ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چار ارب نوے کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور اوسطاً ایک شخص روزانہ 145 منٹ یعنی تقریباً ڈھائی گھنٹے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے
اگرچہ سوشل میڈیا کا زیادہ تر استعمال دوستوں اور جاننے والوں سے رابطہ قائم کرنے، دفتری کام کے لیے ہو سکتا ہے، تاہم اس کے علاوہ بھی دیگر کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن لوگ جو چیز سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر کرتے ہیں ،وہ ہے اسکرولنگ
اگرچہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے مثبت اثرات بھی ہیں لیکن دوسری جانب اس کا منفی استعمال بالخصوص نوعمر افراد اور نوجوانوں کے ذہنوں پر بہت برے اثرات بھی مرتب کرتا ہے
زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا ٹرینڈز کو آنکھیں بند کرکے فالو کر رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر جب ایسے ٹرینڈز یا ہیک کے پیچھے سائنسی، طبی حمایت حاصل نہ ہو
اس حوالے سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں، جیسا کہ سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ وائرل ہو رہا تھا، جس میں بتایا جا رہا تھا کہ بہتر نیند کے لیے منہ کو ٹیپ سے بند کر لیں، اس کے پیچھے یہ خیال تھا کہ منہ پر ٹیپ لگانے سے خراٹے نہیں آئیں گے، جس کے نتیجے میں نیند بھی بہتر آئے گی!
ماہرین کے مطابق اس طرح کے سوشل میڈیا ٹرینڈز انسانی زندگی اور صحت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں
تاہم، لاکھوں لوگ اس کے باوجود اس ٹرینڈ کو فالو کرتے ہیں اور ان کا تجربہ بھی کرتے ہیں، لیکن لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آخر اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق میو کلینک کے ڈاکٹر پال ای کروارکن کا کہنا ہے کہ کچھ ٹرینڈنگ وڈیوز میں دیا گیا پیغام اس قدر قابلِ یقین ہوتا ہے کہ لوگ اسے سچ ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا رابطے اور معلومات کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے، ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے جو معلومات فراہم کی جاتی ہیں لوگ انہیں بغیر تصدیق کیے سچ مان لیتے ہیں
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے خطرناک ٹرینڈز
فائر چیلنج: اس چیلنج میں آئینے پر بنائی گئیں علامتوں کو آتش گیر مادہ استعمال کرتے ہوئے آگ لگا کر روشن کرنا ہوتا ہے
بلیک آؤٹ چیلنج: بلیک آؤٹ چیلنج فالوورز کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی سانس روکیں، جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جائیں
دار چینی کھانے کا چیلنج: جس میں سوشل میڈیا صارفین 60 سیکنڈ کے اندر پانی پیئے بغیر دار چینی کھائیں
نمک اور برف کا چیلنج: جہاں لوگ اپنے بازوؤں پر نمک رکھنے کے بعد برف رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں نمک اور برف میں ہونے والے کیمیکل ری ایکشن سے برف کا درجہِ حرارت ایک دم منفی 17 ڈگری سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے اور جلد میں تیز جلن ہونے لگتی ہے
کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ارفع بانو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ٹرینڈز کو فالو کرنے کا مقصد لوگوں کے اندر دوسروں سے رابطہ قائم کرنے یا توجہ بھی ہو سکتی ہے
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اشتہارات یا ٹرینڈز لوگوں کے ذہنوں پر بہت تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں پہلی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی پہنچ بہت وسیع اور تیز ہے، چند گھنٹوں میں کوئی بھی چیز ٹرینڈ یا وائرل ہو سکتی ہے اور نفسیاتی طور پر لوگ ایک دوسرے سے رابطہ قائم رکھنے یا سوشل میڈیا پر ایکٹو رہنے کے لیے وائرل رِیل/ اشتہار/ وڈیو دیکھتے ہیں اور ان کا تجربہ بھی کرتے ہیں
دوسری جانب کلینکل سائیکلوجسٹ ڈاکٹر صالحہ آفریدی کہتی ہیں کہ لوگ پیچیدہ مسائل کے فوری اور آسان جواب چاہتے ہیں اور انہیں وہ ٹرینڈ زیادہ متاثر کن لگتے ہیں، جو میڈیکل سائنس پر مبنی نہیں ہوتے
یہ صرف ’نوجوان نسل‘ پر اثر انداز نہیں ہو رہا بلکہ ہر انسان پیچیدہ مسائل کا آسان حل چاہتا ہے، اس لیے ہر عمر کے افراد ان سوشل میڈیا ٹرینڈ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں
میو کلینک کے ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ عام طور پر نوجوان سوشل میڈیا اور دیگر ڈجیٹل ٹیکنالوجیز پر زیادہ وقت گزارتے ہیں، جس کی وجہ سے نوعمر لوگوں اور نوجوان کے دماغ اور شخصیت میں تبدیلیاں آتی ہیں جو منفی بھی ہو سکتی ہیں
مثال کے طور پر پروفرانٹل کارٹیکس (prefrontal cortex) دماغ کا وہ حصہ ہے، جو انسان کو سوچنے میں مدد کرتا ہے، کم عمر لوگوں میں دماغ کے دیگر جذباتی حصے جیسے کہ امیگڈالا اور ہپپوکیمپس زیادہ فعال ہوتے ہیں
ڈاکٹر صالحہ کا کہنا ہے کہ عام طور پر وہ نوجوان، جنہیں یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور جو نوجوان جو سوشل میڈیا پر زیادہ مشغول رہتے ہیں یا جو نوجوان فارغ اوقات میں بہت جلدی بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں اور نئے تجربے کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں، ایسے لوگ ان سوشل میڈیا ٹرینڈ کو زیادہ فالو کرتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ اس قسم کے لوگوں زیادہ تر اپنی پسندیدہ مشہور شخصیت سے آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں
تو اس کے تدارک کے لیے کیا کیا جائے؟ اس حوالے سے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فیملی کے ساتھ معیاری وقت اس رجحان کو ختم کر سکتا ہے، اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا والدین بھی اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ بچے سوشل میڈیا پر کس طرح کا مواد دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر پال کا کہنا ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کے لیے والدین ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان سے بات چیت کریں
نوجوانوں کو صحیح مواد کا تعین کرنے میں مدد کرنا بھی بہت ضروری ہے، ڈاکٹر صالحہ کہتی ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو سکھائیں کہ وہ سوشل میڈیا پر مواد کے بارے میں تنقیدی انداز میں سوچیں، وائرل وڈیوز کی تصدیق کریں، سائنسی اور طبی لحاظ سے سوچیں اور کسی بھی ٹرینڈ کا تجربہ کرنے سے قبل کسی ڈاکٹر یا ماہر سے ضرور رابطہ کریں۔