پیار کا پہاڑ (نِیْہُں جَبل)

غلام مصطفٰی سولنگی

سندھ میں کھیرتھر پہاڑ اور کارونجھر پہاڑ کی خوبصورتی تو ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے، اپنے محلِ وقوع اور تاریخی لحاظ سے ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ لیکن ایک ایسا بھی چھوٹا پہاڑ ہے، جو حیرت کدہ سے ہرگز کم نہیں۔ قدرت کے اس عظیم شاہکار اور تاریخی پہاڑ کو ’’پیار کا پہاڑ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سندھی زبان میں اسے ’’نینہں جبل‘‘ بولا جاتا ہے۔

پیار کا پہاڑ قدیم سندھ کے دارالخلافہ ’’اروڑ‘‘ سے تقریباً تین کلو میٹر کے فاصلے پر لنک روڈ پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو خیرپور میرس کے تاریخی شہرکوٹ ڈیجی سے ہوتا ہوا نارو کے صحراؤں تک جا پہنچتا ہے۔ لیکن یہ چھوٹا سا پہاڑ اپنی منفرد حیثیت اور خوبصورتی کی بناء پر بہت نمایاں اور بے حد ممتاز ہے۔ ’پیار کا پہاڑ‘ (نینہں جبل) زمین کی سطح سے تین سو فٹ اونچا ہے، اس کی بنیادیں دو ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس پہاڑ کے آمنے سامنے دو دراڑیں ہیں، جنہوں نے اس پہاڑ کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان میں سے تین حصےصحیح حالت میں موجود ہیں، جبکہ چوتھا حصہ کافی حد تک منہدم ہوچکا ہے۔

اس کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کےاطراف چار محرابی دروازے بھی ہیں

ایک مقامی روایت کے مطابق اس پہاڑ کو ’’پیار کا پہاڑ‘‘ (نِیْہُں جبل) اس لئے کہا جاتا ہے کہ عاشق مزاج لوگ اپنے پیار کی پرکھ اور محبت کو نبھانے کے وعدے اس پہاڑ کی چوٹی پر جا کر کرتے ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر وہ اس مشکل پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے ہیں تو پھر محبوب کا حصول بھی ناممکن ہرگز نہیں، نہ صرف یہ بلکہ کچھ عاشق تو اپنے محبوب کو یہ دھمکی بھی دیتے ہیں، کہ اگر وہ نہ ملے تو پھر وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر خود کشی کرلیں گے۔ چند سال سے اس پہاڑ سے خودکشی کی کوئی خبر رپورٹ نہیں ہوئی ہے، لیکن پرانے دور کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ان کے زمانے میں جذباتی اور جنونی عاشق یہاں اپنی زندگی کاخاتمہ کر دیتے تھے۔ آج بھی عاشقان اس پہاڑ کو دیکھ کر گنگناتے ہیں۔

دیکھیں، چلتا ہے کون ساتھیو

ہم کو پیار کے پہاڑ نے پکارا ہے

یا پھر کچھ دل جلے آہیں بھربھر کر گاتے ہیں

کہہ رہا ہے پیار کا پہاڑ

دیکھنا اب قدم نہ پیچھے ہٹے

بہرحال، کچھ بھی ہو یہ پہاڑ پیار کی علامت تصور کیا جاتا ہے اور عاشقوں کےلئے ایک امتحان گاہ اور قربان گاہ بھی۔

پہاڑ کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کے چاروں طرف چار محرابی دروازے بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 712ء میں اروڑ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی یادگار کے طور پر سفید رنگ کا یہ گنبد تعمیر کروایا تھا، جو کچی اینٹوں اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہواؤں اور بارشوں کے باعث یہ یادگار تقریباً زبوں حالی کا شکار ہوگئی تھی۔ لیکن مقامی لوگ فاتح سندھ کی اس یادگار کو قائم رکھنے کے سلسلے میں اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے۔

قریباً بیس سال قبل خمیسو فقیر نامی ایک مقامی مرد نے اس یادگار کی مرمت کروائی۔ عمارت میں سیمنٹ اور پتھروں کا استعمال کیا گیا، لہٰذا اب یہ قدرتی آفات اور حوادث سے محفوظ ہو گئی ہے۔ لوگ 10رمضان المبارک (سندھ کی فتح کا دن) کو اس عمارت میں نہ صرف روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ اس دن کو بڑے شایانِ شان طریقے سے وہاں پر مناتے بھی ہیں۔

جس طرح سکھر شہر میں میر معصوم بکھری کا تعمیر کروایا گیا مینارہ معصوم شاہ، سیاحوں اور زائرین کے لئے مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے، اسی طرح ’’پیار کا پہاڑ‘‘ بھی ایک قدرتی مینار ہے۔ اس کی چوٹی پر چڑھ کر سکھر، روہڑی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تاریخی مقامات اور قرب و جوار کے گاؤں دیہات کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ پیار کے پہاڑ (نِیہں جبل) کو دیکھنا اپنی جگہ، لیکن اس کی چوٹی پر پہنچنے کا بھی ایک لطف ہے، پہلے تو اس کی چوٹی پر پہنچنا ہی ممکن نہ تھا۔ لیکن مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سادہ قسم کی سیڑھی بنائی ہے، جس کی مدد سے اب اس کی چوٹی پر پہنچنے میں کچھ آسانی ہو گئی ہے۔

اس پہاڑ کے دامن میں جو بھی آتا ہے، اسے یہ پہاڑ اپنی چوٹی پر چڑھنے کی دعوت ضرور دیتا ہے، چاہے کسی بھی عمر کا ہو۔ اس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار پیار کے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جائے اور پھر جو اس چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب تصور کرتا ہے۔

’’پیار کے پہاڑ‘‘ کے دامن سے ایک خوبصورت ندی بھی گزرتی ہے، اس کا نام ’’کونرڑے جی ندی‘‘ ہے۔ بارش کے موسم میں یہ پانی سے لبالب بھر جاتی ہے اور پھر اس کا حسن بے مثال بن جاتا ہے۔

تاریخی حوالے سے اس پہاڑ کی زبردست اہمیت ہے۔ کچھ روایات میں آتا ہے کہ محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان جو آخری معرکہ ہوا تھا، وہ اس پہاڑ کے دامن میں ہوا تھا۔ شکست کے بعد راجا داہر نے اس پہاڑ پر جا کر پناہ لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے ہوئے اللہ کے ایک ولی سید نور شاہ نے اپنی کرامت سے اس پہاڑ کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس طرح راجا داہر وہاں سے ملے تھے۔ پہاڑ کے چاروں طرف علماء، بزرگانِ دین اور ان سپہ سالاروں کے مزارات ہیں جو، محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے اور بعد میں یہاں پر ہی قیام پذیر ہو گئے تھے۔ سید چھتن شاہ، سید نورشاہ اور شاہ شکر گنج کا تذکرہ سندھ کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں ملتا ہے۔

سید چھتن شاہ فتحِ سندھ کے بعد اروڑ کے ہو کر رہ گئے تھے۔ آپ بڑے فقیہ اور متقی انسان تھے۔ دینِ اسلام کی بھر پور تبلیغ کی اور ہزاروں لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہوئے۔ سید نور شاہ کا مزار پیار کے پہاڑ کے مغرب میں واقع ہے۔ انہوں ہی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پیار کا پہاڑ چار حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ شاہ شکرگنج بھی اپنے دور کے نامور دینی عالم تھے۔ ان کا مزار پیار کے پہاڑ سے تھوڑ ے سے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔ پہاڑ کے شمال مشرق میں درگاہ عارف فقیر بھٹی بھی ہے۔ عارف فقیر بھٹی اروڑ کے بہت بڑے صوفی بزرگ اور دینی عالم تھے۔ انہوں نے تین سو سال قبل ایک دینی مدرسہ قائم کیا تھا۔ وفات کے بعد ان کو مدرسے کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا۔ آج بھی یہ مدرسہ قائم ہے اور دینی و دینوی علوم حاصل کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے سینکڑوں طالبِ علم یہاں مقیم ہیں۔

درگاہ عارف فقیر بھٹی کے بالکل سامنے چند قدموں کے فاصلے پر برصغیر میں مشہور سندھ کا قدیم مندر بنام ’’مائی کالکاں دیوی کا مندر‘‘ واقع ہے۔ یہ مندر ایک غار میں ہے اور کسی عجوبے سے ہر گز کم نہیں، ہندوؤں کا یہ مندر دو ہزار سال قدیم ہے۔ عارف فقیر بھٹی کا مدرسہ اور کالکاں دیوی کا مندر مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی ایک لازوال مثال ہیں۔

’’شاہ اوٹھے پیر‘‘ کا مزار بھی پیار کے پہاڑ کے مشرق میں موجود ہے۔ آپ اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اور جیدّ عالم تھے۔ آپ کے مزار کے عقب میں تھوڑی سی اونچائی پر نامور درویش محمد قاسمانی کا مزار بھی واقع ہے۔ پیار کے پہاڑ کے دامن میں سندھ کے کئی قدیم سندھی قبائل آباد ہیں، جن میں خاص طور پر سروہی، بُرڑا، کٹبر، ماڑیچا، بھیل، ہندو، میرانی اور شیخ اکثریت میں ہیں۔

تفریحی لحاظ سے پیار کے پہاڑ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ بہت سے سیاح دُور دُور سے آکر اس پہاڑ کے حسین و جمیل اور عجیب نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چھٹیوں کے دنوں اور تہواروں پر خصوصاً روہڑی، سکھر، خیرپور میرس اور گھوٹکی اضلاع کے اتنے سارے لوگ پہاڑ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں کہ حیرت کا ایک جہاں آباد ہو جاتا ہے اور پھر کہنا پڑتا ہے کہ ’’واقعی! یہ پہاڑ ’پیار کا پہاڑ‘ ہی تو ہے جو ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف پیار سے کھینچ لاتا ہے۔۔“

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close