاف جدوجہد کی، جو کہ پرانے دیہاتوں پر تجاوزات کرتی ہیں، اور 50 صفحات پر مشتمل کتابچہ ’کراچی جوں رہائشی اسکیموں’ [کراچی کی ہاؤسنگ اسکیمز] لکھا۔ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اراضی کے حصول پر بھرپور احتجاج کیا اور اس کے خلاف یوسف مستی خان، خالق جونیجو اور عثمان بلوچ جیسے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔

انہوں نے خواتین پر شہر کاری کے اثرات پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی اور ’خواتین کی روزی روٹی پر شہری تعمیر کے اثرات‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا

ان کے جانے سے ہم تاریخ اور لوک داستانوں کے ایک سچے عاشق سے محروم ہو گئے۔

نوٹ: مصنف کالم نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ ان کا یہ مضمون ڈان، ای او ایس، میں 18 جون، 2023 کو شائع ہوا۔ جسے ترجمہ کرکے سنگت میگ کے قارئین کے لیے ڈان اخبار اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close