پاکستان زیرِ زمین موجود پانی استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک

ویب ڈیسک

پاکستان زیرِ زمین موجود پانی استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ملک میں 1960ء میں نجی ٹیوب ویلوں کی تعداد تیس ہزار سے 2018ع میں بڑھ کر بارہ لاکھ ہو چکی ہے۔ ان میں سے 85 فیصد ٹیوب ویل پنجاب ، 6.4 سندھ، 4.8 بلوچستان اور 3.8 فیصدخیبر پختونخوا میں ہیں

پنجاب میں تین چوتھائی جبکہ سندھ میں ایک چوتھائی رقبے پر زیرِ زمین پانی کا معیار بہتر ہے۔ پنجاب کے زیرِ کاشت 50 فیصد علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح 6 میٹر تک گر چکی ہے

زیرِ زمین پانی کے ذخائر اور ملک میں ان کی دستیابی کے حوالے سے عالمی بینک، زرعی تحقیقی ادارے ’انٹر نیشنل سنٹر فار بائیو سیلائن ایگریکلچر‘ سمیت دیگر متعلقہ ذرائع سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دریائے سندھ کا آبپاشی کا نظام دنیا میں بہترین ہے

ورلڈ بینک کی رپورٹ ’پاکستان کے انڈس بیسن میں گرائونڈ واٹر، حال اور مستقبل‘ کے مطابق پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے بے تحاشہ استعمال، سیم تھور اور آلودگی نے اس آبی ذخیرہ کے لیے شدید خطرات پید اکر دیے ہیں، جس کی وجہ سے قحط سالی، عوامی صحت اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں

پاکستان بھر میں 70، دیہی علاقوں میں گھروں میں 90 جبکہ زراعت میں 50 فیصد پانی زیرِ زمین ذخائر سے حاصل ہوتا ہے

1999ع سے دبئی میں قائم زرعی تحقیقی ادارے ’انٹرنیشنل سنٹر فار بائیو سیلائن ایگریکلچر‘ میں آبپاشی کے سائنسدان ڈاکٹر اسد قریشی کے تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان زیرِ زمین موجود پانی کو استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے، جو دنیا میں زیرِ زمین سے نکلنے والا 9 فیصد پانی استعمال کرتا ہے جبکہ زیرِ زمین پانی سے کاشت ہونے والے کل عالمی رقبے میں سے 4.6 فیصد ہی پاکستان میں کاشت ہوتا ہے

ملک میں زیرِ زمین پانی سے کاشت کو 60ع کی دہائی میں فروغ حاصل ہوا ۔تقریباً 6 دہائیوں (1960ء سے 2018ء) میں ملک میں ٹیوب ویلوں کی تعداد تیس ہزار سے بڑھ کر بارہ لاکھ ہو گئی۔ اس عرصے کے دوران پنجاب میں زیر کاشت رقبہ تقریباً دگنا (8.6 سے بڑھ کر 16 ملین ہیکٹر) ہو گیا۔ ملک میں آبپاشی کے لیے 73 فیصد پانی زیر زمین سے بلاواسطہ یا بالواسطہ حاصل کیا جاتا ہے جبکہ آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والے صرف 27 فیصد پانی دریائوں اور نہروں سے حاصل ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close