ایل نینو کے اثرات: اس بار نہ بارش نہ برف باری۔۔ پاکستان اور انڈیا کے پہاڑی علاقوں میں کتنا بدل گیا سرما۔۔

ویب ڈیسک

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دُنیا کے دیگر مُمالک کی طرح پاکستان اور انڈیا دونوں پر ہی بڑی شدت سے نہ صرف محسوس بلکہ واضح طور پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ برسات کا آغاز ہوتا ہے تو دونوں مُمالک کے اکثر میدانی اور پہاڑی علاقوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گرمی کے موسم ایسی شدید گرم ہوتی ہے کہ جینا محال ہو جاتا ہے اور اب سردیاں بھی بارشوں اور برف باری کے بغیر ہوتی ہیں اور خشک سردی متعدد بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس مرتبہ موسمِ سرما نے نہ بارشیں دیکھیں نہ برف باریاں۔۔ آخر ایسا کیوں ہے

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری پانی کے درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی ہوئی ہے، جسے ’ایلنینو ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے

اس ’ایلنینو ایفیکٹ‘ کے باعث جہاں سمندری پانی کا درجہ حرارت متاثر ہوتا ہے، وہیں اس کی وجہ سے میدانی علاقوں میں خشک سردی اور بارشوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں میں جاڑے یا سردی کے موسم میں برف باری بھی نہیں ہوتی

’ایلنینو ایفیکٹ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے موسمیاتی ماہرمحکمہِ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک بتاتے ہیں ”یہ دراصل ایک ایسا قدرتی نظام ہوتا ہے کہ جس میں کمی یا زیادتی کی وجہ سے ہوا میں نمی کا تناسب کم یا زیادہ ہوتا ہے۔“

عرفان ورک کے مطابق ”اس مرتبہ ایلنینو ایفیکٹ کی وجہ سے سمندر کی جانب سے آنے والی ہواؤں اور بادلوں میں سمندری پانی کے درجہ حرارت کی وجہ سے نمی کی اُتنی مقدار شامل نہیں ہوئی کہ جو پہاڑی اور میدانی علاقوں میں برف باری اور بارش کا باعث بنتی“

واضح رہے کہ دھند بارش کے برعکس موسمیاتی فنامنا ہے۔ دھند بارش کی عدم موجودگی میں بڑھتی ہے جبکہ بارش ہونے سے دھند پیدا کرنے والے عوامل ختم ہو جاتے ہیں یا بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے میدانی علاقوں میں دھند کی موجودگی اس امر کی علامت ہے کہ بارش دور ہے۔

موسم کے جس ’چکر‘ کا پاکستان اور دنیا کے بہت سے علاقے شکار ہیں اسے ایل نینو کہتے ہیں۔ اس موسمیاتی چکر کے دوران دنیا کے موسم مین اتھل پتھل ایسے ہوتی ہے کہ سردی میں شدید سردی اور گرمی میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس فنامنا کی زد میں آ کر بعض علاقے خشک سالی کے اسپیل سے گزرتے ہیں۔ ان کچھ علاقوں میں جہاں ایل نینو خشک سالی لاتا ہے پاکستان بھی شامل ہے۔ایل نینو کا آغاز گزشتہ سال برسات کا موسم شروع ہونے سے پہلے ہو گیا تھا۔

اب یہ فنامنا کتنا عرصہ رہے گا اس کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔ یہ بہرحال طے ہے کہ جلدی اس کے خاتمہ کا کوئی امکان نہیں۔ بعض مرتبہ ایل نینو صرف ایک سال مین بھی ختم ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ یہ تین سے چار سال تک چلتا ہے۔ اس دوران خشک سالی کے ساتھ غیر متوقع شدید بارشیں بھی ہو سکتی ہیں جیسی گزشتہ سال برسات میں بھارت میں ہماچل پردیش اور گزشتہ ہفتوں میں کرناٹک میں ہوئیں جو شدید نوعیت کے سیلابوں کا باعث بنیں، جبکہ اس ہی دوران بھارت کے بہت سے علاقوں مین برسات کی بارشیں اور اب، موسم سرما کی بارشیں بھی تاریخی اوسط سے کم ہوئی ہیں۔ موسمیات کے ماہرین کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایل نینو کا سال شروع ہونے کے بعد اس کے اثرات کی پیمائش اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے کے لئے درکار کئی ماہ میں اکٹھا ہو پاتا ہے۔

پاکستان بھی دنیا کے بیشتر خطوں کی طرح موسمیاتی فنامنا ایل نینو کی زد میں ہے جس کے سبب پاکستان میں جزوی خشک سالی اور شدید موسم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس تبدیلی کو نہ محکمہ موسمیات مان رہا ہے نہ ہی حکومت کی متعلقہ وزارت کے افسران کو اس کی کوئی فکر ہے۔ تبدیلی نے دریاؤں میں پانی کی قلت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں ایکو سسٹم پر مضر اثرات پڑنے کے خدشات بڑھا دیئے ہیں۔

دنیا کے اہم موسمیاتی اداروں نے اپریل 2023 میں ایک مضبوط ال نینو کی ابتدا کے امکانات کو نوٹ کرنا شروع کر دیا تھا، اس کے کچھ ماہ بعد ایل نینو جون میں نمایاں ہونے لگا تھا۔ تب ایل نینو کا مطالعہ کرنے والے ماہرین موسمیات میں سے پیشن گوئی کرنے والوں کا تخمینہ یہ تھا کہ 2023 مین ایل نینو کی ابتدا کا 55% سے زیادہ امکان ہے۔ اس وقت کہا جا رہا تھا کہ ال نینو جنوری 2024 سے مارچ 2024 تک مزید نمایاں ہو سکتا ہے۔ تقریباً 33 فیصد امکان ہے کہ سمندری نینو انڈیکس مارچ 2024 تک 2.0 °C تک پہنچ جائے گا، جو پاکستان بننے کے بعد اب تک غالباً چار بار ہو چکا ہے: 1972-73، 1982-83، 1997-98، اور 2015-16۔

پاکستان میں موسم سرما نصف سے زیادہ گزر چکا ہے لیکن شمالی علاقہ جات، کشمیر اور پختونخواہ کے پہاڑوں پر برف باری نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے۔ استور میں عام طور پر کئی فٹ برف سے ڈھک جانے والے پہاڑوں پر برف کا دور دور تک نشان نہیں اور درجہ حرارت بھی منفی 5 سے آگے نہیں جا سکا۔

کشمیر میں نیلم، لیپا اور شونٹھر، راولا کوٹ اور پیر پنجال کے علاقے جہاں جنوری کے ان دنوں میں کئی فٹ برف پڑ چکی ہوتی تھی، وہاں اب تک برائے نام برف باری ہوئی ہے، سرما کی بارشیں نہ ہونے سے صرف پانی کے ذخائر میں ہی کمی نہیں آ رہی، ندیوں مین بھی پانی کم ہے جبکہ میدانی علاقوں میں زیر زمین پانی کا لیول گرنے کی رفتار بڑھنے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کے متعدد پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے اکثر علاقوں میں بھی اس مرتبہ بارشوں اور برف باری کے نہ ہونے سے جہاں موسم سخت ہو گیا ہے، وہیں ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے بھی مُشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک موسم سرما میں برف باری کے بعد آنے والے سیاحوں پر ہوتا ہے

مقبوضہ کشمیر کے خوبصورت قصبے گلمرگ میں منظور احمد نے سترہ سالوں میں کبھی برف کے بغیر کوئی موسم نہیں دیکھا لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں، اُن کا ہوٹل سیاحوں کا منتظر ہے

اس خطے میں برف سے ڈھکے رہنے والے پہاڑ اس سال عجیب منظر پیش کر رہے ہیں، برف کی سفید چادر اوڑھنے کی بجائے اس مرتبہ اُنہوں نے بھورے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور بنجر بیابان پڑے ہیں۔

پچاس سالہ احمد کے مطابق ”اس کی مثال نہیں ملتی“ موسم کی اس تبدیلی سے احمد کو کافی نقصان ہوا ہے، وہ بتاتے ہیں ”سیاحوں نے ان کے ہوٹل میں ریزرویشن یا بُکنگ کرنا بند کر دی ہے۔“

ہر سال موسم سرما میں ہزاروں سیاح سکیئنگ اور سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہونے کے لیے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقوں سوات سمیت مری نتھیاگلی کا رُخ کرتے ہیں، لیکن اس سال برفباری نہ ہونے کی وجہ سے سیاحتی صنعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے

حکام کے مطابق گذشتہ جنوری میں تقریباً ایک لاکھ سیاحوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا، لیکن اس سال یہ تعداد آدھے سے بھی کم ہو گئی ہے۔ اور یہی حالات پاکستان کے بھی ہیں کہ جہاں ان دنوں میں آباد نظر آنے والے یہ سیاحتی مقامات پر ہُو کا عالم ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ برف کے بغیر موسم سرما میں ان علاقے کی معیشت پر تباہ کن اثرات پڑے ہیں، کیونکہ جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں سیاحت کا شعبہ تقریبا 7 فی صد ہے۔ اس سے کاشتکاری اور پانی کی فراہمی پر بھی اثر پڑے گا، کیونکہ کم برفباری زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو مناسب طریقے سے نہیں بھرے گی۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اس خطے کو متاثر کر رہی ہے، جس کی وجہ سے موسم سرما اور موسم گرما دونوں میں شدید موسمی حالات و واقعات اور طویل عرصے تک خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جموں و کشمیر کے محکمہ موسمیات نے دسمبر میں 79 فی صد اور جنوری میں 100 فی صد کمی ریکارڈ کی

وادی میں موسم گرم ہے اور کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں اس موسم سرما میں درجہ حرارت میں 6 سے 8 سینٹی گریڈ (43-48 فارن ہائیٹ) کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ سیاحوں نے اپنے ریزرویشن منسوخ کر دیے ہیں جبکہ بہت سے سیاح اس جگہ کا دورہ کرنے کے بعد چلے گئے ہیں کیونکہ وہ سکیئنگ یا سلیگ سواری سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہیں۔

گلمرگ ہوٹلرز کلب کے صدر عاقب چھایا کا کہنا ہے ”40 فی صد سے زیادہ ہوٹلوں کے ریزرویشن منسوخ کر دیے گئے ہیں اور اس وقت نئی بکنگ روک دی گئی ہے“

سیاحوں کی تعداد میں کمی مقامی کاروباری اداروں کو نقصان پہنچا رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر زندہ رہنے کے لیے موسم سرما کے دنوں میں سیاحت پر انحصار کرتے ہیں۔

گلمرگ میں پونی رائیڈرز ایسوسی ایشن کے سربراہ طارق احمد لون، جن کے تقریباً پچاس ممبر ہیں، کہتے ہیں ”ہماری روزی روٹی براہ راست برف پر سے جُڑی ہے۔ برف کے بغیر یہ علاقے ویران ہو جاتے ہیں جو ہمارے کنبوں کے لیے پریشانیوں کا باعث ہوتے ہیں۔“

ماہرین کا کہنا ہے کہ برفباری نہ ہونے سے پن بجلی کی پیداوار، ماہی گیری اور کاشتکاری بھی متاثر ہوگی۔ پڑوسی علاقہ لداخ جو کہ ایک اور مشہور سیاحتی مقام ہے، وہاں کی بھی صورتحال کوئی مختلف نہیں حالات وہاں بھی ایسے ہی ہیں۔

ماہر ماحولیات سونم وانگچک کہتی ہیں ”یہاں کی کھیتی گلیشیئر پر منحصر ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ موسم سرما میں برفباری نہ ہونے کا مطلب ہے کہ موسم بہار کا پانی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔“

لیہہ میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر سونم لوٹس کا کہنا ہے ”یہ ہمالیائی خطے میں خشک ترین موسموں میں سے ایک ہے۔“ کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عرفان رشید کا کہنا ہے ”قحط جیسی صورتحال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔“

اس علاقے میں عام طور پر موسم سرما کے دوران شدید برفباری ہوتی ہے، چالیس دن کا دورانیہ جو 21 دسمبر سے 29 جنوری تک رہتا ہے اس دوران پہاڑ اور گلیشیئر برف سے ڈھک جاتے ہیں اور اس سے سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے اس علاقے میں برفباری میں کمی آ رہی ہے۔

ارضیاتی ماہر شکیل احمد رومشو کہتے ہیں ”1990 کی دہائی سے پہلے، ہم تین فٹ (0.9 میٹر) تک شدید برف باری کا مشاہدہ کرتے تھے اور موسم بہار تک یہ پگھلتی نہیں تھی، لیکن اب ہم سردی میں کمی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔“

وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ وادی کشمیر کو آب و ہوا کی تبدیلی کا ’خمیازہ‘ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ہمارے فی کس گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بہت کم ہے۔ کشمیر کے لوگ بہت معمولی طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم عالمی موسمیاتی تبدیلی کے شکار ہیں۔

احمد رومشو اور ان کی ٹیم کی ایک تحقیق کے مطابق، لداخ سمیت یہ علاقہ اس صدی کے آخر تک ’تباہ کن سطح‘ تک گرم ہو سکتے ہیں، یہاں درجہ حرارت میں 3.98 سے 6.93 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

دریں اثنا، مقامی لوگ اس موسم سرما میں کسی معجزے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

انڈیا میں محکمہ موسمیات نے 24 جنوری سے پہلے کسی قسم کی ہلکی یا زیادہ برفباری کی پیش گوئی نہیں کی ہے، لیکن احمد کا کہنا ہے کہ انکیں اُمید ہے کہ قدرت ان پر مہربان ہوگی۔

اسی طرح پاکستان میں بھی محکمہ موسمیات کے دونوں ماہرین ڈاکٹر غلام رسول اور عرفان ورک کا یہ کہنا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں بارش کا ایک اسپیل آنے کی اُمید ہے، مگر فروری وہ مہینے ہوگا کہ جو ان پہاڑی علاقوں کی رونقیں واپس لانے کا باعث بن سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close