امریکہ: بڑے اسٹارز کے ساتھ ’میجر لیگ کرکٹ‘ کا آغاز آج سے

ویب ڈیسک

امریکہ میں پیشہ وارانہ کرکٹ کے فروغ کے لیے ابھی تک کے سب سے بڑے ایونٹ میجر لیگ کرکٹ کا آغاز آج (جمعرات) سے ہو رہا ہے جس کے افتتاحی سیزن میں پاکستان سمیت دنیائے کرکٹ کے بڑے ستارے چمکتے دکھائی دیں گے

میجر لیگ کرکٹ (ایم ایل سی) نامی اس امریکی لیگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وہ کرکٹرز بھی شامل ہیں جو ماضی میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کرنے کے بعد اب بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی کھیلیں گے

امریکہ میں کرکٹ کی انٹری کی اس سے پہلے کی کوششوں کے برعکس اس بار ممبئی انڈینز اور چنئی سپر کنگز سمیت انڈین پریمیئر لیگ کی چار فرنچائزز کے ساتھ میجر لیگ میں پیسے اور مہارت کی کوئی کمی نہیں۔

فنڈز اور اور ٹیلی ویژن حقوق کے سودوں کے ساتھ ساتھ میجر لیگ کو یو ایس کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی بھی منظوری حاصل ہے۔

آئی پی ایل اور پی ایس ایل کی طرح اس لیگ میں دنیا بھر سے تجربہ کار بین الاقوامی کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے شاداب خان، حارث رؤف اور عماد وسیم سمیت کئی دیگر کھلاڑی لیگ میں حصہ لے رہے ہیں، جبکہ انگلینڈ کے اوپننگ بلے باز جیسن رائے، آسٹریلوی بلے باز ایرون فنچ، جنوبی افریقہ کے تیز گیند باز کاگیسو ربادا، ویسٹ انڈیز کے سپنر سنیل نارائن اور افغانستان سے راشد خان چھ ٹیموں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیں گے

ان ٹیموں کے اسکواڈز میں آپ کو ایسے کئی نام نظر آئیں گے جو پہلے پاکستان کے لیے کھیل چکے ہیں مگر اب امریکہ میں مقیم ہیں اور بطور امریکی ڈومیسٹک کھلاڑی اپنے کیریئرز کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ جیسے احسان عادل، حماد اظہر، سمیع اسلم، مختار احمد وغیرہ

کرکٹ طویل عرصے سے امریکہ میں محض تفریح کے لیے کھیلی جاتی رہی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان 1844 میں نیویارک میں پہلا بین الاقوامی میچ کھیلا گیا تھا تاہم امریکہ میں اس کھیل کے لیے سہولیات کی کمی ہے جہاں بیس بال کو بڑے پیمانے پر پسند کیا جاتا ہے

نارتھ ٹیکسس میں بیس بال کے گرینڈ پریری اسٹیڈیم کو کرکٹ کے لیے میدان میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جو میجر لیگ میں ٹیکساس سپر کنگز اور لاس اینجلس نائٹ رائیڈرز کے درمیان افتتاحی میچ کی میزبانی بھی کرے گا

دیگر مقابلے موریس ول، نارتھ کیرولائنا میں کھیلے جائیں گے جب کہ پلے آف اور فائنل ٹیکسس میں ہوں گے

اگرچہ منتظمین کرکٹ سے محبت کرنے والے پاکستان اور انڈیا سمیت ایشیائی ممالک کے شائقین کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں، تاہم ان کا بنیادی مقصد بتدریج امریکی عوام میں اس کھیل کو مقبول بنانا ہے

ٹورنامنٹ کے ڈائریکٹر جسٹن گیل نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا: ’اس لیگ کا مقصد کرکٹ کو بڑھانا اور امریکہ میں اس کھیل کو فروغ دینا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’ہمارے لیگ میں دنیا کے کچھ بہترین کھلاڑی شامل ہیں جو حقیقت میں اس کھیل کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ یہاں کرکٹ کے اچھے معیار کے مقابلے ہوں گے جو ہمیں موجودہ شائقین اور نئے شائقین کو اس کھیل کو پیش کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔‘

ہر ٹیم میں زیادہ سے زیادہ چھ غیر ملکی کھلاڑی اور کم از کم پانچ ملکی کھلاڑی ہوں گے

کوچز اور کپتانوں کے لیے ابھرتے ہوئے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ تجربہ کار بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیموں کا انتظام کرنا ایک چیلنج ہوگا لیکن ممبئی انڈینز کی ذیلی ٹیم ایم آئی نیویارک کے ہیڈ کوچ رابن پیٹرسن کا کہنا ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہو گا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے تجربے کے مطابق میں نے محسوس کیا کہ مقامی کھلاڑی ان سپر سٹارز کے ساتھ کھیل کر سیکھتے ہیں

آئی پی ایل ٹیموں کی شمولیت کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کی ’کرکٹ وکٹوریہ‘ نے بھی سان فرانسسکو یونی کورنز کے ساتھ شراکت داری کی ہے اور کرکٹ نیو ساؤتھ ویلز واشنگٹن فریڈم کے ساتھ منسلک ہے۔

لیگ نے سٹریمنگ سروس کے لیے Willow TV کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جن کے مالکان اس لیگ میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ انڈیا میں یہ حقوق Viacom18 کو دیے گئے ہیں

پیٹرسن پر امید ہیں کہ ٹی20 کھیل کے طویل فارمیٹس سے کہیں زیادہ امریکی مارکیٹ فروغ پانے کی صلاحیت رکھتا ہے

انہوں نے کہا کہ یہ مزید تفریحی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک دلچسپ پروجیکٹ ہے۔ میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ لوگ امریکہ میں کرکٹ کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں۔‘

تیرہ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سمیع اسلم اب امریکہ میں ٹیکنالوجی کے مرکز سیلیکون ویلی میں رہتے ہوئے اور وہ میجر لیگ کرکٹ میں ٹیکساس سپر کنگز کے لیے کھیلیں گے۔

انھوں نے کرکٹ پاکستان کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ آنے کے لیے ان سے کئی پاکستانی کرکٹرز نے رابطہ کیا ہے جو کہ ’پاکستانی کرکٹ کی ناکامی‘ ہے۔

سمیع اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف پی ایس ایل کھیلنے والے کھلاڑی خود کو مالی طور پر مستحکم سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان کے بہترین کھلاڑی امریکہ آنا چاہتے ہیں‘ اور یہیں کرکٹ کھیل کر مالی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں۔

وہ مثال دیتے ہیں کہ حال ہی میں ’20 سے 30 پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹر نے واشنگٹن میں ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ ایک ہفتے کے ٹورنامنٹ میں بندہ اتنے پسے کما لیتا ہے جتنے فور ڈے کے تین سے چار ماہ کے سیزن میں کماتا ہے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ان کا امریکہ جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دوروں کے لیے پاکستانی سکواڈ میں نام نہ آنے پر انھیں مایوسی ہوئی جس کے بعد انھیں یہ فیصلہ لینا پڑا۔

’میں سمجھ گیا تھا کہ اب انھوں نے مجھے نہیں کھلانا۔ پاکستان میں صرف وہی چل سکتا ہے جس کے پاس (طاقتور حلقوں کی) سپورٹ ہے۔‘

سمیع اسلم کہتے ہیں کہ فی الحال انھوں نے امریکہ کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے مگر وہ اب دوبارہ پاکستان کے لیے کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’افسوس ضرور ہوتا ہے کہ میں پاکستان کے لیے لمبا کھیل سکتا تھا۔‘

’یہ میری پوری زندگی کے لیے بہت بڑا فیصلہ تھا۔ کرکٹ کے لیے ہی تعلیم کی قربانی دی تھی۔ جب امریکہ آیا تو بڑے سوال کھڑے ہوئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں کرکٹ ’پاکستان جیسی تو نہیں‘ مگر وہ اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔

یاد رہے کہ آخری بار امریکہ کی مردوں کی قومی ٹیم نے 2004 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اس کے بعد سے امریکہ کبھی کسی آئی سی سی ٹورٹنامنٹ میں جگہ نہیں بنا سکا۔

مگر اب امریکہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے اور اس میں امریکی ٹیم بھی حصہ لے گی۔

اسی تناظر میں سمیر مہتا اور وجے سرینواسن نے جنوری 2019 میں میجر لیگ کرکٹ کی بنیاد رکھی جو کہ شمالی امریکہ کے سب سے بڑے کرکٹ براڈکاسٹر ویلو ٹی وی کے بھی بانی ہیں۔

کرک انفو کے مطابق اس لیگ کو انڈیا کے ٹائمز گروپ کے علاوہ ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیا نادیلا اور ایڈوبی کے سی ای او شنتانو ناریان کی سرمایہ کاری حاصل ہے۔

میجر لیگ کرکٹ کی چھ میں سے چار ٹیموں کی مالک آئی پی ایل کی فرنچائزز ہیں۔ اس میں شاداب خان، حارث رؤف اور عماد وسیم جیسے پاکستانی کرکٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔

ایم ایل سی کا مقصد ’امریکی کرکٹ ٹیم کو مضبوط بنانا‘
امریکہ آئی سی سی کا ایسوسی ایٹ ممبر ہے اور اسے فُل ممبرز کے مقابلے سالانہ بجٹ میں تھوڑا سا حصہ ملتا ہے۔

ایم ایل سی کے شریک بانی سرینواسن نے بی بی سی سپورٹ کو بتایا کہ ’امریکہ میں کھیلوں کے فینز دنیا کے بہترین کھلاڑی دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں پیشہ ورانہ کھیلوں میں یہی مطالبہ کیا جاتا ہے۔

’وہ کوئی دوسرے درجے کا ٹیلنٹ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ بہترین لوگ چاہتے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ ایم ایل سی کی جانب سے سرمایہ کاری سے ملک میں کرکٹ کو فروغ ملے گا اور اس سے امریکہ کی قومی ٹیم کو بھرپور فائدہ ہوگا۔

اس کے میچ دو گراؤنڈز میں ہوں گے: ٹیکساس اور شمالی کیرولائنا۔ لیگ میں چھ ٹیمیں یا فرنچائز ہیں جن کے مالکوں نے امریکہ میں نئے سٹیڈیم تعمیر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس ٹورنامنٹ کے ذریعے امریکہ کے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو بھی اعلیٰ سطح پر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔

سری نواسن نے کہا ہے کہ ’ہم نے ایک چیز کی نشاندہی کی ہے کہ امریکہ میں کرکٹ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک امریکہ کی اپنی مضبوط کرکٹ ٹیم نہیں بنتی۔‘

’یہ صرف اس حد تک نہیں کہ ہم ہر 12 ماہ بعد لیگ کروائیں۔۔۔ ہم اس لیے سٹیڈیم نہیں بنا رہے کہ ہر سال ایک بار ایم ایل سی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کی مردوں، خواتین اور انڈر 19 ٹیمیں ان جگہوں پر کھیلیں جہاں دنیا کے بہترین لوگ ان کا مقابلہ کر رہے ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب 2024 کے دوران امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو رہا ہوگا تو یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امریکہ باقی دنیا کو کڑا مقابلہ دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close