سول سوسائٹی اور ماحولیاتی کارکنوں کی جانب سے 16 جولائی کو کراچی میں ایک مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد عوام کو ماحولیاتی خطرات سے آگاہ کرنا، بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی، ملیر ایکسپریس وے سے ماحولیاتی تباہی اور اس ضمن میں حکومتی اداروں کی نااہلی اور بے حسی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے
اس بات کا اعلان آج ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ اس موقع پر رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے رہائشی کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی ماحولیاتی تباہی پر اپنی آواز اٹھائیں۔ دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کے علاوہ کراچی گندے ترین شہروں میں سے بھی ایک ہوگیا ہے، جہاں زندگی تک محفوظ نہیں، کیونکہ ہمارے بلدیاتی ادارے صاف پانی فراہم نہیں کر سکتے، ہوا کے معیار کو بہتر نہیں رکھ سکتے اور سیلاب، شدید بارش، شہری سیلاب یا گرمی سمیت ہمیں کسی بھی موسمیاتی آفت سے بچانے سے قاصر ہیں یہ سب باتیں لوگوں کی تکلیفوں میں اضافہ کرتی ہیں اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم کس قسم کی دنیا اپنے بچوں کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں؟“
ان کا کہنا تھا ”بلدیاتی ناکامیوں کے نتائج کے علاوہ وقت سے پہلے اموات، خراب صحت اور موسمیات آفات ایسی خرابیاں ہیں، جو عوام کو ماحول دوستی سے عاری حکومتی ترقیاتی منصوبوں کے باعث بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ تعمیرات جن کی بنیاد قدرتی وسائل کے اندھے لالچ پر ہوتی ہے, بے لگام ’ترقی‘ کے مترادف ہو گئی ہیں اور یہ ہمارے ماحول، ماحولی اثاثوں، گروہوں اور لوگوں کے لیے نقصان دہ ہیں“
پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا ”بحریہ ٹاؤن کراچی 45 دیہاتوں پر بنایا گیا تھا جو غیر قانونی طور پر زبردستی ہٹائے گئے تھے، جبکہ کھیرتھر نیشنل پارک کے اندر پہاڑوں کی تباہی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ جبکہ ڈی ایچ اے کو ڈی ایچ اے سٹی سے ملانے والا ملیر ایکسپریس وے لوگوں، خواتین و بچوں کو روڈ پر لے آیا ہے۔ اس منصوبے نے چھوٹے کسانوں کو دربدر اور ثقافتی مراکز جیسے سید ہاشمی لائبریری کو سخت متاثر کیا ہے۔ اس نے گھروں، زرعی زمینوں، قبرستانوں اور ملیر ندی کو تباہ کر دیا ہے“
انہوں نے کہا کہ کراچی کا سیوریج لیاری اور ملیر ندیوں میں جاتا ہے، جن میں 80 کی دہائی تک صاف پانی موجود تھا، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سربراہ کے مطابق ان کے پاس ان دونوں ندیوں کی صفائی کا کوئی انتظام موجود نہیں اور ان ندیوں کا پانی استعمال کے لیے محفوظ نہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ ہم 2023 میں سیوریج کے دریا میں ڈوب رہے ہیں، اور لوگ ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور ڈائریا جیسے امراض کا شکار ہو رہے ہیں“
انہوں نے کہا ”کراچی کی غذائی سپلائی لائن مانا جانے والا ملیر کا زرعی علاقہ شہر کی غذائی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو گیا ہے۔ شاہ لطیف کی ملیر وادی کو سندھ کے اپنے بیٹوں، ڈی ایچ اے سٹی، فوجی آبادکاری اور چھاؤنیوں نے تباہ کر دیا ہے“
ان کا کہنا تھا ”بحریہ ٹاؤن کراچی، عوام اور ماحولیات دشمن منصوبہ ہے اور ملک بھر کے ماحول کو تباہ کرنے والا ملک ریاض ریئل اسٹیٹ سے منافع کھود نکالنے کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہے“
انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کے کچرے اور سیوریج کی صفائی کے ناقص منصوبے کے نام پر شہری حکومت اور ایف ڈبلیو او نے گجر (گُجھڑو) اور اورنگی نالوں کے ساتھ آباد سات ہزار خاندانوں کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقے کے لوگوں کے مفادات پر حملوں کے ایک طویل عمل کا تسلسل ہے، جس سے گجر نالہ جیسے نالوں کے کنارے رہنے والے غریب ترین طبقہ بے گھر ہو گیا ہے، اور ریاست اس تباہ کن عمل کو ترقی کہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو ان کی بحال کے لیے حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے، انہیں اموات پر معاوضہ، محفوظ پناہ گاہیں، صحت کی دیکھ بھال، متبادل ذریعہ معاش فراہم کیا جائے۔ ان کے رہن سہن میں آب و ہوا کے مطابق لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ استحصال زده اور پسمانده طبقے کا معیار زندگی بہتر ہو
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زمین کے اندر سے جو وسائل آتے ہیں، ان کے ماحولیاتی اور انسانی اثرات بھی ہوتے ہیں اور پاکستان میں اس کا اثر غیر ضروری طور پر ماحول و انسان مخالف ہے۔ اس میں زراعت، کان کنی، ماہی گیری، گیس اور دیگر قدرتی وسائل شامل ہیں۔ اگر سیپیک کو جاری رکھنا ہے تو اسے انسانوں کی بہتری کو مقدم رکھتے ہوئے ماحول کے تحفظ پر مرکوز ہونا چاہیے
انہوں نے کہا کہ ہمیں فوسل ایندھن سے چھٹکارے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کوئلہ اور دیگر فوسل فیول کو قصہ پارینہ بنانا ہوگا۔ مزید کوئلے کی تو اب بالکل گنجائش نہیں۔ ہمیں شمسی توانائی اور صرف قابل تجدید ذرائع کو اپنانا ہوگا“
انہوں نے کلائمیٹ مارچ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ہم اس لیے احتجاج کر رہے ہیں، کیونکہ ہم ایسے نظام کو نہیں مانتے جو ماحول کے تحفظ اور لوگوں کے فائدے کی بجائے سرمایہ داروں کے منافع کو ترجیح دے۔ ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ماحول و مزدور دوست توانائی کی جانب منتقلی، منصفانہ توانائی، صاف ہوا، پانی، دریا اور جینے کا محفوظ ماحول میسر ہو“
رہنماؤں نے طالب علموں، وکلا، انجینئرز، ڈاکٹرز، کسان، پیشہ ور مزدور، ماہرین تعلیم، دیگر ماہرین عام شہریوں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ماحول کے تحفظ کے لیے ”کلائمیٹ مارچ“ میں شرکت کریں، جو سولہ جولائی بروز اتوار تین بجے سے سات بجے تک فریئر ہال سے کے پی سی تک منعقد ہوگا۔