سر موہن لال نے ریلوے اسٹیشن کی فرسٹ کلاس انتظار گاہ کے آئینہ میں اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی۔ آئینہ چونکہ ہندوستان میں بنا تھا، لہٰذا اس کے پیچھے لگا سرخ آکسائیڈ (red oxide) جگہ جگہ سے نکل چکا تھا اور آئینے کی بیرونی نیم شفاف سطح پر آڑی ترچھی لکیریں ابھر آئی تھیں۔ سر موہن نے ایک رحم دلانہ اور مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ ”تم بھی اس ملک کی اور چیزوں کی طرح نااہل، آلودہ اور لاتعلق ہو۔۔“ وہ بڑبڑائے۔
آئینہ بھی جواب میں سر موہن کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا
”تم، بیوقوف شخص! شاید کچھ حد تک صحیح ہو۔۔“ آئینے نے کہا، ”ممتاز، قابل، یہاں تک کہ وجیہہ۔۔ ان سنوری ہوئی موچھوں کے ساتھ، سیول رو (Saville Row) کے گلابی پھول سے سجے اس سوٹ کے ساتھ _ او ڈو کولون (eau de cologne) ، ٹیلکم پاؤڈر، اور خوشبو دار صابن کی مہک کے ساتھ تم، ہاں تم! بیوقوف شخص، تم کسی حد تک صحیح ہو۔“
سر موہن نے سینے کو پھیلا کر اپنی بیلیل (Balliol) کی ٹائی کو متعدد بار سہلایا اور ہاتھ ہلا کر آئینہ کو الوداع کہہ دیا۔
اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ابھی کچھ وقت تھا۔ اس نے آواز دی، ”کوئی ہے؟”
جالی کے دروازہ سے ، سفید وردی میں ملبوس ملازم داخل ہوا
”ایک چھوٹا“ سر موہن نے آرڈر دیا اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے، بانس کی کرسی پر آرام سے بیٹھ گئے
انتظار گاہ سے باہر، سر موہن لال کا سامان دیوار سے لگا رکھا تھا۔ ایک اسٹیل کے صندوق پر لچھمی، موہن لال کی بیوی پان کھاتی ہوئی اور اخبار سے پنکھا کرتی بیٹھی تھی۔ وہ ایک چالیس سال کے آس پاس، چھوٹے قد کی، فربہ عورت تھی
وہ لال بارڈر کی سفید میلی سی ساری میں ملبوس، ناک میں ہیرے کی نتھنی اور ہاتھوں میں بہت ساری سونے کی چوڑیاں پہنے ملازم سے باتیں کر رہی تھی۔ باتوں کا سلسلہ اس وقت منقطع ہو گیا، جب موہن لال نے اس ملازم کو اندر بلا لیا۔ پھر لچھمی نے پلیٹ فارم پر گذرتے ہوئے قلی کو بلایا۔ ”زنانہ ڈبہ کہاں رکے گا؟“
”سیدھے پلیٹ فارم کے آخر پر۔“ قلی نے اپنی پگڑی کو تھوڑا سا پھیلایا اور اسٹیل کا صندوق اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا، اور پلیٹ فارم پر آگے بڑھنے لگا
مسز لال بھی پیتل کا توشہ دان اٹھا کر سبک رفتاری سے قلی کے پیچھے چلنے لگیں۔راستہ میں ایک اسٹال پر رک کر اپنے پاندان کو پُر کر لیا اور پھر سے قلی کے ساتھ چلنے لگی۔ قلی نے صندوق نیچے رکھا، مسز لال اس پر بیٹھ گئیں اور قلی سے باتیں کرنے لگیں، ”کیا اس راستہ پر ٹرینوں میں ہجوم ہوتا ہے؟“
”آج کل تو ساری ہی ٹرینوں پر بھیڑ ہوتی ہے، لیکن آپ کو زنانہ ڈبہ میں جگہ مل جائے گی۔“
”میرے خیال سے بہتر ہوگا کہ میں کھانے کے مسٔلہ کو حل کر لوں“ مسز لال نے پیتل کا توشہ دان کھولا، اینٹھی ہوئی چپاتیوں کا پلندہ اور آم کا اچار نکالا۔ اس کے کھانے تک، قلی بھی وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور وقت گذاری کے لیے ریت پر لکیریں بنانے لگا۔
”بہن، کیا آپ اکیلی سفر کر رہی ہیں؟“
”نہیں بھائی، میں تو اپنے شوہر کے ساتھ ہوں۔ وہ انتظار گاہ میں ہیں۔ وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہیں۔ دراصل وہ ایک بیرسٹر اور وزیر ہیں، اس لیے انہیں ٹرین میں بھی کئی اعلیٰ عہدیداروں اور انگریزوں سے ملنا ہوتا ہے۔ میں تو سادی سیدھی دیسی عورت ہوں۔ نہ میں انگریزی زبان سمجھتی ہوں اور نہ ہی ان کے طور طریقوں سے واقف ہوں، اس لیے زنانہ ڈبے میں سفر کرنا میرے لیے زیادہ آرام دہ ہے۔“
لچھمی گپ شپ کی دلدادہ خاتون تھی۔ گھر میں تو اس سے کوئی بات کرنے والا تھا نہیں، لہٰذا وہ قلی سے بات کرتے ہوئے کافی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ شوہر کے پاس تو بیوی کے ساتھ گذارنے کے لیے وقت تھا ہی نہیں۔ گھر کی اوپر والی منزل پر وہ ہوتی اور نچلی منزل پر اس کا شوہر۔ مسٹر لال کو قطعی پسند نہیں تھا کہ بیوی کے غریب، ان پڑھ رشتہ دار ان کے بنگلہ پر آتے جاتے رہیں۔اس لیے وہ کبھی آتے ہی نہیں تھے۔ مسٹر لال خود بھی بیوی کے پاس کبھی کبھار بس کچھ منٹوں کے لیے جایا کرتے۔ وہ صرف اسے حکم دیا کرتے تھے، انگلش زدہ ہندوستانی میں، جسے وہ خاموشی سے بجا لاتی۔ یہ رات کی مختصر ملاقاتیں، بہرحال، لاحاصل ہی رہیں۔
سگنل دے دیا گیا اور گھنٹی کی آواز نے ٹرین کے پہنچنے کا اعلان کر دیا۔ مسز لال نے عجلت میں اپنا کھانا ختم کیا، اور اچار کی کیری کا ٹکڑا چوستی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ پلیٹ فارم پر لگے نل سے ہاتھ اور منہ دھوئے، کلیاں کیں، بڑی سی ڈکار لی، ساری کے پلو سے ہاتھ اور منہ خشک کیے۔ پھر ڈکاریں لیتی ہوئی اور پیٹ بھر کھانے کے لیے خدا کا شکر ادا کرتی ہوئی اپنے اسٹیل کے صندوق کو دیکھتی قلی کے پیچھے چل پڑی۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑی تھی۔ٹرین کے آخر میں، گارڈ کے ڈبے کے بعد زنانہ ڈبہ تقریباً خالی تھا۔ جبکہ باقی ساری ٹرین لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ مسز لال بڑی محنت سے اپنے بھاری جسم کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ بیٹھ کر ڈبہ میں داخل ہوئیں اور کھڑکی کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ پلو میں بندھے دو آنے نکال کر قلی کو دیے اور اسے رخصت کیا۔ پھر وہ پاندان کھول کر بیٹھ گئیں۔ پان پر کتھا اور چونا کے ساتھ چھالیہ اور الائچی ڈال کر منہ میں ٹھونس لیا، جس کی وجہ سے ان کے دونوں گال پھول چکے تھے۔ اب وہ اطمینان سے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے بے مقصد ہی پلیٹ فارم پر لوگوں کے ہجوم کو ادھر سے ادھر بھاگتے ہوئے، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے اور دھکے دیتے ہوئے دیکھنے لگیں۔
ٹرین کے پلیٹ فارم پر پہنچنے کی وجہ سے سر موہن لال کے سکون میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ انہوں نے آرام سے اسکاچ کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے ملازم کو ہدایت دی کہ جب وہ سامان فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میں پہنچادے، تب انہیں بتا دے۔ جوش ، افراتفری ، عجلت یہ سب گنواروں کے اظہار کے طریقے تھے۔۔ اور سر موہن لال ایک باعزت اور مہذب شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں ہر چیز عمدہ اور منظم چاہیے تھی۔ ان کے اخلاق اور اندازِ فکر دراصل ان کے اعلیٰ معاشرے کی دَین تھے۔ سر موہن لال کو ہندوستانی زبان میں بات کرنا بالکل پسند نہیں تھا، اور اگر کہیں ضرورت پڑ ہی جائے تو بہت مختصر، انگلش نما ہندوستانی (Anglicized) بولتے تھے۔انھوں نے انگریزی کو انتہائی خوش اسلوبی سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بولی جانے والی انگریزی زبان کے مماثل خالص اور نفیس بنا دیا تھا۔ انہیں بات کرنا اچھا لگتا تھا، لہٰذا جب وہ مختلف موضوعات – کتب، سیاست ، شخصیات – پر گفتگو کرتے تو لگتا تھا کوئی متمدن انگریز بول رہا ہو۔ انگریزوں کو اس بات کا اعتراف تھا کہ سر موہن لال بالکل انگریزوں کی طرح بولتے تھے۔
سر موہن لال حیران تھے کہ اس ڈبے میں کہیں وہ اکیلے ہی تو سفر نہیں کر رہے تھے۔وہ فوجی چھاؤنی (Cantonment) کا علاقہ تھا، اس لیے کچھ انگلش عہدیدار ضرور ٹرین پر ہونے چاہئیں۔ ان کا دل مسرت سے کھل اٹھا تھا یہ سوچ کر کہ بڑی متاثر کن گفتگو رہے گی۔لیکن کبھی وہ اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ انگریزوں سے بات کرنے کے لیے بے قرار ہیں، جیسے کہ عام طور پر ہندوستانیوں کی عادت ہوا کرتی تھی۔۔ اور نہ ہی وہ ان کی طرح پُر زور، جارحانہ اور کٹر رویہ رکھتے تھے۔ وہ جذبات سے عاری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھنا پسند کرتے تھے۔ وہ کھڑکی سے لگی اپنی سیٹ پر بیٹھے ’دی ٹائمس‘ (The Times) کھول کر پڑھنے لگتے۔ لفظی معمہ حل کرنے کے لیے وہ اخبار کو کچھ اس طرح سے تہہ کرتے کہ لوگوں کو اخبار کا نام اچھی طرح دکھائی دیتا۔کیونکہ ’دی ٹائمس‘ دراصل لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لیتا۔ کوئی نہ کوئی ضرور ان سے مانگ لیتا جب وہ اخبار کو تہہ کر کے اس تاثر کے ساتھ بازو رکھ دیتے ’میں نے تو ختم کرلیا ہے۔‘ شائد کوئی مسافر یہ جان کر ان سے متاثر بھی ہو جائے کہ انہوں نے بیلیل کی ٹائی پہن رکھی تھی، جو اکثر سفر کے دوران ضرور پہنا کرتے تھے۔جس سے پریوں کی دنیا کا ایک وسیع منظر کھل جاتا – آکسفورڈ کے کالجس، ماسٹرس کی ڈگریاں، یونیورسٹی کے استاد اور ٹیوٹرس، کشتی کی دوڑ اور رگر کے میچس (بیضوی شکل کے فٹ بال کا کھیل، جسے رگبی Rugby بھی کہا جاتا ہے۔) اگر ’دی ٹائمس‘ اور برانڈیڈ ٹائی، دونوں بھی لوگوں کو متاثر نہ کرسکے تو سر موہن لال اپنے ملازم کو آواز لگاتے ”کوئی ہے“ اور اس سے اسکاچ لانے کا کہتے۔وہسکی کبھی بھی انگریزوں کو متاثر کرنے میں ناکام نہیں رہتی۔ پھر سر موہن لال کا انگلش سگریٹوں سے بھرا خوبصورت طلائی سگریٹ کیس نکل آتا۔ ہندوستان میں انگلش سگریٹ؟ آخر اس نے کہاں سے حاصل کیے ہونگے؟اگر پوچھیں تو برا تو نہیں مانے گا؟ اور سر موہن لال دل ہی دل میں مسکراتے _ بالکل بھی نہیں۔
کیا کبھی انہوں نے انگلینڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے کسی انگریز کو ذریعہ بنایا ہوگا؟ وہ پانچ سال کا عرصہ کچھ ایسے گذرا __ سرمئی بیگس اور گاؤنس کے ساتھ، کھیلوں کے کوٹ (blazers) اور مکسڈ ڈبلس، کورٹ کے ہوٹل میں کھانا کھانا، اور راتیں پیکاڈیلی (Piccadilly) کی عصمت فروش خواتین کے ساتھ گذارنا۔ وہ پانچ سال معزز شخصیات کے درمیان شاندار زندگی گذری۔ وہ پانچ سال ہندوستان میں گذارے پینتالیس سال جو ناپاک اور واہیات لوگوں کے درمیان گذرے، کامیابی کے راستوں کے بارے میں گھٹیا قسم کی تفصیلات، وہ بالائی منزل پر رات کی مختصر ملاقاتیں، اس پیاز اور پسینہ سے بھری بدبو والی موٹی لچھمی کے ساتھ گذارنے سے بہت بہتر تھے۔
سر موہن لال کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، جب ملازم نے بتایا کہ ان کا سامان انجن کے ساتھ والے فرسٹ کلاس کے ڈبے میں رکھ دیا گیا۔ سر موہن مہذب انداز میں اپنے مخصوص ڈبے کی طرف چل پڑے۔ ڈبہ میں داخل ہونے پر وہ یہ دیکھ کر بڑے مایوس ہوئے کہ ڈبہ خالی تھا۔ ایک گہری سانس لے کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ’دی ٹائمس‘ کو دوبارہ کھول لیا، جو وہ اب تک کئی بار پڑھ چکے تھے۔
سرموہن کھڑکی سے باہر مجمع سے بھرے پلیٹ فارم پر نظریں دوڑانے لگے۔ اچانک ان کا چہرہ چمک اٹھا، جب انہوں نے پلیٹ فارم پر دو انگلش سپاہیوں کو بھاری قدموں سے، ہر ڈبے میں جگہ تلاش کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کے وزنی کینوس کے تھیلے ان کی پیٹھ پر لٹکنے کی وجہ سے وہ ڈگمگاتے ہوئے چل رہے تھے۔ سر موہن نے طے کیا کہ وہ ریلوے گارڈ سے بات کر کے انہیں اپنے ڈبے میں بلالیں اگرچہ کہ وہ سیکنڈ کلاس کے اہل تھے۔
ایک سپاہی نے اس آخری ڈبے میں جھانک کر دیکھا کہ کافی سیٹیں دستیاب تھیں۔
”ارے ، بل(Bill)“، اس نے آواز لگائی، ”یہاں ہے۔“
اس کے ساتھی نے بھی قریب آ کر ڈبہ میں جھانکا، اور اس کی نظر سر موہن پر پڑی۔ ”اس سیاہ فام کو باہر کرو“ اس نے آہستہ سے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی
انہوں نے دروازہ کھولا اور کچھ مسکراتے ہوئے اور کچھ احتجاجاً سر موہن کی طرف دیکھا۔
”کیا یہ محفوظ ہے؟“ بل نے پوچھا
”جنتا _ آرمی کے لیے محفوظ __فوج“ جم (Jim) نے شور مچایا اور ان کی خاکی قمیص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”ایک دم نکل جاؤ ۔ نکل جاؤ!“
”میری بات سنو، میں کہہ رہا ہوں، یقیناً۔۔۔“ سر موہن نے اپنے آکسفورڈ والے لہجہ میں کہنا چاہا۔
سپاہی کچھ رکے۔ یہ تو انگریزوں کی طرح بولتا تھا۔ لیکن ان کے گوری چمڑی کے نشے میں ڈوبے کان کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔تب ہی انجن کی سیٹی سنائی دی اور گارڈ نے ہری جھنڈی ہلا دی۔
سپاہیوں نے سر موہن کا سوٹ کیس پلیٹ فارم پر پھینک دیا۔ پھر ان کا تھرماس فلاسک بریف کیس، بستر بند اور ’دی ٹائمس‘ بھی پھینک دیا۔۔
سر موہن غصہ سے آگ بگولہ ہو گئے۔۔ ”انتہائی نامعقول، بیہودہ“ سر موہن بھرائی ہوئی آواز میں چیخ اٹھے، ”میں تمہیں گرفتار کروا دوں گا۔ گارڈ، گارڈ!“
بل اور جم نے پھر سے توقف کیا۔ یہ تو واقعی انگریز کی طرح لگتا تھا۔۔ لیکن پھر بھی حکومت کی طرف سے ان کو سہولتیں مہیا کرنا شائد ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔
”اپنا لال لال منہ بند رکھو!“ اور جم نے سر موہن کے چہرے پر تھپڑ رسید کر دیا۔
انجن نے دوسری سیٹی دی اور ٹرین حرکت میں آگئی تھی۔ دونوں سپاہیوں نے سر موہن کو بازؤں سے پکڑا اور پوری طاقت سے انہیں ٹرین سے باہر پھینک دیا۔ وہ گھوم کر بستر بند سے ٹھوکر کھا کر ان کے سوٹ کیس پر رکے۔
”الوداع!“
سر موہن کے پیر جیسے زمین میں گڑ چکے تھے اور وہ اپنی بولنے کی طاقت کھو چکے تھے۔ وہ بس تیزی سے گذرنے والی ٹرین کی روشن کھڑکیوں کو دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ ٹرین کا آخری ڈبہ بھی گذر گیا، جہاں گارڈ ہاتھوں میں جھنڈیاں لیے دروازہ پر کھڑا تھا۔ زنانہ کمپارٹمینٹ میں، موٹی لچھمی، ناک میں چمکتی ہوئی ہیرے کی نتھنی پہنے بیٹھی تھی۔ منہ پان سے اور تھوک سے بھرا، اس انتظار میں تھی کہ جیسے ہی ٹرین پلیٹ فارم سے باہر ہو تو وہ تھوک کر اپنا منہ صاف کر لے۔ٹرین جیسے ہی تیز رفتار ہوئی اور پلیٹ فارم کی روشنیاں دور ہوتی چلی گئیں، مسز لال نے سرخ رنگ کا فوارہ تیر کی طرح فضا میں بکھیر دیا۔
Original Title : KARMA
Written by:
Khushwant Singh