ہماری زندگیوں میں ہمیں کئی ایسے لوگ ملتے ہیں، جن میں سے کچھ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے ایسے ہوتے ہیں، جو شدید غربت میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی آخری سانس تک انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، پھر بھی وہ کبھی ہمت نہیں ہارتے اور اپنے عزم، محنت اور معاشرے کے لیے شراکت کے ذریعے ہمارے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں
’سادہ زندگی، اعلیٰ سوچ‘ یہ کہاوت اکیسویں صدی میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ اس کے پیچھے بنیادی وجہ پیسہ ہے۔ آج انسان صرف اور صرف پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن بھارت میں ایک ایسا شخص بھی ہے، جو قابل ہونے کے باوجود خود کو دولت اور دولت کے اس سراب سے دور رکھتا ہے
”صاحب! میرے پاس دہلی آنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، برائے مہربانی ایوارڈ (پدم شری) ڈاک کے ذریعے بھیجیں۔“ یہ بات کہنے والے شخص اوڑیسا کے مشہور لوک شاعر ہلدھر ناگ تھے، جنہیں ادب کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے سال 2016ع میں حکومتِ ہند سے ‘پدم شری ایوارڈ’ ملا تھا
ہلدھر ناگ نے نہ ہونے کے برابر تعلیم حاصل کی، کم عمری میں اپنے والدین کو کھو دیا، روزی روٹی کے لیے معمولی ملازمتیں کیں، ’راگا چنا‘ (مصالحہ دار چنے) بیچتا ہے اور 2016 میں اسے اوڑیسا ادب کے میدان میں ان کی شراکت کے لیے پدم شری سے نوازا گیا
سادہ زندگی اور اعلیٰ سوچ کے پختہ یقین رکھنے والے، پدم شری شاعر ہلدھر ناگ کی زندگی ہر کسی کو کالج کی ڈگریوں اور پرائمری تعلیم سے آگے سوچنے پر اکساتی ہے۔ اہل ہونے کے بعد بھی وہ خود کو تمام مادیت پسند چیزوں سے دور رکھتے ہیں
ہلدھر ناگ کون ہے؟
اوڑیسا سے تعلق رکھنے والے، ہلدھر ناگ تہتر سالہ ’کوسلی‘ زبان کے معروف لوک شاعر ہیں
1950 میں اوڑیسا کے بارگڑھ ضلع کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہلدھر دس سال کی کم عمری میں اپنے والدین سے محروم ہو گئے۔ اپنے خاندان کی خراب مالی حالت کی وجہ سے، جب وہ تیسری کلاس میں تھے تو اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک یتیم کی زندگی گزارتے ہوئے انہوں نے کئی سال ایک ڈھابے میں گندے برتن صاف کرنے میں گزارے
گاؤں کے ایک سربراہ کی مدد سے، انہوں نے اگلے سولہ سالوں تک ایک مقامی اسکول میں ’باورچی‘ کے طور پر کام کیا۔ چند سال بعد، انہوں نے بینک سے ایک ہزار روپے کا قرض لیا اور اسکول کے سامنے کاپی، کتاب، قلم اور پنسل وغیرہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔ اس سے وہ کئی سال تک اپنی روزی کماتے رہے۔ اگرچہ وہ بمشکل پڑھے لکھے ہیں لیکن اس دوران انہوں نے لکھنے کے شوق کو مرنے نہیں دیا اور چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتے رہے۔ اس طرح ان کے لوک گیتوں نے انہیں علاقے میں مشہور کر دیا تھا اور انہیں نظمیں لکھنے کو کہا گیا۔ لکھنے کے بارے میں بے خبر، ہلدھر نے مدد کے لیے ایوارڈ یافتہ سچیدانند روترے کے لکھی ہوئی انتھولوجی کی طرف رجوع کیا۔ اس کے فوراً بعد، انہوں نے اپنی پہلی نظم لکھی
باقاعدہ اسکولی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود ان پر پی ایچ ڈی کے پانچ مقالے ہیں
پہلی نظم
1990 میں ہلدھر ناگ نے اپنی پہلی نظم ’ڈھوڈو برگچ‘ (پرانا برگد کا درخت) لکھی۔ اس نظم کے ساتھ انہوں نے اپنی چار دیگر نظمیں ایک مقامی میگزین میں اشاعت کے لیے بھیجیں اور ان کی تمام تخلیقات شائع ہو گئیں۔ اس کے بعد ان کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے اور یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کوسلی زبان کے لوک شاعر کے طور پر مشہور ہوئے
ہلدھر ناگ کہتے ہیں ”یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا اور اس نے مجھے مزید لکھنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد میں اپنے اردگرد کے دیہاتوں میں جا کر اپنی نظمیں سنانے لگا۔ اس دوران مجھے لوگوں کی طرف سے مثبت ردعمل بھی ملا۔“
ان کی نظمیں، جو اوڑیسا میں ’لوک کاوی رتنا‘ کے نام سے مشہور ہیں، فطرت، سماج، افسانہ اور مذہب کے گرد گھومتی ہیں
ہلدھر ناگ اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی اصلاحات کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ وہ اپنے کام ’کاویانجلی‘ کے لیے مشہور ہیں، جو ان کی منتخب شاعری کے انگریزی تراجم کا مجموعہ ہے
ہلدھر ناگ کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں بیس افسانوں کے علاوہ اب تک اپنی لکھی ہوئی تمام نظمیں یاد ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں، انہیں یاد رہتا ہے۔ آپ کو صرف نظم کا نام یا موضوع بتانے کی ضرورت ہے۔ آج بھی انہیں اپنا لکھا ہوا ایک ایک لفظ یاد ہے۔
ہلدھر کہتے ہیں: ”مجھے خوشی ہے کہ نوجوان نسل کوسلی بھاشا میں لکھی گئی نظموں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ میری نظر میں شاعری کو حقیقی زندگی سے جوڑنا اور اس میں سماجی پیغام رکھنا بہت ضروری ہے۔“
وہ نظمیں لکھنے کے عمل کے بارے میں بتاتے ہیں ”میں اب بھی اپنی نظمیں پہلے اپنے سر میں لکھتا ہوں۔ میں ان کو اس وقت تک دہراتا رہتا ہوں جب تک کہ لائنیں کانوں کو بھا نہ جائیں اور جب مجھے یقین ہو جائے تو میں انہیں لکھتا ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”بحیثیت شاعر میرا کام لکھتے رہنا ہے اور میں یہ کروں گا، باقی سب مایا ہے۔“
پانچ پی ایچ ڈی کے ساتھ، اسکالرز کی طرف سے ان کی زندگی اور کام پر اپنے مقالوں کی بنیاد رکھنا، اس قول کا زندہ ثبوت ہے کہ عمر صرف ایک عدد ہے اور کلاس روم کی تعلیم ہی سب کچھ نہیں ہے
آج ہلدھر ناگ کو کسی شناخت میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ہلدھر ، جسے تیسری جماعت سے ہی اسکول چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، آج ان کی تحریروں کی ایک تالیف ’ہلدھر گرنتھاولی-2‘ کو بھی اوڑیسا کی ’سمبل پور یونیورسٹی‘ کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے
‘راگا چنے‘ بیچنا
اس تہتر سالہ سیاہ رنگ کے افسانوی اوڈیا شاعر کو ہر سال اپنے گاؤں بارگڑھ میں ’رتھ یاترا‘ کے دوران ’راگ چنا‘ (مصالحہ دار چنے) بیچتے ہوئے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے یہ مصالحہ دار چنے ان زائرین اور عقیدت مندوں میں پسندیدہ ہیں، جو ہر سال رتھ یاترا کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ تاہم ہلدھر کو چنے بیچنے سے کوئی عار نہیں اور وہ کہتے ہیں ”یہ میرا پیشہ ہے، میری روزی روٹی ہے۔ میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں، صرف اس لیے کہ مجھے پدم شری سے نوازا گیا تھا؟ میں اپنی جوانی کے دنوں سے اسے بیچ رہا ہوں۔ اور مقامی لوگ اسے پسند کرتے ہیں؟“
کسی بھی کام سے کوئی نفرت نہیں، وہ ملک کے چوتھے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ سے نوازے جانے والے ایک مشہور شاعر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کچھ رقم کمانے کے لیے محنت کرنے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں
جیسا کہ وہ کہتے ہیں، ”میں کسی بھی چیز کو اس وقت تک چھوٹا نہیں سمجھتا جب تک کہ وہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہ ہو۔“
پدم شری
2016 میں، حکومتِ ہند نے ادب کے میدان میں ہلدھر ناگ کی انمول شراکت کے لیے انہیں پدم شری سے نوازنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی سادگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہیں حکومت کی طرف سے پدم شری سے نوازنے کے فیصلے کی تصدیق کرنے والا فون آیا، تو اس نے التجا کی، ’’صاحب! میرے پاس دہلی آنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، برائے مہربانی ایوارڈ (پدم شری) ڈاک کے ذریعے بھیج دیجئے۔“
سفید دھوتی، گمچھا اور بنیان پہنے ہلدھر ناگ جب ننگے پاؤں صدر پرنب مکھرجی سے پدم شری ایوارڈ لینے آئے تو انہیں دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس دوران ملک کے نیوز چینلز پر یہ بحث چھڑی کہ ایک قابل آدمی ایسی زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہے
اس شخص کی سادگی اور عظمت کے ایک اور ثبوت میں، ہلدھر نے ایک یتیم خانے کو دس ہزار روپے کا پدم شری الاؤنس عطیہ کیا
کوسلی بھاشا میں لکھنے والے ہلدھر ناگ نے بیس افسانے اور متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ ان کے کارناموں کے اعتراف میں، ان کی تحریروں کی ایک تالیف ’ہلدھر گرنتھاولی-2‘ کو اوڑیسا کی ‘سمبل پور یونیورسٹی’ میں نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے
ایک شاعر، ایک معروف شخصیت اور پدم شری ایوارڈ یافتہ، ناگ نے اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا ہے لیکن ان کے طرزِ زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی! وہ اب بھی سادگی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہمیشہ سفید دھوتی اور بنیان میں بغیر کسی جوتے کے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کوئی صرف سوچ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کاموں پر اس قدر توجہ کیسے دے سکتا ہے کہ وہ جو پہنتا ہے، اسے بھول جائے! جیسا کہ مارک ٹوین کا مشہور قول ہے ”کپڑے آدمی کو بناتے ہیں۔ ننگے لوگوں کا معاشرے پر بہت کم یا کوئی اثر نہیں ہوتا۔“ ٹھیک ہے، مسٹر ٹوین، لیکن یہ شخص آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے!
اگرچہ بمشکل پڑھے لکھے اس شخص کی کہانی ہمیں سلام کرنے پر مجبور کرتی ہے لیکن ہمیں اس کی کہانی سے کیا سیکھنا چاہیے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں یا کسی افلاس کے مارے خاندان میں، کسی بڑے سے شاندار کارپوریٹ اسپتال میں یا سرکاری ہسپتال کے بیڈ ہر۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس ڈگری ہے یا نہیں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں یا ہائی اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آیا آپ میں وہ جذبہ اور جوش ہے یا نہیں! وہ جذبہ جو آپ کو پاگل کر دیتا ہے! وہ جذبہ، جس کے بغیر آپ نہیں رہ سکتے! وہ جذبہ جو آپ کو جاگی ہوئی راتیں دیتا ہے!
امر گل
حوالہ: مختلف نیوز ویبسائٹس