البانیہ 1938 کے مقابلے میں 1945 میں یہودیوں کی زیادہ آبادی کے لحاظ سے یورپ کی اقوام میں منفرد تھا۔ اس کی وجہ ’بیسا‘ نامی رواداری اور مہمان نوازی کی روایت تھی، ایک ایسی روایت، جو آج بھی ملک میں اعلیٰ ترین اخلاقی ضابطہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے ’وعدہ کرنا‘ ، اس روایت پر عمل کرنے والے اپنی جان پر کھیل کر بھی اپنا وعدہ پورا کرتے اور پناہ لینے والے کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ روایت یہ یقین دلاتی ہے کہ کوئی ایسا ہے، جس پر کوئی اپنی زندگی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کے حوالے سے بھروسہ کر سکتا ہے
مائی البانیہ اسٹڈی کے مطابق، بیسا ایک البانوی ثقافتی اصول ہے، جسے عام طور پر ’ایمان‘ کے طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’وعدہ کی پاسداری کرنا‘ اور ’عزت کا لفظ‘۔ اس کا ترجمہ ’وفادار‘ کیا جا سکتا ہے
البانیہ، جزیرہ نما بلقان کے جنوب مشرقی ساحل پر ایک چھوٹا اور پہاڑی ملک ہے، 1938 میں اس کی آبادی 803,000 تھی۔ ان میں سے صرف دو سو یہودی تھے۔ جبکہ آبادی کی واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 1933 میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے یہودیوں نے البانیہ میں پناہ لی۔ ان کی تعداد کے حوالے سے کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم، مختلف ذرائع کا اندازہ ہے کہ چھ سو سے اٹھارہ سو تک یہودی پناہ گزین جرمنی، آسٹریا، سربیا، یونان اور یوگوسلاویہ سے اس ملک میں داخل ہوئے
البانوی خاندان جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، نے اپنے گھروں میں ان کو خوش آمدید کہا اور یہودی پناہ گزینوں کی حفاظت کی، جو نازی حکومت کے ظلم و ستم سے فرار ہو کر وہاں پہنچ رہے تھے
سنہ 1938 میں جنگ شروع ہونے سے ایک سال پہلے ہی البانیہ کے بادشاہ زوگ اول نے تین سو سے زائد یہودیوں کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی، حتّیٰ کہ انہیں البانیائی شہریت بھی دے دی تھی لیکن یہ شاہی تحفظ زیادہ دیر نہیں چل سکا
سنہ 1939 میں اٹلی نے البانیہ پر حملہ کرتے ہوئے خود کو البانیہ کا محافظ قرار دیا اور بادشاہ زوگ اول کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ اٹلی کے فاشسٹ رہنما بینیٹو مسولینی کے زیرِ قبضہ آنے کے بعد البانیہ میں یہودیوں کا داخلہ مزید مشکل ہو گیا
تاہم سنہ 1945ع میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک البانیہ میں یہودی پناہ گزینوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اتنی زیادہ تعداد کی وجہ اس کے شہریوں کی روایتی یکجہتی اور ’بیسا‘ نامی ضابطہ اخلاق ہے
اس روایت کی بنیاد اسلام میں پناہ دینے کی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے آثار ہمیں پاکستان کی مختلف اقوام سندھی، بلوچ اور پختون روایات میں بھی نظر آتے ہیں، جسے سام، ولی وغیرہ کے مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے
شرلی کلوئیس ڈیو گارڈی، البانیہ سے امریکہ تک ’امریکن سوک لیگ‘ کی ایک رہنما کہتی ہیں ”البانیوں نے یہودیوں کو اپنے خاندانوں میں سمو لیا، انہیں کھانا کھلایا، انہوں نے ان کی دیکھ بھال کی اور انہیں چُھپایا۔ جوں جوں حالات زیادہ خطرناک ہوتے گئے البانیہ کے مسلمان خاندانوں نے یہودی پناہ گزینوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کے طریقے تلاش کرنا شروع کر دیے“
پناہ گزینوں کی مدد کرنے والوں میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے، جو سیاست یا سماجی تحریکوں میں شامل نہیں تھے، لیکن ان میں صرف انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا
پوڈ کاسٹ ہسٹری پر سیکریٹ ہیروز (خفیہ ہیروز) پر پروگرام پیش کرنے والی ہیلینا بونہم کارٹر کے مطابق، یہ کہانی ایک فوڈ مرچنٹ ارسلان رزنیقی کی ہے، جس نے سینکڑوں یہودی پناہ گزینوں کو بچانے کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی جان کو خطرے میں ڈالا تھا
ارسلان کا خاندان مسلمان تھا، البانیہ میں اکثریتی مذہب اسلام ہے، جہاں کی آبادی کا صرف 17 فیصد مسیحی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو البانوی کمیونٹی کا سب سے پہلا اور سب سے اہم حصہ سمجھتی تھی، البانیوں کا یہ طبقہ اپنی انسانیت دوست فطرت پر فخر کرتا تھا اور یہ آج بھی ’بیسا کوڈ‘ پر عمل پیرا ہے
’بیسا اخلاقی ضابطہ‘ ان اصولوں کا ضابطہ ہے، جس کی بنیاد دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رواداری پر قائم ہے۔ بیسا کا مطلب ہے ’عزت و غیرت کا عہد‘ اور آپ کو اس کی اصلیت تلاش کرنے کے لیے پندرہویں صدی کی زبانی روایات میں واپس جانا پڑتا ہے، یہ البانیوں میں اب بھی برقرار ہے۔
ڈیو گارڈی کہتے ہیں ”بیسا ذاتی عزت کو دوسروں کے ساتھ احترام اور مساوات سے جوڑتا ہے۔ اس کی اہم اقدار میں سے ایک مہمان کا غیر مشروط تحفظ ہے، جو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے تک بھی جا سکتا ہے“
’بیسا‘ کا اخلاقی ضابطہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
اورجسٹ باقری کا کہنا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے ’کنون‘ روایت کے حصے کے طور پر چلی آ رہی ہے، جو کہ پندرہویں صدی میں شمالی البانیہ کے قبائل پر حکومت کرنے کے لیے غیر تحریری انداز میں تشکیل دیے گئے تھے، یہ اپنی مرضی کے مطابق قوانین کا ایک مجموعہ ہے
جب کہ انہی روایات کو بیسا کا اصل ماخذ سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ’کنون‘ کہلانے والی روایت درحقیقت اس سے بھی پرانی ہے اور یہ کہ ’کنون‘ نامی روایات محض قدیم قبائلی روایات تھیں
البانیہ پہنچنے والے زیادہ تر یہودی چھوٹے شہروں اور پہاڑوں میں پناہ لے کر چھپ گئے تھے یہاں البانیائی برادری کا ایک بڑا حصہ رہتا تھا لہٰذا اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ حکام انہیں تلاش کر لیں گے۔ پناہ گزین زیر زمین بنکروں اور پہاڑی غاروں میں چھپے ہوئے تھے
لیکن جب نازیوں نے البانیہ پر قبضہ کیا تو انہوں نے البانیہ کے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں ملک میں آباد یہودیوں کی فہرستیں فراہم کریں تاکہ انہیں جلاوطن کیا جائے۔ لیکن مقامی حکام نے انکار کر دیا
جب جرمنوں نے ولورا کے یہودیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو البانیوں نے ارد گرد کے دیہی علاقوں پر اپنے کنٹرول کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن کو روک دیا۔ دوسری جگہوں پر، یہودیوں کو جلاوطن کرنے کی جرمن کوشش البانیوں کے تعاون سے انکار کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ بچانے والوں میں سے ایک، لائم بالا ، نے اسرائیلی ہولوکاسٹ کی یادگار یاد واشم کو بتایا کہ کس طرح البانویوں نے اپنے یہودیوں کو جرمنوں کی نظروں سے چھپا رکھا تھا: ”ہم غریب تھے – ہمارے پاس کھانے کی میز تک نہیں تھی – لیکن ہم نے انہیں کبھی کھانے یا رہائش کے لیے ادائیگی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ میں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے اور پانی لینے گیا۔ ہم نے اپنے باغ میں سبزیاں اگائیں تو ہم سب کے پاس کھانے کو کافی تھا۔ ہمارے گاؤں میں یہودیوں کو پندرہ ماہ تک پناہ دی گئی۔ ہم نے ان سب کو اپنی طرح کسانوں کا لباس پہنایا۔ یہاں تک کہ مقامی پولیس کو بھی معلوم تھا کہ گاؤں والے یہودیوں کو پناہ دے رہے ہیں“
البانوی ’امریکن سوک لیگ‘ کے ساتھ کام کرنے والی شرلی ڈیو گارڈی نے لاوارث گھروں میں چھپے ہوئے یہودیوں کی بے شمار کہانیاں دیکھیں تھیں۔ اس لیے یہودیوں کو دی جانے والی امداد کو قومی غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا
البانیوں کے انسانی کردار کی یہ پہچان ہے کہ ہولوکاسٹ کے متاثرین کے لیے اسرائیل کی یاد واشم یادگار تقریباً 25,000 ’نیک و متقی لوگوں‘ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے یہودی برادری کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیں
اگرچہ دوسری جنگ عظیم ان مشکل ترین امتحانات میں سے ایک تھی، جس کا اس سماجی ضابطہ کو سامنا کرنا پڑا، لیکن نازی حکومت کے مظالم نہ تو پہلا واقعہ تھے اور نہ ہی آخری چیلنج
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے چاہے زمانے اور اس کے ہونے والے شکار بدل جائیں۔ کئی سال بعد سنہ 1990ع کی دہائی میں پانچ لاکھ سے زیادہ مہاجرین سرب فوجی دستوں سے بچنے کے لیے کوسوو چھوڑ کر البانیہ چلے گئے
ایک مہاجر خاندان کو بچانے والی البانوی خاتون کی پوتی نیویلا موکا بتاتی ہیں ”البانی خاندان کوسوو کے پناہ گزین کیمپوں میں جاتے، کسی ایک خاندان کو ڈھونڈتے اور پھر انھیں گھر لے جاتے۔ وہ رشتہ دار یا دوست نہیں تھے، وہ اجنبی تھے، لیکن البانوی ان کا استقبال کرتے، انہیں کھلاتے، کپڑے پہناتے، ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے، جیسے وہ ان کے خاندان کا حصہ ہوں“
جب نیویلا سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں سوچتی ہیں، کہ ان کی دادی نے ایسا کیوں کیا، تو وہ کندھے اچکا کر جواب دیتی ہے ”یہ البانیائی طریقہ ہے۔ یہ ایک ’بیسا‘ ہے“
موکا نے بتایا کہ ’بیسا‘ البانیوں کے لیے ایک ضابطہ ہے یعنی ’اگر کوئی آپ کے پاس مدد کے لیے آتا ہے تو آپ اسے رہنے کے لیے جگہ دیتے ہیں
اگرچہ بیسا کے کچھ زیادہ سخت پہلو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ہیں، تاہم البانوی معاشرے میں فرض اور مہمان نوازی کی عمومی اقدار اب بھی برقرار ہیں
البانیہ اب ایک بار پھر مشرق وسطیٰ سے سفر کرنے والوں کو پناہ دینے کی پیشکش کر رہا ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد درجنوں افغان البانیہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے
البانیہ کے وزیر خارجہ اولٹا زہکا نے سوشل میڈیا پر کہا ”البانیہ خیر سگالی کے جذبے کے اظہار کے طور پر چار ہزار افغان مہاجرین کی فخر کے ساتھ میزبانی کرے گا۔ یہ کبھی بھی بڑے اور امیر ممالک کی امیگریشن مخالف پالیسیوں کا مرکز نہیں بنے گا“
اس طرح البانیہ جو کہ عظیم یورپی اقوام میں سے ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے، نے اپنی پوری تاریخ میں ایک سے زیادہ مواقع پر ان لوگوں کی مہمان نوازی کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے جو ظلم و ستم کا شکار ہو کر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔