چند دنوں کی مہمان قومی اسمبلی نے اپنے حالیہ اجلاس کے دوران ایک ہی دن میں مختلف شہروں میں چوبیس یونیورسٹیوں کے قیام کے بل منظور کیے ہیں، جس سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ حکومت نے ملک میں تعلیم کی پسماندہ صورتحال کے پیش نظر کوئی انقلابی تعلیمی اقدام اٹھایا ہے
اس سلسلے میں لیکن ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حکومت کو ملک میں ’تعلیمی انقلاب‘ لانے کی کچھ ایسی جلدی تھی کہ قانون سازی کی روایت سے ہٹ کر ان یونیورسٹیوں کے قیام کے مسودہ جات کو بحث کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی، مزید حیران کن امر یہ ہے کہ جب ان کو منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا گیا اس وقت اراکین کی بہت کم تعداد اسمبلی میں موجود تھی اور ان بلوں کو یکے بعد دیگرے منظور کروا لیا گیا
اس کے بعد ایک بحث چل پڑی ہے کہ آخر اتنی یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری میں ایسی کیا عجلت تھی کہ ان کو بغیر کسی بحث کے فوراً منظور کر لیا گیا۔ اب اگر کوئی اس عمل کی مخالفت کرے گا تو پی ڈی ایم یقینی طور پر اسے ’تعلیم دشمن‘ قرار دے دے گی کہ دیکھو یہ یونیورسٹیوں کے قیام کا مخالف اور تعلیم دشمن ہے۔۔ لیکن پسِ پردہ حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں
جن یونیورسٹیوں کے قیام کے مسودوں کی منظوری دی گئی، ان میں میٹروپولیٹن انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عسکری انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، فیڈرل ضیاءالدین یونیورسٹی، دی انڈس یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، دی انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف شہید بے نظیر بھٹو، انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ پروفیشنلز اسٹڈیز، شیخوپورہ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز، کاسمک انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجیز، بلہے شاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، دی راوی انسٹیٹیوٹ، دی انٹرنیشنل اسلامک انسٹیٹیوٹ فار پیس، شاہ بانو انسٹیٹیوٹ جڑانوالہ، انٹرنیشنل میمن یونیورسٹی، امِ ابیہا انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز، مفتیِ اعظم اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن سائنسز، البیرونی انٹرنیشنل یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ ایمرجنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اور دی ہاریزن یونیورسٹی شامل ہیں
قانون سازی کی اس لوٹ سیل کے حوالے سے پاکستان میں اعلٰی تعلیم کے نظام سے منسلک ماہرین کا خیال ہے کہ ان چوبیس یونیورسٹیوں میں سے زیادہ تر حکومت کے قریبی بااثر سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اتنی عجلت میں منظوری دے دی گئی ہے
ماہر تعلیم اور تجزیہ کار ڈاکٹر طاہر ملک کہتے ہیں ”منظور کی گئی یونیورسٹیوں میں سے زیادہ تر ان لوگوں کی ہیں جو بڑے کاروباری افراد، بااثر اور پارلیمینٹیرینز کے قریبی لوگ ہیں۔ اب ریئل اسٹیٹ میں کاروبار کرنے والے لوگ، میڈیا ہاؤسز کے مالکان، یہاں تک کے معروف پیر اور مدرسوں کا نیٹ ورک چلانے والے افراد بھی یونیورسٹیوں کے چارٹر لے رہے ہیں۔ اور چونکہ یہ اس اسمبلی کے آخری دن ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے“
پارلیمانی امور کے سینیئر صحافی اور انگریزی روزنامہ ڈان کے اسلام آباد میں بیورو چیف عامر وسیم بتاتے ہیں ”اتنی جلد بازی میں اتنے زیادہ بل پاس کروانے کی وجہ یہ ہے کہ نجی یونیورسٹیوں کے بل اراکینِ اسمبلی ذاتی حیثیت میں پرائیویٹ ممبرز کے دن پیش کرتے ہیں اور اس اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے صرف دو پرائیویٹ ممبرز دن بچتے تھے۔ گزشتہ ہفتے جس دن یہ بل منظور کروائے گئے، اس دن پرائیویٹ ممبرز دن تھا۔ اب اس کے بعد محض ایک اور پرائیویٹ ممبرز دن بچا ہے۔ اسی لیے اتنے زیادہ بل اس دن منظور کروائے گئے۔ کیونکہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے والی ہے اور یہ بل ابھی پیش نہیں کیے جا سکے تھے، لہٰذا جن جن اراکین نے یہ بل پیش کرنے تھے، وہ ان کو فوری طور پر اسمبلی میں لے آئے تاکہ مدت ختم ہونے سے پہلے یہ منظور ہو جائیں“
مرتضیٰ نور پاکستان میں اعلٰی تعلیم کے نظام کا ایک اہم حصہ ہیں اور یونیورسٹیوں، کالجوں کے قیام سمیت ان کے مختلف قانونی کام سر انجام دینے کے لیے ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ وہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور اکیڈمکس ایسوسی ایشن کے اہم رابطہ کار بھی ہیں اور انتظامی معاملات سے منسلک رہتے ہیں
یونیورسٹی کے قیام کی منظوری کے طریقہ کے بارے میں ان کا کہنا ہے ”پاکستان میں نجی یونیورسٹی کے قیام کے دو بنیادی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ہائیر ایجوکشین کمیشن کے پاس جاتے ہیں اور اس کے متعلقہ شعبے کے پاس اپنی مجوزہ یونیورسٹی کی تمام دستاویزات جمع کرواتے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آپ کی دستاویزات جن میں آپ کی اکیڈیمک اور مالی صورتحال، زمین کی ملکیت اور دیگر سہولیات کی تصدیق کرتا ہے اور مطمئن ہونے کے بعد آپ کے چارٹر کی قانون سازی کے لیے بھجوا دیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے اراکینِ اسمبلی سے تعلقات ہیں تو آپ ان دستاویزات کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کروا کر کسی ایک رکن اسمبلی کو مسودہ پیش کرتے ہیں، جو بل اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیتا ہے“
مرتضیٰ نور کے خیال میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ حالیہ منظور کیے گیے بیشتر بل بھی اسی راستے اسمبلی پہنچے ہیں
پروفیسر طاہر ملک افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”پاکستان میں یونیورسٹیاں تو بے شمار ہیں اور آئے روز مزید کھل رہی ہوتی ہیں لیکن ان کا معیار تعلیم مسلسل گر رہا ہے۔ اب بھی جن یونیورسٹیوں کی منظوری دی گئی ہے، ان میں سے زیادہ تر عام تعلیم ہی دیں گی اور پیشہ ور مخصوص اعلٰی تعلیم کے ادارے آج بھی پاکستان میں بہت کم ہیں“
انہوں نے کہا ”ہمارے ہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ایروسپیس، نرسنگ اور اس نوع کے دوسرے مخصوص پیشہ ور تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ اس بارے میں ایک معیار قائم کرے اور روائتی مضامین کی یونیورسٹیوں کے چارٹر جاری نہ کرے۔ ان کی جگہ پیشہ ورانہ تعلیم کی یونیورسٹیوں کی منظوری دی جانی چاہیے“
طاہر ملک کے مطابق اب سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے اخراجات میں فرق بھی محض 25 فیصد رہ گیا ہے اور اس کے برعکس معیار تعلیم رو بہ زوال ہے
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام کہتی ہیں ”تمام یونیورسٹیوں کے چارٹڑ دستاویزات اور متعقلہ معیار کی مکمل چھان بین کے بعد ہی قانونی کارروائی کے لیے منظور کیے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ادارے کا مخصوص شعبہ فراہم کی گئی تمام دستاویزات اور سہولیات کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے۔“