تاریخ کے نظریے کے تحت کسی عظیم مرد یا عظیم خاتون کی جانب مائل ہونا ہمیشہ بہت آسان ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے پر دنیا کو بدلنے کر رکھ دینے والے واقعات، دریافتیں، ایجادات، آپ اسے کچھ بھی نام دیں، سب کو آسانی سے کسی ایک فرد سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح تاریخی تجزیے کو ہوا کے جھونکوں کی مانند آسان بنا دیا جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ؟ جس کا سارا الزام ہٹلر کے سر تھوپ دیا گیا۔ کشش ثقل کا نظریہ؟ آئزک نیوٹن، کے علاوہ کوئی اور سائنس دان نہیں۔ سوویت یونین کا خاتمہ؟ وجہ کوئی اور نہیں بلکہ گورباچوف تھے۔
کرسٹوفر نولن کی نئی فلم ’اوپن ہائیمر‘ کی ریلیز کی کوریج کے مقابلے میں یہ رجحان اتنا زیادہ واضح نہیں ہے۔ اگر آپ پچھلے دو ہفتوں سے دنیا سے بے خبر ہیں یا آپ کو صرف ’باربی‘ فلم میں دلچسپی ہے تو بتاتے چلیں کہ یہ فلم امریکی ماہر طبیعیات جے رابرٹ اوپن ہائیمر کی سوانح عمری پر مبنی ہے۔
وہ ریاست نیو میکسیکو میں اس لیبارٹری کے ڈائریکٹر تھے جہاں پہلا ایٹم بم تیار کیا گیا تھا۔ اسی لیے اوپن ہائیمر کو اکثر ’بابائے ایٹم بم‘ کہا جاتا ہے۔ اور یہ تاثر یقینی طور پر نولن کی فلم سے مزید پختہ کیا جائے گا کہ یہ بم بنیادی طور پر ایک عظیم آدمی کی پیداوار تھا۔
اس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیوں کہ تصوف، امن پسندی، جنسی آزادی اور بائیں بازو کی سیاست اوپن ہائیمر کی شخصیت کا خاصہ بن گئے تھے۔ اس فلم سے انفرادیت کے اس احساس کو تقویت ملی ہے کیوں کہ یہ تصور کہ ایٹم بم انفرادی ذہانت کا نتیجہ تھا، ناقابل یقین حد تک دلکش ہے۔
لیکن ’عظیم انسان‘ کے نظریے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں شاذ و نادر ہی سچائی ہوتی ہے اور اوپن ہائیمر کے معاملے میں اس کا کہیں زیادہ فقدان ہے۔
انہیں ’ایٹم بم کا باپ‘ کے طور پر تسلیم کرنا نہ صرف اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ ’مین ہٹن پراجیکٹ‘ تاریخی طور پر بے مثال ٹیم ورک کا نتیجہ تھا بلکہ وہ دوسرے لوگ بھی اس حیثیت کے برابری کے مستحق ہیں۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوپن ہائیمر کی دانشمندی، جذبہ اور علم بم کی تیاری کے لیے ضروری تھا لیکن یہ ان کے بغیر بھی ایجاد ہو چکا ہوتا۔
ایٹم بم کی ابتدا یقینی طور پر لاس الاموس کی لیبارٹریوں میں نہیں ہوئی بلکہ جرمن کیمیادان اوٹو ہان اور فرٹز سٹراسمین کی لیبارٹریوں سے ہوئی جنہوں نے 1938 میں یورینیم پر نیوٹران کی بوچھاڑ کرنے کے بعد بیریم عنصر کے بارے میں جانا۔
انہوں نے جو کچھ حاصل کیا وہ نیوکلیئر فِشن تھا، عام تعرف میں ایٹم کو تقسیم کرنا لیکن طبیعیات دان لیز میٹنر اور اوٹو فرش کو اس کا ادراک اگلے سال اس تجربے کی نقل تیار کرنے میں کامیابی کے بعد ہوا۔
سائنسی برادری کے ذریعے ان خبروں نے تیزی سے سفر کیا اور جنوری 1939 میں اطالوی امریکی ماہر طبیعیات اینریکو فرمی کی سربراہی میں ایک ٹیم نے کولمبیا یونیورسٹی میں امریکہ میں پہلی بار نیوکلیئر فِشن کو حاصل کیا۔ اگرچہ فرمی امریکی فوج کو اس دریافت کے نتائج کے بارے میں خبردار کرنے والے پہلے شخص تھے لیکن ان کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
اس حوالے سے آئن سٹائن اور دیگر طبیعیات دانوں کی جانب سے اسی سال اگست میں صدر روزویلٹ کو بھیجا گیا ایک خط اہم تھا جس میں انتباہ کیا گیا کہ جرمنی ایک جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے جس نے بالآخر امریکیوں کو ایک جوہری پروگرام شروع کرنے کی ترغیب دی۔ اس کا نتیجے میں ’مین ہٹن پروجیکٹ‘ کے قیام کی صورت میں نکلا۔
اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ اس وقت اوپن ہائیمر نیوکلیئر فِشن کی تحقیق میں شامل نہیں تھے۔ دراصل وہ فلکی طبیعیات اور نیوٹران ستاروں جیسے مضامین پر مقالے تیار کر رہے تھے۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروں کو صرف نظریے کے طور پر لیا گیا تھا اور اگر آپ اُس وقت سائنسی برادری میں کسی سے پوچھتے کہ کون بابائے ایٹم بم بن سکتا ہے تو بہت سوں نے اینریکو فرمی کا نام لیا ہوگا کیوں کہ وہ سب سے پہلے اس کے فوجی اطلاق کے بارے میں خبردار کرنے والے سائنس دان تھے جو انہوں نے کولمبیا میں اپنے ورک بینچ پر تیار کیا تھا۔
درحقیقت یہ جزوی طور پر ہی سہی لیکن یہی وجہ ہے کہ فرمی کو اکثر بجا طور پر ’جوہری دور کا معمار‘ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اوپن ہائیمر کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی سائنس دان، یہاں تک کہ فرمی یا آئن سٹائن بھی، اپنی لیبارٹری میں ایٹم بم تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ جیسا کہ امریکیوں کو سیکھنا تھا، پہلے جوہری پروگرام کی تعمیر میں بہت زیادہ سیاسی قوت، رقم اور اہم طور پر انتظامی مہارت کی ضرورت تھی۔
فلم کے منتظمین بایوپک کے لیے شاذ و نادر ہی عنوانات چُنتے ہیں اور جب یقیناً فنکارانہ اور کمرشل مقاصد سامنے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخی کہانی کا ایک اہم جزو بڑی حد تک غائب ہے۔
تاہم اگر کرسٹوفر نولن کو کبھی ان لوگوں کے بارے میں فلم بنانے کی اجازت دی جاتی جن کا ایٹم بم کی تخلیق میں کردار شاید اوپن ہائیمر سے زیادہ تھا تو وہ ان دو آدمیوں کے کیریئر پر نظر ڈالیں گے جن کے نام آج زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہیں یعنی وینیور بش اور لیسلی گرووز۔
صدر روزویلٹ کو آئن سٹائن کا خط موصول ہونے کے بعد قائم کی گئی بازنطینی دور جتنی طویل کمیٹیوں اور تنظیموں کے اجلاسوں کے بارے میں لکھتے ہوئے یہاں جگہ کم پڑ جائے گی لیکن ایک شعبہ جو اہم تھا وہ آفس آف سائنٹفک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (او ایس آر ڈی) تھا جس کی سربراہی وینیور بش کر رہے تھے۔
وہ ایک سائنسی منتظم اور موجد تھے جو پہلے ہی کئی اہم سائنسی اداروں کی سربراہی کر چکے تھے۔
یہ بش ہی تھے جو 1941 میں ایٹم بم تیار کرنے کے لیے ایک تیز رفتار پروگرام شروع کرنے کے لیے امریکی حکومت سے لابنگ کرنے میں انتھک محنت کر رہے تھے۔
یہ بیان کرنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بش کے بغیر امریکیوں کے لیے جاپانی سرزمین پر بھرپور اور مہلک حملہ کرنے کے لیے ضروری بم کی تیاری ممکن نہ ہوتی۔
بش کا کام غیر معمولی طور پر مشکل تھا، کم از کم اس لیے نہیں کہ انہیں بہت سی دوسری ایجنسیوں اور محکموں سے الجھنا پڑا، جن میں سے سبھی نے محسوس کیا کہ وہ جنگی کوششوں میں مدد کے لیے سب سے زیادہ قابل ہیں۔
اس سے یقینی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ مین ہٹن پروجیکٹ، جسے او ایس آر ڈی نے بالآخر 1942 میں قائم کیا، خفیہ طور پر انجام دیا جانا تھا اور یہ غیر معمولی طور پر مہنگا بھی تھا۔
اس کی لاگت تقریباً دو ارب ڈالر تھی جو آج کے ایک سو ارب ڈالر کے برابر ہیں اور اس کے لیے پورے امریکہ میں پلانٹس، لیبارٹریوں اور فیکٹریوں میں پھیلے ہوئے تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار کارکنوں کی ضرورت تھی۔
بش دوسرے درجے کو قبول کرنے والے نہیں تھے اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ اس منصوبے کو متحرک طور پر نہیں چلایا جا رہا تو انہوں نے محکمہ جنگ سے ایک نیا سربراہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔
1942 کے موسم گرما کے اختتام تک یہ عہدے کا بوجھ فوجی افسر لیسلی آر گروز کے کندھے پر ڈال دیا گیا۔
فوج کے تعمیراتی ڈویژن کے ایک تجربہ کار بریگیڈیئر جنرل گرووز پینٹاگون کی تعمیر کے دوران اپنی انتظامی قابلیت کو ثابت کر رہے تھے اور انہیں ایک ایسی نوکری کے لیے موزوں امیدوار سمجھا گیا جس کے بارے میں انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر اس نے یہ کام ٹھیک کیا تو امریکہ ’جنگ جیت جائے گا۔‘
اگرچہ گرووز تشدد زدہ ذہنیت کے مالک نہیں تھے جو ایک عظیم بایوپک فلم کا موضوع بنتے۔ وہ ایک انتظامی سربراہ تھے جن کے پاس صحیح آدمی کو صحیح کام سونپنے کی ناقابل تردید مہارت تھی اور جب گرووز نے لاس الاموس میں قائم لیبارٹری کی سربراہی کے لیے صحیح آدمی کو ڈھونڈھنا چاہا تو وہ انہیں مل گئے۔
وہ شخص یقیناً اوپن ہائیمر ہی تھے جن کے بارے میں گرووز کو معلوم تھا کہ بم کی سائنسی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ان میں موزوں قابلیت موجود ہے۔ اعلٰی حکام میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اس تقرری کے خلاف تھے، کم از کم اس وجہ سے نہیں کہ اوپن ہائیمر کو ممکنہ سکیورٹی خطرہ سمجھا جاتا تھا لیکن گرووز کا فیصلہ اٹل تھا۔ جیسا کہ بعد میں ایک ماہر طبیعیات نے بڑی خوش اسلوبی سے اسے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تقرری اس شخص کے لیے جنرل گرووز کی طرف سے ذہانت کا ایک حقیقی مظاہرہ تھا، جنہیں عام طور پر باصلاحیت نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘
اصل میں ایٹم بم تیار کرنے کے منصوبے کے بہت سے باپ تھے اور کئی مائیں بھی۔ اوپن ہائیمر یقینی طور پر ان میں سے ایک تھے اور کچھ اور بھی شخصیات تھیں جنہوں نے ان سے پہلے اس منصوبے کو شروع کیا تھا۔
وینیور بش یقیناً برابری کے حقدار ہیں جس کے بارے میں ایک بار کہا گیا تھا کہ ’جن افراد کی 1940 کے موسم گرما میں موت امریکہ کے لیے سب سے بڑی مصیبت ثابت ہو سکتی تھی ان میں سے صدر پہلے اور ڈاکٹر بش دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہوتے۔‘
مین ہٹن پروجیکٹ سے ہمیں جو پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ ’عظیم شخصیت‘ کا نظریہ صرف فلموں میں ہی کام کرتا ہے۔ دنیا کو بدلنے میں اوپن ہائیمر کا کردار بلاشبہ بہت بڑا تھا لیکن دوسرے بھی اتنے ہی عظیم مرد اور خواتین ہیں جو یقینی طور پر عزت افزائی کے مستحق ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)