سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط35)

شہزاد احمد حمید

سندھو کچھ خاموشی کے بعد داستان آگے بڑھانے لگا ہے، ”ہم پٹن سے تقریباً اڑتیس (38) کلو میٹر دور ’بشام‘ پہنچے ہیں۔ شانگلہ کا ضلعی ہیڈ کوراٹر ایک اہم تعلیمی و تجارتی مرکز ہے۔ آج کے سوات اور رگ وید کا ’اودیانہ‘۔ مقدونیہ کا سکندر بھی یہاں فوج سمیت اترا تھا۔ چینی سیاحوں ’ہیون سنگ‘ اور ’فاہیان‘ نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ بشام بدھ مت کا اہم مرکز تھا۔ بقول خوشحال خاں خٹک، ’یہ وادی بادشاہوں کے دلوں کو خوشبو سے بھر دیتی ہے۔‘ ماضی کا اودیانہ اور آج کا بشام اچھا خاصا بڑا، مصروف اور بارونق شہر ہے۔ غیرملکی اور اسمگل شدہ اشیاء کا مرکز۔ آپ یہاں صابن سے لے کر بجلی کا سامان، پستول سے لے کر کلاشنکوف تک، ’امریکی کولا‘ سے لے کر ’پشاوری کولا‘ تک سبھی کچھ خرید سکتے ہیں لیکن ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں خریدنا ہے۔ ویسے اب تو چینی مصنوعات یہاں باآسانی رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔ بشام سے ایک راستہ نوری ٹاپ کے ذریعہ سوات کی دلکش وادی کو جاتا ہے۔“

سندھو نے نوری ٹاپ کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ سو کلو میٹر(100) لمبا یہ راستہ شاندار قدرتی مناظر سے بھرپور ہے۔ کئی سال پہلے میں اپنے دوستوں (باس، مشتاق اور لالہ اعجاز مرحوم)کے ساتھ سوات سے نوری ٹاپ والے راستے سے بشام اتر کر خنجراب گیا تھا۔شاہراہ ریشم اس بازار سے گزرتی ہے جبکہ سندھو بشام کے پہلو سے بہتا ہے

داسو سے بشام تک کا سفر شاہراہ ریشم کا سر سبز ترین خطہ ہے، جہاں قدرتی ہریالی پہاڑوں کی اونچائی تک چلی گئی ہے جبکہ اس کے مقابلے سندھو کی کھرمنگ سے چلاس تک کی گزرگاہ میں نظر آنے والی ہریالی زیادہ تر حضرت انسان کی محنت کا پھل ہے۔ قدرت نے پانی مہیا کیا اور انسان نے اللہ کی اس نعمت سے ان چٹیل پہاڑوں میں سبزہ اگا کر ویرانے میں منگل کر دیا ہے۔ یہاں کے لہلہاتے کھیت، پھلوں سے لدے درخت، پھولوں کی خوشبو سب انسانی محنت اور قدرت کی وہ نشانیاں ہیں، جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا کہ ’محنت کر اور صلہ اللہ پر چھوڑ دے۔‘
’بے شک اللہ محنت اور صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘ (القرآن)

سندھو کے منہ زور، پرشور گدلے پانی پر ایک اور سرمئی شام اترنے لگی ہے۔ پرندے نیچی پرواز کرتے گھروں کو اڑان بھرے ہیں۔ سندھوکے اُس پار آسمان کو سہارے دیتے بلند پہاڑوں پر اکا دکا روشنی نظر آنے لگی ہے۔ سندھو کا پانی جو سورج کی دھوپ میں خود پر نظر نہیں جمنے دیتا ہے، اب شام کے دھندلکوں میں چھپنے لگا ہے۔ اس کی گونج اس کے وجود کا احساس ہے اور شام کی خوش گوار ہوا اس کے پانیوں کو چھو کر مزید راحت بخش ہو گئی ہے۔ گرمی کے موسم میں یہ ہوا دن بھر کے تھکے جسموں کو راحت و سکون دیتی ہے۔

ہم چائے پینے شاہراہ ریشم سے تقریباً 2 کلو میٹر دور سندھو کے کنارے ٹی ڈی سی پی کے موٹل پہنچے ہیں۔ نین نے بھی اپنے نینوں سے کالا چشمہ اتار کر بشام کی اس شام کو اور سہانا کر دیا ہے۔مشتاق نے چائے اور چائے کے لوازمات کا آرڈر دیا ہے کہ یہ اسی کی ڈیوٹی ہے۔

میرا رفیق، میرا ہمدم، میرا عظیم داستان گو پھر سے کہانی سنانے لگا، ”میں اسی راستے پر پیر سر کو رواں ہوں، جہاں کبھی پتھر اور سنگلاخ چٹانیں تھیں، دشوار گزار راستے تھے، ویرانی تھی، گھنا جنگل تھا۔ آج بھی کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ راستے ویران ہیں اور خطرناک بھی، البتہ جنگل ماضی جیسا گھنا نہیں رہا راستے کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ سکندر کے قدموں کے نشان بھی ملتے ہیں کچھ نہیں بدلہ تو وہ ہے خواتین کی قسمت اور ان کی گھریلو ذمہ داریاں۔وہ کل بھی کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مرد سے کل بھی پٹتی (مار کھاتی) تھیں، آج بھی ایسا ہی ہے۔کل بھی ان کی سوکنیں تھیں آج بھی ہیں۔ ہاں ایک بات کل اور آج کی مشترک ہے کہ ان پر خطر اور دشوار گزار خطے میں کوئی سکندر جیسا سر پھرا ہی ادھر کا رخ کرتا ہے۔ تم بھی سر پھرے ہو۔ اُسے دنیا فتح کرنے کا جنون تھا تو تمھیں میری کہانی لکھنے کا۔۔

”اس مقام پر آٹھ نو ہزار فٹ اونچے پہاڑ میرے گرد گھیرا بنائے عمودی کھڑے ہیں۔ ان ویران سر سبز پہاڑوں میں گرمی اور بہار کے موسموں میں زندگی مسکراتی ہے، جب چرواہے اپنے ریوڑ سمیت چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ میرا جل ترنگ، چرواہے کی بانسری مل کر ایسا راگ الاپتے ہیں کہ کوئی سن لے تو جھوم جائے اور انہی وادیوں کا ہی ہو جائے۔۔

”ان پہاڑوں کا بیل سکندر کو اتنا پسند آیا تھا کہ آریان کے مطابق اس نے بڑی تعداد میں یہ بیل یونان بھجوانے کا حکم دیا تھا۔ اس راستے پر سکندری سپاہ کی نشانیاں اور اشوک اعظم کے چٹانوں پر کندہ فرمان اُن ادوار کی یاد اکیسویں صدی میں بھی دلاتے ہیں۔ انسان ماضی کا قیدی ہے جبکہ رہنا مستقبل میں چاہتا ہے۔ دوست یادیں رہ جاتی ہیں وقت نہیں لوٹتا۔راستے آج بھی تنگ، دشوار، پتھریلے اور سنسان ہیں۔“

سندھو بولے چلا جا رہا ہے اور میں لکھتا، ”یہ پیر سر ہے۔ اس سے ذرا آگے ’او ہند‘ ہے۔ اوہند کبھی گندھارا تہذیب کا پایہ تخت اور اہم مقام تھا۔ سکندر اعظم نے 312 قبل مسیح میں اپنے لشکر کے ہمراہ مجھے اُسی مقام سے عبور کیا تھا البتہ چنگیز خاں نے میری طغیانی اور میر اانتہائی پھیلا ہوا پاٹ دیکھا تو ڈر کر واپس مڑ گیا تھا۔ سکندر باجوڑ، افغانستان سے ہوتا موجودہ بونیر اور گدون کے اضلاع سے گزر کر یہاں پہنچا تھا۔ یہی وہ سر زمین ہے، جہاں چندر گپت موریا نے موریا سلطنت کی بنیاد رکھی اور اس کے پوتے اشوک اعظم نے اس سلطنت کو عروج پر پہنچا دیا۔ اشوک نے بدھ مت اختیار کر کے بدھ مت کو ایسا دوام بخشا جو بعد میں اسے کبھی بھی نصیب نہ ہو سکا۔ راجہ جے پال کو بھی یہیں شکست ہوئی۔ مورخ اس مقام کو ہندوستان کا دروازہ کہتے تھے۔ نام اگر اس کا ’اوہند‘ تھا تو عجب نہیں کہ خود ہندوستان کا نام بھی اسی قصبہ سے نکلا ہو۔ لیکن تمھیں جان کر خوشی ہوگی کہ بہت سے تاریخ دان ہندوستان کے نام کا ماخذ بھی مجھے ہی سمجھتے ہیں۔ تاریخ کا یہ اہم مقام ماضی کے گزرے وقت کی دھندلی چادر اوڑھے آج کاایک گمنام قصبہ ہے۔۔

”تمھیں ایک اور بات بتاؤں کہ سنسکرت، سکندر اور یونانی زبانوں کے حوالے سے ہے۔ کہتے ہیں سنسکرت اور یونانی زبانیں مماثلت رکھتی ہیں۔ یہ بھی اپنے پڑھنے والوں کو بتاؤ۔۔

”ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کی حکومت کے قیام کے بعد اس کمپنی کے اہل کاروں نے سنسکرت زبان جاننی اور سیکھنی شروع کی۔ ’ولیم جونز‘ 1786ء میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ سنسکرت لاطینی اور یونانی زبان کے قریب تر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ان تینوں زبانوں کا جنم ایک ہی زمانے میں ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندوستانی اور یورپی آپس میں کزن ہیں۔ یورپی ابھی تک ڈروان کی تھیوری کے چیلنج سے باہر نہیں نکلے تھے۔ جونز کا خیال تھا کہ یورپی اور ہندوستانی حضرت نوحؑ کی اولاد سے ہیں اور عبرانی سنسکرت سے زیادہ پرانی زبان ہے۔ جرمن ماہر لسانیات ’میکس ملر‘ 1883ء میں اسی خیال کو آگے بڑھایا؛ ’ایتھنز، روم اور ہندوستان کی زبانوں میں مماثلت ہے‘ اسکاٹش فلاسفر ڈگلس سٹیورڈ نے1826ء میں اپنے ایک مضمون میں اس بات کو تفصیل سے بیان کیا کہ ’ہندوستانی اور یونانی زبانوں میں یکسوئی ہے۔‘ اس کے خیال میں ہندوستانیوں نے سنسکرت سکندر اعظم سے سیکھی تھی۔ ہندوؤں کی مقدس کتب کی سنسکرت دراصل یونانی زبان کی ہی قسم ہے۔ ایسی گفتگو سے ہر کٹر ہندوستانی سیخ پا ہوتا اور یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کر تا ہے کہ آریائی دراصل ہندوستان کے ہی رہنے والے تھے اور ان کی شریفانہ زندگی ہندوستان کی خصوصیت تھی۔ انگریز فلاسفروں کا خیال کہ ہم آپس میں کزن تھے اور آریائی دراصل مغرب سے ہندوستان آئے خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کٹر ہندو سیانوں کا ماننا ہے کہ سنسکرت دنیا کی سب سے قدیم ترین زبان ہے اور انسانیت کی ابتداء ہمالیہ کے قریبی پہاڑوں سے ہوئی تھی۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close