میٹرک میں اچھے نمبر نہ لینے والے بچے کیا کریں؟

حسنین جمال

میٹرک میں جن بچوں کے نمبر کم آئے یا فیل ہو گئے اور انہیں پھینٹی شینٹی چڑھ گئی، وہ ذرا نیڑے آ جائیں

بلکہ جن بچوں کو ڈانٹ پڑی ہے، وہ اور سخت والے اماں ابا بھی تھوڑی توجہ کریں

ہمیں ساری زندگی یہ فلسفہ بیچا گیا کہ بیٹا ایک بار میٹرک اچھے نمبروں سے کر لو، آگے بس مستقبل روشن ہے لیکن میٹرک ہے کیا؟

دسویں جماعت؟ پندرہ سولہ سال کے بچوں کی پڑھائی کا دسواں سال؟ اہمیت کیا ہے اس کی؟ جو بچہ جتنا بہتر رٹا مارے گا، وہ اتنے اچھے نمبر لے گا، کہ نہیں؟ کچھ اور بھی سائنس ہے نمبروں کے پیچھے؟ کیسے آ سکتے ہیں یار 1100 میں سے 1090 نمبر؟

انگریزی، اردو یا اسلامیات میں اگر آپ سو بٹا سو لے رہے ہیں تو اس کا پیمانہ کیا ہے؟ جو کچھ ٹیکسٹ بُک میں لکھا ہے، اسی کو چھاپنا اور سو فیصد کاپی پیسٹ میں کامیاب ہونے پہ سو نمبر پورے لے جانا؟ یہ سب تو آرٹیفشل انٹیلیجنس بھی کر رہی ہے بلکہ اسے سوچ کر خود سے لکھنا بھی آتا ہے

اگر آپ یقین کریں تو میری پوری زندگی میں کسی نے آج تک نوکری کے انٹرویو میں یہ سوال نہیں کیا کہ بیٹا میٹرک میں کتنے نمبر آئے تھے آپ کے؟

واحد خیال اماں ابا کا یہ ہوتا ہے کہ میٹرک میں نمبر اچھے آ گئے تو کسی اچھے کالج میں داخلہ مل جائے گا اولاد کو۔ یہاں دو سوال ہیں؛ پہلا تو یہ کہ اولاد داخلہ لینے کے بعد کیا اسی طرح ساری زندگی کاپی پیسٹ بنی رہے گی یا جس وقت دماغ سے سوچنا پڑا، اس وقت سرکٹ شارٹ ہونے لگے گا؟

دوسرا یہ کہ جو کالج ’اچھے‘ نہیں کہلاتے ان میں داخلہ لینے والے بچے کہاں جاتے ہیں، کیا وہ بھوکوں مرتے ہیں یا ان کا مستقبل فارغ ہو جاتا ہے؟

دوسرے سوال کا جواب طبیعت سے دینے کے لیے میں ادھر موجود ہوں۔ اگر آپ مجھ پر ایک فیصد بھی یقین کرتے ہیں تو مان جائیں کہ جتنے دوست میرے ساتھ کے تھے، جو نہلے تھے، رو دھو کے میٹرک پاس کیا تھا یا بعد میں کالج جا کے خلیفے بن گئے تھے، سب کے سب الحمدللہ بہترین روزی روٹی بنا رہے ہیں۔

ایک کا اپنا کاروبار ہے، دوسرا سرکاری نوکری میں ہے، تیسرا پراپرٹی اور گاڑیوں میں ڈیل کرتا ہے، چوتھا ایکسائز کا بادشاہ ہے، پانچواں کچہری میں اندھیر مچائے ہوئے ہے، چھٹا موٹروے پولیس میں ہے، ساتواں پیسٹی سائیڈ فرم کا منیجر ہے، آٹھواں آسٹریلیا میں ہے، نواں ملتان کی یونیورسٹی میں اور دسواں آپ کے سامنے ہے۔

میٹرک میں اپنے کوئی پچھتر فیصد نمبر تھے۔ کالجوں کا میرٹ بنا تو پہلا نمبر ایمرسن کالج کا تھا، میرے نمبر اس معیار کے نہیں تھے، مجھے سائنس کالج ملتان میں داخلہ ملا۔ فرسٹ ایئر کا رزلٹ آیا تو بھائی فیل تھا۔ میٹرک والو! سن لو کہ میں، حسنین جمال، فرسٹ ایئر سائنس سبجیکٹس کے ساتھ فیل تھا۔

فیل کیوں ہوا، اس کے پیچھے طویل کہانی ہے آوارہ گردیوں کی، دوستی یاریوں کی، پڑھائی میں دل نہ لگنے کی اور غیر نصابی ہر چیز میں پورا دل لگنے کی۔۔۔ لیکن اسے چھوڑتے ہیں، وہ سب کم نمبروں والے جانتے ہیں، پوائنٹ یہ تھا کہ میرے ایک مہربان استاد نے ابو جی کے آگے سفارش کری کہ بھئی بچہ آپ کا سائنس میں نہیں چل سکتا، اسے کچھ آرٹس وغیرہ میں کروا لیں، ٹھیک رہ جائے گا

اب میں آپ کے سامنے کامیابی کا مینار بخدا نہیں بن رہا، لیکن یار آرٹس رکھتے ہی اگلے سال دونوں برس کا اکٹھا پرائیویٹ امتحان دیا اور کوئی ساٹھ فیصد کے آس پاس نمبر لے کے بھائی پاس تھا۔ فارمولا سمجھ آ گیا، شرافت سے بی اے بھی اسی طرح کیا۔ ایم اے کے لیے قسمت نے ساتھ دیا اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں داخلہ مل گیا۔

بی اے کی ڈگری پہ خدا نے پہلی نوکری دی اور اس کے بعد چل سو چل۔۔۔ ابھی اس وقت آپ کے سامنے ہوں، شکر ہے مالک کا کہ گھر چلتا ہے، بیٹی پڑھتی ہے، ہم سر نوکری کرتی ہیں اور عمر کے چالیس سے بھی تین چار سال اوپر نکل گئے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی کوئی دس ایک سال پہلے ایم بی اے بھی پھڑکایا ہے۔ کس نے؟ اسی نالائق بچے نے، جو فرسٹ ایئر میں فیل ہوا تھا۔

دنیا بھر کا میں کہہ نہیں سکتا، لیکن یقین کیجے کہ پاکستان کا عام تعلیمی نظام اس وقت آپ کو اچھے روزگار کی ہرگز کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا، وہ سب مکمل طور پہ قسمت یا پی آر کے ہاتھ میں ہے!

اپنے دور کی مثالیں میں نے آپ کو دیں، آج کل کی بات کر لیں تو میرے شہر ملتان میں خود میرے رشتے دار بچے بہترین ڈگریوں کے ساتھ صرف آن لائن کام کر رہے ہیں، وہ کسی کی نوکری نہیں کرتے۔ وہی کام کچھ ایسے بچے بھی کر رہے ہیں، جن کے پاس کوئی خاص ڈگری نہیں ہے، کمپیوٹر پہ کام کا تجربہ ہے، بنیادی انگریزی جانتے ہیں اور باقی سب کچھ یوٹیوب سے سیکھا ہے۔

اب کیا کریں؟ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میرا مشورہ صرف تین لائنوں کا ہے۔

نمبر اچھے ہوں یا برے، ڈگری کی اہمیت کسی نوکری میں قدم رکھنے کے لیے ہوتی ہے، اس کے بعد شروع ہونے والی ساری زندگی کا آپ کی پڑھائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

کوئی ڈگری حاصل نہ کرنے والے کبھی فوت نہیں ہوتے، ان کے حصے کا رزق انہیں ملتا ہے اور جتنا میں نے دیکھا ہے، اس میں کوئی کمی یا ڈگری والوں کے ساتھ مقابلہ نہیں ہوتا۔

آخری چیز ہنر ہے۔ ڈجیٹل یا نان ڈجیٹل۔۔۔ پڑھائی کے ساتھ لازم ہے کہ ایسا کوئی بنیادی کام آپ جانتے ہوں، جو روزمرہ زندگی میں کام آتا ہو۔ سو بٹا سو کی بجائے اس کی طرف ابھی سے توجہ کر لیں تو دس سال بعد آپ مجھے دعائیں دے رہے ہوں گے۔

میں زندہ نہ ہوا تو میری کتاب خرید کے آگے کسی کو تحفہ جاریہ دے دیجیے گا، سب کا بھلا سب کی خیر!

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close