آخری سفر (ہندی ادب سے منتخب افسانہ)

نیلم جین (ترجمہ: قیُوّم خالد)

یہ کوئی غیر معمولی بات تو نہیں کہ کوئی رات کے پچھلے پہر ٹیکسی بلائے اور کہیں جانا چاہے۔ عام طور پر ٹیکسی چلانے والے اپنی گاڑی کے پاس ہی گھر کے آگے اس پتے پر بلانے والوں کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے ہیں پر اس نے کبھی ایسی پابندیوں کو مانا نہیں تھا، وہ اکثر بڑھ کر چلنے والے مسافر کا دروازہ کھڑکھڑا دیا کرتا تھا۔ کہاں تک انسان انسان سے ڈر کر رہے اور پھر اس کا تو پیشہ ہی انجان لوگوں کو یہاں وہاں لے جانا ہے۔ سب کے سمجھانے کے بعد بھی اس کی یہ عادت بدلی نہیں تھی اور دھیرے دھیرے وہ اس علاقے میں نڈر سا ہو گیا تھا۔

آج کا دن بہت ہی مصروف بیتا تھا۔ شام سے ہی نئے سال کی پارٹیوں پر آنے جانے والے اسے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑاتے رہے تھے۔ پارٹی کے بعد زیادہ پیے اور بہکے لوگوں کو ان کے گھروں پر چھوڑتے اس نے اچھا خاصا کما لیا تھا۔ کچھ کے ساتھ سردردی بھی کرنی پڑی تھی۔ کل ملا کر وہ اس نئے سال کی نئی صبح کے ختم ہونے کی انتظار میں تھا۔ اسے اور مسافروں کی نہیں پڑی تھی۔ ٹیکسی کمپنی کے آفس نے جب موبائل پر اس سے رابطہ کیا، تب وہ اس آخری مسافر کو لے جانے کی حامی بھر چکا تھا۔

میں نے نام نہیں بتایا نا، اس ٹیکسی والے کا نام ہے نک۔ نک کو کسی نے بھی اس کے پورے نام سے نہیں پکارا سوائے چرچ کے پادری کے۔۔ ایک وہی ہمیشہ اسے نکولس کہہ کر بلایا کرتا ہے۔

آج بھی پہلے نک نے پانچ دس منٹ انتظار کیا، جب گھر سے کوئی نہیں نکلا تو اسے لگا شاید مسافر نے جانے کا ارادہ بدل دیا ہو، پوچھ لینے کے لیے اس نے دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔
ٹھک! ٹھک!!
ٹھک! ٹھک! ٹھک!!
اور پھر ایک خاموشی تھی دروازے کے اس پار۔۔۔

گھر میں مدھم سی روشنی بتا رہی تھی کہ کوئی جاگ رہا ہے۔ اس نے بڑھ کر دروازے پر پھر تھاپ دی اندر سے کچھ گھسٹنے اور گھسیٹنے کی آواز آئی۔ پھر ایک خاموشی۔۔۔
وہ پھر دروازہ کھٹکھٹانے کو تھا ہی کہ اس بار گھسٹنے کی آواز نزدیک آن پڑی اور کچھ ہی دیر میں دروازہ کھل گیا۔ ایک بوڑھی خاتون اٹیچی گھسیٹتی ہوئی دروازے تک آئی تھی۔

نک نے پوچھا کہ کیا وہ سامان ٹیکسی میں پہنچا دے، خاتون نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ اٹیچی کو کار میں رکھنے چلا گیا۔ خاتون اس کے پیچھے نہیں آئی تو اسے احساس ہوا کہ شاید اسے مدد کی ضرورت ہوگی۔ مڑ کر پھر دروازے تک پہنچا تو اس نے دھیان دیا کہ جہاں تک دکھائی دیتا تھا گھر کا سارا فرنیچر اور سامان سفید چادروں سے ڈھکا تھا۔ ایک کونے میں ڈبہ بھر کراکری اور چھوٹے موٹے برتن رکھے تھے۔ من ہی من اس نے سوچا کہ بڑھیا بہت صفائی و قرینہ پسند عورت ہے۔ لمبے سمے کے لیے کسی رشتےدار کے یہاں یا پھر کسی دور سیاحت کے مقام پر چھٹیاں منانے جا رہی ہے۔ ادھر وہ خاتون چپ چاپ تھوڑی دیر تک کمرے اور گلیارے کے چپے چپے کا معائنہ کرتی رہی۔

اب نک یعنی کہ ہماری کہانی کا ٹیکسی ڈرائیور لگ بھگ جھنجھلا اٹھا تھا۔ عام طور پر رات کے اس پہر میں جانے والے لوگ جلدی میں ہوتے ہیں اور یہاں کوئی جلدی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ یوں بھی نہیں کہ خاتون کوئی ضروری کام نپٹانے کی آپادھاپی کر رہی ہو۔ اس کے پہلے کہ وہ کچھ کہے، خاتون ٹیکسی کی جانب چل دی۔

ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اس نے اپنی منزل کا پتہ پکڑا دیا۔ یہ جگہ نیویارک کے ہی ایک میڈیم کلاس علاقے میں ہے اور بہت دور بھی نہیں۔ یہ بات وہ پہچان گیا تھا۔ بھیڑبھاڑ کا سمے نہیں، ابھی ساڑھے چار بج رہے ہیں، چھ تک پہنچ جا ئیں گے، وہ ایسا سوچ ہی رہا تھا کہ خاتون نے ڈرائیور سے کہا کہ جانتی ہوں، ہائی وے سے جانا نزدیک ہوگا پر میں شہر کی چند سڑکوں سے گزرنا چاہتی ہوں۔ اس کی آواز میں ایک رعب تھا اور ان کہا سکون اور لاپرواہی بھی۔۔ اپنی خواہش ظاہر کر وہ بے فکر بیٹھ گئی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ڈرائیورنہ نہیں کہے گا۔ لمبے راستوں سے جانے میں اس کا تو فائدہ ہی ہے۔ نک نے پتہ دیکھتے سمے ہی جان لیا تھا کہ یہ پتہ ایک ’ہوسپس‘ کا ہے۔ جب ڈاکٹر موت کا فیصلہ سنا چکے ہوتے ہیں تو ’ہوسپس‘ وہ جگہ ہے، جہاں زندگی کے باقی دن بتانے جاتے ہیں۔ کہنے کو وہاں گھر جیسا رہنے کا ماحول معالجین و مددگاروں کی نگرانی میں فراہم کیا جاتا ہے۔ خاتون نے جس کا نام میری ہے، بتایا کہ اس کا روگ لاعلاج ہے اور آج وہ جہاں جا رہی ہے، اسےجانے کوئی جلدی نہیں ہے، نہ پہنچنے کی۔۔ وہ نئے سال کی صبح کے اس آخری سفر کو بھرپور جینا چاہتی ہے۔ ظاہر تھا اسے اس بات کی فکر نہ تھی کہ لمبی سڑکیں لینے پر خرچہ زیادہ آنے والا ہے۔

یکایک ڈرائیور کا ہاتھ میٹر پر پہنچا اور کچھ زیادہ سوچے بغیر اس نے میٹر بند کر دیا۔ آج کی رات کی آخری سواری تھی۔ اس کے بعد اور کام نہ کر کے وہ گھر جا کر سونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کار شہر کی جانب بڑھ چلی۔ خاتون اس سب سے لاعلم اسے سڑک پر کبھی رفتار دھیمی کرنے کو کہتی اور کبھی کسی عمارت کے آگے روکنے کو۔۔

ایک بڑے کثیر منزلہ بازار کے آگے خاتون نے ٹیکسی روکنے کو کہا اور ایک نظر اس نے نیچے سے اوپر تک، گردن اٹھا پانے کی حد تک، اس اونچائی کو دیکھا۔ پھر نیچے دیکھتی کچھ سوچتی، باتیں کرتی رہی اور بتاتی رہی کہ وہاں کبھی ہرے بھرے پیڑوں کے باغیچے تھے اور وہیں پاس ایک گھر میں اس کی سہیلی رہا کرتی تھی۔ اسکول کے بعد روزانہ وہ دونوں یہیں بیٹھ کر پڑھا کرتیں تھیں۔ بچپن کی بہت سی سنہری شامیں ان دونوں نے یہاں ٹہلتے باتیں کرتے بتائی تھیں۔ ماضی کے سارے کے سارے صفحوں کو آج وہ ایک ساتھ جمع کر کے ایک نظرمیں پڑھ لینا چاہتی تھی۔

پڑوس کے ایک نوجوان نے ٹائر پیڑ پر لٹکا کر جھولا بنانے میں ان کی مدد کی تھی۔ پہلی بار جھولے پر بیٹھی تو اس کی نئی لمبی اسکرٹ کچی زمین پر گھس گئی تھی، اس کی ماں نے کتنے جتن سے سی تھی اس کے لئے۔۔ ڈانٹ بھی خوب پڑی تھی کیوں کہ خوب رگڑنے پر بھی مٹی اور گیلی گھاس کے ملے جلے نشان صاف نہیں ہوئے تھے۔ انہی چھٹیوں میں اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ خود کپڑے سینا سیکھے گی تاکہ اسے ماں کے سلے کپڑوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس سمے سلائی کے سامان کی ایک ہی دکان ہوا کرتی تھی، جہاں سلائی کرنا سکھایا بھی جاتا تھا۔ شرط صرف یہ تھی کہ سامان انہی سے خریدا جائے۔ ہر سال گرمی اور سردیوں کی چھٹی میں وہ یہاں سلائی سیکھنے لگی تھی۔ ماں باپ کے تعاون نے اس کی اس ہنر کو نکھارنے میں بھرپور مدد کی تھی اور پھر وہ خود طرح طرح کی سلائی کڑھائی سکھانے لگی تھی۔

سردی کے جشن سے پہلے بڑے میلے میں اس نے اپنے کام کی نمائش بھی لگانی شروع کر دی تھی۔ چھوٹے بھائی بہن بڑے جوش و خروش سے اس کی مدد کرتے۔ یہیں پر اس کی ملاقات پردیس سے آئے اس نوجوان سے ہوئی، جس کے ماں باپ سیاسی ظلم کا شکار ہوکر مارے گئے تھے، وہ اکیلا اس آزاد دیس میں اپنے چاچا کے ساتھ پناہ گزین بن کر آیا تھا۔ اپنی پہلی کمائی سے کچھ خرید کر اپنی چاچی کو دینا چاہتا تھا۔ ایک بہت خوبصورتی سے کڑھائیدار تصویر دیوار کی سجاوٹ کے لئے لے بھی گیا تھا۔ اس کے بعد کبھی وہ خود تو کبھی چاچی کے ساتھ آتا ہی رہا۔ اس کی آنکھوں میں ایک انجانا اپناپن تھا۔ اکثر وہ خود کو اس کے انتظار میں پاتی۔

پھر جب دونوں میں دوستی ہو گئی تو وہ اس کے ماں باپ کی اجازت سے بطور ڈیٹنگ اسے گھمانے لے جاتا تھا۔ اسی دائیں طرف کی گلی میں ایک بڑا سا ہال تھا، جو صبح کے وقت کھیلوں اور شام کو بال روم ڈانس کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ جہاں وہ ایک دوشیزہ کی طرح اپنے نوجوان دوست کے ساتھ ڈانس کے لیے آیا کرتی تھی۔ ان دنوں وقت کی پابندیاں کڑی تھیں، سونے کے وقت میں ایک منٹ بھی ادھر ادھر ہونا اس کے باپ کو گوارہ نہ تھا۔ رات کے کھانے اور سونے کے وقت کے بیچ کا بہت ہی چھوٹا سا وقت کا ٹکڑا اسے مل پاتا تھا اپنے محبوب کے ساتھ گزارنے کے لئے۔۔ آج بھی اسے یاد ہے کہ اس کے جذبات کو سمجھتے ہوئے اس کی ماں کئی بار کھانے کے بعد برتنوں کو صاف کرنے اور سکھا کر رکھنے کی ذمہ داری سے اسے چھٹی دے دیتیں تھیں تاکہ وہ ٹھیک سے سج سنور کر نکلے۔ جلدبازی میں وہ کئی بار بنا کسی تیاری اور سج دھج کے ہی نکل جایا کرتی تھی۔

آج وہ ان سبھی سڑکوں پر گھومنا چاہتی تھی، جہاں اس نے اپنے بچپن اور نوجوانی کے دن بتائے تھے۔ میٹھی یادوں کے دن، بے فکرے دن، جھنجھٹ بھرے دن، پھر دھیرے دھیرے روپ بدلتے حالات میں ڈوبتے ابھرتے دن۔
سات دہے، سال، مہینے، دن سب چند لمحوں میں سمٹ آئے تھے۔ آج وہ ساری زندگی جیسے دوبارہ جی رہی تھی۔ یادیں اس سے پہلے بھی شدید ہوتیں تھیں پر اتنی شدت ان میں کبھی نہ تھی۔

کبھی دائیں کبھی بائیں مڑوا کر وہ ٹیکسی کو مختلف گلیوں میں لے جاتی۔ حالانکہ ٹیکسی ڈرائیور ان سب سے اچھی طرح واقف تھا پر اس نے ان بہتی گلیوں کو کبھی ایسے نہ دیکھا تھا۔ وہ بڑے دھیان سے میری کی داستان کو سن رہا تھا۔ آج اس خاتون کے اندازِ بیان سے شہر بدل گیا تھا۔ اس شہر کے شورو غل اور بھیڑبھاڑ میں دبی کہانیوں سے وہ انجان ہی تھا۔ مشینی دور کی پہچان بنی ان گلیوں کی اونچی اونچی عمارتوں کے نیچے اسے حیرت انگیز تاریخ نظر آ رہی تھی، جو بہت پرانی تو نہیں پر دل کو چھونے والی تھی۔

اور یہ چھوٹی سی بڑھیا۔۔۔ وہ لگاتار بولے جا رہی تھی، اس نے بتایا کہ کہاں اس کا اسکول تھا اور کہاں وہ پیڑ، جس پر چڑھ کر وہ کھیلا کرتی تھی۔ دو بلاک چھوڑ داہنی جانب اسکول کے نزدیک ہی چرچ تھا، ہر اتوار اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ وہاں آتی۔ چرچ آج بھی وہیں ہے، بدلا ہے تو بس اس کے چاروں طرف کا ماحول۔۔ پاس کی لائبریری ہوتے ہوتے بہت بڑی ہو گئی ہے۔ کوئلے اور لکڑی کی جگہ اب گیس لائن پوری بلڈنگ کو گرم رکھتی ہے۔ کرسمس کی شام اور نئے سال کے جشن کے بعد اپنی سہیلی اور اسکول کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اسی چرچ میں پہلی بار اس کے ساتھی جان نے شادی کی پیشکش اس کے سامنے رکھی تھی۔۔ اور پھر رسمی طور سے اس کے ماں باپ کی اجازت لے کر اسی چرچ میں ان کی شادی ہوئی تھی۔

پاس ہی کی گلیوں میں اس کی سہیلیوں کے مکان ہوا کرتے تھے۔ گھر کے سبھی کام بڑی عورتوں کے ہی ذمہ ہوا کرتے تھے۔ گھر کی لڑکیاں اس ذمہ داری کو نبھانے میں ماں کی مدد کرتیں۔ اسے یاد ہے کہ باپ کے آنے پر گھر بھر ان کی دیکھ بھال میں جٹ جاتا۔ سارا دن کام سے آئے آدمی کی خدمت کی ذمہ داری عورتیں ہی نبھاتی تھیں، آج کی طرح گھر کے سبھی افراد روزی کمانے نہیں جاتے تھے۔ کام کی تقسیم کی بنیاد ہی الگ تھی۔ اسے تو آج بھی خود کام کرنے کے باوجود آج کے سماج کا نیا انداز سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بچہ ہوتے ہی اس نے سب چھوڑ گھر کی ذمہ داریوں پر ہی اپنا دھیان مرکوز کر لیا تھا۔ کام بہت کئے پر سب کام پیسے کے ہی لئے نہیں کئے تھے۔ سالوں سال اس نے پاس پڑوس کی عورتوں کو کڑھائی بنائی سلائی وغیرہ سکھائے کا کام کبھی چرچ کی طرف سے تو کبھی عورتوں کی انجمنوں میں کیا تھا۔

شہر بڑھنے لگا اور تجارتی مرکز بننے لگا، زمینوں کے دام بڑھے تو اس کے خاندان کے سبھی لوگ یہاں کی زمین مکان بیچ نیوجرسی میں جا بسے۔ دوری کم ہی سہی پر اس بدل بدلاؤ میں کئی سہیلیوں سے ملنا جلنا چھوٹ گیا۔ وہ بتا رہی تھی کہ کون سے مکانوں میں کون سی سہیلی رہتی تھی۔ وہاں کیا کیا بن گیا ہے وغیرہ۔۔ اس شہر نے جہاں سب کو پناہ اور ترقی دی، وہیں بہت سوں کو الگ بھی کیا۔ یہ بات الگ ہے اب وہاں اونچی اونچی عمارتیں بن چکی تھیں۔ اسے آج بھی یاد ہے کہ شادی کے فوری بعد انہوں نے مین روڈ پر ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا تھا۔ شروع میں ان کے پاس کار نہ تھی تو بس اور ریل وغیرہ پکڑنے میں آسانی رہتی تھی۔ جلدی ہی وہ کار اور اس کے بعد ایک مکان لے چکے تھے۔ بچوں کے جنم کے بعد انہوں نے شہر سے دور ایک کھلے اور صاف ستھرے ماحول میں مکان لینے کا فیصلہ کیا اور نیوجرسی میں آ بسے، تاکہ بڑھتے شہر کی بڑھتی بے چینیوں کی جگہ ہرے بھرے اور مانوس ماحول میں بچے بڑے ہوں۔ پھر وہاں سے یہ شہر بھی دور تھوڑے ہی تھا۔

ایک ایک کر کے کئی دوستوں اور رشتہ داروں کا کل ملا کر اچھا گروپ بن گیا تھا۔ گرمیوں میں بہت سی پکنکیں سمندر کے کنارے ہوتیں اور سردیوں میں گھر رہ کر فائر پلیس کے آگے کھانے پینے اور تاش وغیرہ کے کھیلوں سے محفل جمتی۔ کبھی ریکارڈ پر گانے بجا کر ناچنے کی محفل تو کبھی مختلف طرح کے سنگیت مقابلے۔۔ دھیرے دھیرے ان کی اکلوتی اولاد بھی بڑی ہوئی اور ہپّی دور کی بھینٹ چڑھی۔ ورنہ آج وہ دادی بنی کہانیاں سناتی ہوتی۔ پھر وہ دن بھی آیا، جب اچانک ایک دن بیٹھے بیٹھے جان اسے چھوڑ گیا۔ اس اچانک ہوئے صدمہ کے لئے اس نے بہت شکایتیں کی تھیں خدا سے۔۔ پر آج سوچتی ہے کہ کاش وہ بھی یوں موت کے انتظار میں گھڑیاں نہ گن کر اچانک بغیر کسی آخری سفر کا پروگرام بنائے چلی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔م پر چاہنے سے سب تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ قدرت کے حساب سے سب کچھ ایک منصوبہ سے چل رہا ہے۔ ایک تھنڈی سانس چھوڑتی ہے میری۔۔

وقت کب ٹھہرا ہے، بس لے دے کر کچھ یادیں ٹھہر جاتی ہیں۔ انہیں یادوں کی ڈور کے سہارے کبھی کبھی وہ بیتے وقت کوحال میں کھینچ لاتی ہے۔ آج وہ اس ڈور کو کافی مضبوطی سے پکڑ رہی تھی اور دھیرے دھیرے بیتے دنوں کی یادیں تازہ ہو رہیں تھیں، جیسے کل ہی کی بات ہو۔

پھر دور چلا کہ کون سے سال میں کون بچھڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔۔ وہ جیتی رہی تھی اور جب ایک ایک کر کے دوستوں اور خاندان کے سبھی جاتے رہے تھے اسے ایک دم اکیلا چھوڑ کر۔۔ اب جیون کے اس موڑ پر کم سے کم اسے انتظار نہیں ہے کسی کا۔۔

باتوں باتوں میں دن نکل آیا تھا اور ٹیکسی کار پتہ پر کھڑی تھی۔ وہاں کا عملہ پہلے سے تیار تھا، ان کے پہنچتے ہی مدد کے لئے دو آدمی آ گئے تھے۔ میری ایک لمبی سانس لے کر ٹیکسی سے اتری اور کہا کہ میں جب تک یہاں رہوں گی، آج کا سفر یاد رہے گا۔ تم نے بڑے صبر سے میری باتیں سنی اور جگہ جگہ رکتے رہے، جھنجھلائے بھی نہیں۔ اس نے پیسے کے لیے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ایکدم ہی ڈرائیور یعنی نکولس نے اسے روکنے کے لیے ہاتھ پکڑ لیا۔ اپنے سے قد میں کافی چھوٹی اور دبلی پتلی خاتون کو گلے لگایا تو محسوس ہوا کہ اس خاتون کی پکڑ کچھ لمحوں تک چھوٹی نہیں ہے۔ کچھ ہی منٹوں میں ہی ایک مانوسیت ہوگئی تھی۔

یوں تو وہ برسوں سے انہیں سڑکوں پر ٹیکسی میں گھومتا رہا ہے۔ اسے لگا آج پہلی بار اس نے خود ایک متاثر کرنے والا سفر کیا ہے۔۔ اس نے آسمان کی اور دیکھا تو لگا جیسے صبح کا اگتا سورج مسکراتا ہوا رات ڈھلنے کے انتظار میں ہو۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close