حصارِ تنہائی (موزمبیق کے ادب سے منتخب افسانہ)

میا کُو تُو (ترجمہ: محمد فیصل)

ڈونا برتا گارڈن میں ایک بنچ ہے، یا پھر یوں کہنا چاہیے کہ ایک ہی بنچ باقی رہ گیا ہے۔ بقیہ تمام کو وہاں سے اکھاڑ لیا گیا ہے۔ ان کے تختے جلانے کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں۔ اس آخری بنچ پر ایک بوڑھا رہتا ہے۔ ہر رات وہ بوڑھا اور بنچ اس طرح سوتے ہیں، گویا گوشت اور لکڑی کا انضمام ہو جاتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بوڑھے کے جسم پر تختوں کے نشان پڑ چکے ہیں۔ سب اس بوڑھے کو ولادی میرو بلاتے ہیں۔ یہ نام اسے اس جگہ کی مناسبت سے دیا گیا ہے، جس پر یہ باغ واقع ہے۔ ولادی میر لینن ایونیو، جہاں وہ بوڑھا اپنی ابدی تنہائی میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

آج مجھے کسی نے بتایا کہ یہ آخری بنچ بھی وہاں سے ہٹایا جارہا ہے تاکہ وہاں کسی بینک کی ایک شاخ تعمیر جا سکی۔ مجھے ایک دھچکا لگا۔ یہ چھوٹا ساباغ اور بنچ میرے دوست کی واحد پناہ گاہ تھی اور اب وہ بھی اس سے چھینی جا رہی ہے۔ میں نے اس کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ آج کا سب سے اہم مقصد۔

”اداس!؟ جی نہیں..! کس نے کہا میں اداس ہوں۔!؟“

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ بوڑھا تو اس خبر پر خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک عمدہ عمارت جو بے حد مضبوط اور پائدار ہوگی، یقیناََ ایک بنچ سے زیادہ آرام دہ ہوگی۔ اسے پہلے سے ہی علم تھا کہ عمارت کتنی بڑی ہوگی، اس میں کتنے کمرے ہوں گے اور وہ اپنے پالتو جانور کے ساتھ وہاں آرام سے رہ پائے گا۔ کون جانے اسے بینک میں ملازمت مل جائے، کسے خبر کہ اسے مالی کی نوکری مل جائے۔ سو وہ بوڑھا شاخوں سے بھرے باغ سے باغوں سے بھری شاخ میں منتقل ہو رہا تھا۔

”میں بینچ سے بینک میں منتقل ہو رہا ہوں۔۔۔“ ایک اداس سی ہنسی اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی

جلد ہی اندھیرا پھیل گیا۔ رات پڑتے ہی ولادی میرو بوتل سے شغل کرتا تھا اور بوتل ختم ہوتے ہی باغ کے دوسرے کنارے کا رُخ کرتا، جہاں عورتیں گاہکوں کے انتظار میں کھڑی ہوتیں۔ فاحشہ عورتیں، جنہیں وہ ہمیشہ فاشحہ عورتیں پکارتا۔ وہ ان سب کے نام جانتا تھا۔ اگر ان عورتوں کو گاہک نہ ملتے تو وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ جاتیں۔ ولادی میرو انہیں شیخی بھری کہانیاں سناتا جو سن کر وہ اس کا مذاق اڑاتیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ کوئی گاہک انہیں مارتا تو وہ مدد کے لیے پکارتیں۔ ایسے موقعوں پر وہ بنچ کے نیچے چھپ جاتا اور بے بسی سے کراہیں سنتا اور خدا کو پکارتا۔۔

خدا بہت مہربان ہے۔ وہ کسی کو سزا نہیں دیتا۔

ولادی میرو خدا سے باتیں کیا کرتا تھا۔ خدا سے اس کی باتیں مجھے حیران کر دیا کرتیں۔وہ ایک لمبا عرصہ یسوع کی بھیڑ بن کر رہا مگر عمر بڑھنے کے ساتھ تھوڑا آزاد رو ہو گیا۔ بقول ولادی میروجوں، جوں آپ کی عمر بڑھتی ہے، آپ خداوند کی کئی رعایتوں کے حق دار قرار پاتے ہیں۔۔ اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے خوف پر قابو پا چکے ہوتے ہیں۔ کیا اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم جتنا زیادہ جانتے ہیں اتنا کم یقین رکھتے ہیں۔ مگر ولادی میرو کا معاملہ مختلف تھا، نہ وہ زیادہ جانتا تھا، نہ وہ یقین رکھتا تھا۔ کبھی کبھار تو وہ یہ بھی کہہ دیتا ”کیا خدا اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتا؟“

کیا اس کی وجہ اس کی بےخوفی ہے؟ اس کے پاس کھونے کے لیے ہے ہی کیا؟ بالکل اکیلا، نہ گھر، نہ بیوی، نہ اولاد۔۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے پلٹ کر جواب دیا ”ایک گھر، اس جگہ سے بہتر کوئی گھر کیا ہوگا؟“

اس کی طبیعت اکثر خراب رہتی اور ہمیں ایسا لگتا کہ موت اس کے تعاقب میں ہے مگر وہ ہماری تشویش کو ہنسی میں اُڑا دیتا۔ میں جب بھی اس کی خیریت دریافت کرنے جاتا تو زنانہ آواز میں گانے لگتا۔ میں اسے کہتا کہ تمہیں سخت بخار ہے مگر وہ کہتا کہ عورتیں دیر سے مرتی ہیں، اسی لیے میں موت کو چکمہ دینے کے لیے عورت کی آواز میں گا رہا ہوں۔ موت گانا سننا پسند کرتی ہے۔

وہ گاتا اور جھومنے لگتا۔۔ اور زندگی اسی طرح آنکھ مچولی کرتے گزرتی رہی مگر ولادی میرو اپنی جگہ قائم رہا، زندہ رہا۔ وہ اکثر کہتا کہ ابھی میرے جانے کی عمر نہیں۔ تاہم اتنے عرصے میں ایک تبدیلی آئی۔ اس کی نیند بہت کم ہو گئی۔

انہی دنوں اس نے ایک نئی حرکت شروع کر دی۔ وہ ہر روز ایک مینڈک پکڑتا اور اسے ایک ڈوری سے بینچ کے ساتھ باندھ دیتا۔ صبح ہوتے ہی وہ مینڈک ٹرانا شروع کر دیتا اور اس کی آنکھ کھُل جاتی۔ وہ مینڈک اس کا الارم تھا۔ اور اب جب شہر کا یہ حصہ بھی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہونے لگا ہے تو میں نے سوچا کہ اس سے مل لوں۔

”کیا واقعی تم یہاں بینک بننے سے خوش ہو؟“

اس نے کافی دیر سوچنے کے بعد کہا، ”تم صحیح سمجھے۔میری یہ خوشی مصنوعی ہے۔“

”پھر تم اتنے خوش ہونے کی اداکاری کیوں کر رہے ہو؟“

”کیا میں نے تمہیں اپنی مرحوم بیوی کے بارے میں نہیں بتایا؟“

میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔

اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ اس کی بیوی طویل عرصہ موت سے جنگ کرتی رہی۔ اس کی موذی بیماری اسے گھن کی طرح کھائے چلی جا رہی تھی۔ وہ سارا دن اپنی بیوی کو ہنسانے کی کوشش کرتا۔ کبھی چٹکلے سناتا تو کبھی کرتب۔۔ اس کی بیوی ہنس پڑتی۔ اس کے لطیفوں پر ہنستی یا اس کا دل رکھنے کے لیے، کسے خبر تھی؟ جب وہ سو جاتی تو ولادی میرو ساری ساری رات روتا۔

”آج کل مجھے ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ جب یہ باغ سو جاتا ہے تو میں خوب روتا ہوں۔۔“

میں نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔ میں کافی دیر وہاں بیٹھا اس کا دل بہلاتا رہا۔ مگر کب تک؟ آخر میں بڑے بوجھل دل سے رخصت ہوا۔

وہاں ایک باغ تھا، اس میں نصب آخری بینچ، بد نصیب ولادی میرو اور اس کی ابدی تنہائی۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close