سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بدامنی عروج پر ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ آئے روز ڈکیتوں کے ہاتھوں قیمتی جانوں کا نقصان شہر کا معمول بن گیا ہے
گزشتہ دنوں سینٹرل کراچی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری سید امین الدین علوی کو اس وقت قتل کر دیا گیا، جب وہ غریب بچوں کو عید کی خریداری کے لیے لے کر جا رہے تھے
سید امین الدین علوی کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی بتاتے ہیں ”وہ بہت خدا ترس اور سخی انسان تھے۔ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ گولی کا نشانہ بنتے وقت بھی ان کے ہمراہ تین غریب بچے تھے، جن کو وہ عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر گئے تھے“
سید صغیر الدین علوی کے مطابق امین الدین علوی چند دن قبل کینیڈا سے عید کرنے پاکستان آئے تھے
ان کے دونوں بیٹے والد کی وفات کی خبر ملنے کے بعد کینیڈا سے کراچی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور متوقع طور پر آج کراچی پہنچ جائیں گے، جس کے بعد ان کی تدفین کی جائے گئی
سید امین الدین علوی کے قتل کا مقدمہ تھانہ پاپوش نگر کراچی میں درج کیا گیا ہے۔ درج مقدمہ مقتول کی بہن کی جانب سے درج کروایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے ”مجھے کینیڈا سے میرے دوسرے بھائی نے فون کر کے بتایا کہ اس کو سید امین الدین علوی کے ملازم نے بتایا ہے کہ انہیں میڑک بورڈ آفس کے قریب ڈکیتی مزاحمت پر ٹانگ پر گولی مار کر زخمی کر دیا گیا ہے“
درج مقدمے کے مطابق گولی ٹانگ پر لگی تھی اور امین الدین علوی کو عباسی شہید ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہو گئے
ایف آئی آر کے مطابق ”دو موٹر سائیکل سواروں نے میرے بھائی کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کر دیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ تین کم عمر لڑکے بھی موجود تھے“
تھانہ پاپوش نگر کے ایس ایچ او ملک شوکت اعوان کے مطابق تین کم عمر لڑکے مقتول سید امین الدین علوی کی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد کے قریب موجود ایک غریب بستی کھنڈو گوٹھ سے تعلق رکھتے تھے
لڑکوں کے بیان کے مطابق مقتول انھیں عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر جا رہے تھے
ملک شوکت اعوان کے مطابق پولیس کو تینوں لڑکوں نے بتایا ”وقوعہ سے پہلے امین الدین ہمیں اپنی گاڑی میں ہمارے علاقے سے ساتھ لے کر گئے تھے۔ ہم سب سے پہلے بینک گئے اور اس کے بعد ہمیں عید کے لیے خریداری کروائی تھی“
لڑکوں نے یہ بھی بتایا کہ مقتول انہیں ساتھ لے کر ریفریشمنٹ بھی کرتے رہے اور ان کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتے رہے۔ ایسے میں میٹرک بورڈ کی عمارت کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی کو روکا اور ایک موٹر سائیکل سوار نے پستول نکال کر ان سے کوئی بات کی
ملک شوکت اعوان کے مطابق اس موقع پر دوسرا موٹر سائیکل سوار موقع سے دور کھڑا رہا۔ موٹر سائیکل سوار کے بات کرنے پر جب مقتول نے ہاتھ پیچھے کیا تو موٹر سائیکل سوار نے فائرنگ کر دی، جس سے ان کی ٹانگ پر گولی لگی تھی
کراچی میں کرائم رپورٹنگ کرنے والے نذیر شاہ کے مطابق ’انھیں کافی دیر تک طبی امداد نہیں ملی تھی۔ اس موقع پر ان کے پاس وہ تینوں کم عمر لڑکے ہی موجود تھے جو کہ اس صورتحال میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔ وہ کافی دیر تک تڑپتے رہے تھے، جس کے بعد ایک رکشہ ڈرائیور وہاں سے گزرا اور اس نے ان کو ہسپتال پہنچایا‘
نذیر شاہ کا کہنا تھا کہ مقتول کو جب ہسپتال پہنچایا گیا تو کافی وقت گزر چکا تھا اور کافی خون بہہ چکا تھا۔
مقتول کے بہنوئی سید صغیر علوی کے مطابق، امین علوی کی عمر تقریباً پینسٹھ سال تھی اور وہ کینیڈا میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے
انہوں نے سوگواروں میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ وہ کئی سال تک سعودی ایئر لائن میں ایئر کرافٹ انجینیئر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے
سید صغیر علوی کہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا اور وہ کئی سال سے ان کا معمول تھا کہ وہ سال میں دو، تین مرتبہ کراچی ضرور آتے تھے۔ ”یہ موقع عموماً عیدوں کا ہوتا تھا اور اس دوران وہ اکثر و بیشتر قریب کی غریب بستی کھنڈو گوٹھ میں زیادہ جاتے تھے اور وہاں کے لوگ انہیں اچھی طرح جانتے تھے“
کھنڈو گوٹھ کی بستی میں زیادہ تر غریب، مزدور پیشہ افراد رہتے ہیں۔ اس بستی کے رہائشی محمد جمال، سید امین الدین علوی کو کئی سال سے اچھی طرح جانتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ”مقتول ایک خدا ترس انسان تھے اور وہ ہماری بستی کے کئی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ یہ میرے علم میں ہے کہ وہ ہماری بستی کے کم از کم چھ کم عمر لڑکوں کی تعلیم کا سارا خرچہ اٹھاتے تھے۔ وہ کم عمر بچے پہلے محنت مزدوری کرتے تھے لیکن اب وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور قریب کے اسکولوں میں جاتے ہیں“
محمد جمال کا کہنا تھا ”اس کے علاوہ وہ جب بھی پاکستان آتے تھے زیادہ تر وقت ہماری بستی میں گزارتے تھے۔ جن بچوں کو تعلیم دلوا رہے تھے ان کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ ان کو ساتھ لے کر ان کے اسکول میں جاتے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل بہتری کی طرف گامزن ہے“
محمد جمال کا کہنا تھا ”وہ جب بھی آتے تو ان کا یہ معمول ہوتا تھا کہ وہ کچھ بچوں کو اپنے ساتھ لے کر بازار جاتے تھے۔ ان کو خریداری کرواتے تھے۔ عموماً یہ موقع عید ہی کا ہوتا تھا۔ اس دوران وہ بچوں کو عید کی خریداری کرواتے تھے“
ان کا کہنا تھا ”ان کا مدد کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کروایا تھا۔ اس میں بھی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ جن لوگوں کو وہ کاروبار شروع کرواتے ان کے حوالے سے ان کی شرط یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں“
محمد جمال کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی آتے اس بات پر ضرور نظر رکھتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کی کس طرح تربیت کرتے ہیں
سید صغیر علوی کا کہنا ہے ”ہمیں معلوم ہے کہ ضرورت پڑنے پر انہوں نے خاندان کے کئی لوگوں کی بھی مدد کی مگر انہوں نے کبھی بھی نہیں جتلایا کہ وہ یہ کام کرتے ہیں۔۔ ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ تو ضرور تھا کہ قریب کی غریب بستی میں ان کی کیا سرگرمیاں ہو سکتی ہیں مگر انہوں نے آج تک کبھی بھی اپنے زبان سے اس بارے میں ایک لفظ نہیں بولا اور کبھی بھی نہیں بتایا کہ وہ کس طرح مخلوقِ خدا کی مدد کرتے ہیں“
ملک شوکت اعوان کا کہنا تھا ”پولیس نے مقتول کے بارے میں جو بھی معلومات حاصل کی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ وہ انتہائی خدا ترس انسان تھے اور کئی لوگوں کی مدد کررہے تھے“
واضح رہے کہ جنوری سے مئی تک پولیس کی جانب سے فراہم کیے گئے اسٹریٹ کرائم ڈیٹا کے مطابق صرف رواں سال جنوری سے مئی کے درمیان چالیس ہزار اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں
اعداد و شمار کے مطابق بارہ ہزار شہریوں کے موبائل فون چھینے گئے ہیں اور چوبیس ہزار سے زیادہ شہری موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے ہیں۔ اس دوران ایک ہزار سے زیادہ گاڑیاں بھی چھینی گئی ہیں
کرائم رپورٹر نذیر شاہ بتاتے ہیں ”سب سے افسوسناک یہ کہ ان پانچ ماہ کے دوران ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر تریسٹھ شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ایسے ہی واقعات میں ایک ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔“