آخر ایک صبح مجھے پھانسی دے دی گئی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بہار کا موسم تھا کہ موسمِ سرما۔۔۔ بہرحال یہ طے ہے کہ مجھے پھانسی دی گئی۔ میرا گناہ ایک غیر معمولی مگرمچھ کے ساتھ دوستی کرنا تھا۔۔ افریقا کا ایک مگرمچھ، جو آنسو نہیں بہاتا تھا!
مجھ پر متعیّن فوجی افسر نے ہمیشہ مجھ پر ناک بھوں چڑھانے کی بہت کوشش کی، لیکن یقین کیجئے کہ وہ طبعاً ایک خندہ رو شخص تھا۔ وہ محض چلّا کر ہی رہ جاتا اور اس کے غصّے کی آگ کبھی میرا جی نہ جلاتی، مثلاً وہ مجھ سے یوں مخاطب ہوتا، ”سلام! اے سیاہ حبشی غلام۱“
اس سپہ سالار نے میدانِ جنگ کا منھ تک نہ دیکھا تھا۔ یوں کہنا چاہیے کہ میں ہی اس کی پہلی رزم گاہ تھا۔ بل کہ میں اس کے لیے ’واٹر لو‘ کی طرح تھا۔۔۔ ایک فیصلہ کن میدانِ جنگ!
اس کے کندھے پر ستارے سجے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا کہ شاید یہ شخص آسمان سے اترا ہے۔ اس کے سپاہی گولیوں کی بوچھاڑ کرتے رہتے۔ ہر وقت گولیاں چلتی رہتیں۔۔۔ لیکن کیا کیجئے کہ ان کا نشانہ اکثر و بیش تر خطا ہو جاتا۔۔ معلوم ہوتا، جیسے یہ مختلف سوچوں میں غلطاں ہیں!
پہلے سپاہی کو یہ فکر لاحق تھی کہ ’آج پھر دوپہر کے کھانے میں گائے کا گوشت۔۔! کس قدر کچا پکا کھانا ہوتا ہے!‘ یہ سپاہی دُور کے کسی شہر کا مکین تھا، اس قدر دُور کے شہر کا، کہ اب اسے اپنے مسکن کا نام تک یاد نہ تھا۔ وہ اسی بات پر غمگین رہتا کہ آخر اس کا کوئی اپنا شہر کیوں نہیں ہے۔۔؟ ہاں، وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ اس کے شہر کے باورچی گائے کا گوشت بڑی اچھی طرح بھون کر پکاتے تھے۔
میں نے دوسرے سپاہی پر نظر دوڑائی۔ اس نے بھی میرے سیاہ چہرے پر چمکتی ہوئی آنکھوں میں جھانکا۔ جونہی ہماری نگاہیں ٹکرائیں، اس کی بندوق نیچے گر پڑی۔۔۔ بات یہ ہے کہ یہ دوسرا سپاہی قدرے شرمیلا تھا! اس کی غیر محتاط گولیاں زیادہ تر اس کے سمانے تار پر پھیلائے گئے میرے دھلے دھلائے کپڑوں تک ہی پہنچ پاتیں یا میری زین کی گدی میں سوراخ کرتیں اور ناکام لوٹ جاتیں۔
مجھ پر مامور تیسرا سپاہی شاید ہنس رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ ہونٹوں پر جما رکھے تھے۔ یہ تیسرا سپاہی جب بھی بندوق کا ٹرگر دباتا، اس کی مونچھیں ٹیڑھی ہوجاتیں۔۔ یہ شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھا، بل کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ وہ جانتا ہی نہیں تھا کہ فہم و تدبر کیا بلا ہے؟
اسی اثنا میں ایک پرندہ ان عجیب و غریب مزاج کے سپاہیوں کی چکردار گولیوں کے بیچ میں سے کمال مہارت سے بچ نکلا۔ سپاہی بے اختیار اس کے لیے تالیاں بجانے لگے۔
ان کا افسر مجھ سے گویا ہوا، ”کوئی وصیت کرو“
میں نے کہا، ”میرے پاس اسّی (۸۰) گل شمعدانی* ہیں۔“
اس نے دریافت کیا، ”ہم ان کا کیا کریں؟“
میں نے جواب دیا، ”آپ کو صرف انہی کے استعمال کے متعلق نہیں سوچنا ہے، بل کہ میرے پاس ایک سکّہ بھی ہے۔۔ چلیں وہ آپ کے سپاہیوں کی نذر!“
اس نے سکّہ لے لیا لیکن وہ اسے پہچان نہ سکا۔ میں نے وضاحت کی، ”یہ ساسانی ہے، آپ اسے اپنی نقدی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔۔۔“ وہ غالباً کیشیئرز الاؤنس کے بارے میں نہ جانتا تھا۔۔ میں نے اس کے لیے اپنا پتا لکھ دیا۔
پہلی گولی میں نے اپنے بائیں پاؤں پر عین جراب کے اوپر کھائی۔ کم و بیش اسی وقت ایک چھوٹی سی چیونٹی میرے پاؤں کے قریب سے گزری۔۔۔ اس نے گولی کی کوئی پروا نہ کی کہ یہ اس کے معمول کا راستہ تھا۔ البتہ جب میں چلّایا تو وہ بھاگ گئی۔
یہ بہت ہی احمقانہ کام تھا۔۔۔ انسان جس وقت مرتا ہے تو وہ بڑی بڑی باتیں سوچنے لگتا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ مرتے وقت وہ اس بات پر افسوس کرے کہ اب وہ دوسروں کو نہیں دیکھ سکے گا، ملک شیک نہیں پی سکے گا، اپنی ناک کو کھجا نہیں سکے گا، سردیوں میں ہیٹر جلا کر نہیں بیٹھ سکے گا!
دوسری گولی میری ڈاڑھی کے بیچ ہی میں کہیں گم ہو گئی۔ میں نے ڈاڑھی کھجلائی۔ یہ دوسری گولی شاید اندر کی (باطن کی) تاریکی سے ڈر گئی۔ میں نے اپنی زبان کی مدد سے اس کا پتا چلایا اور اسے نگل گیا۔
سپہ سالار کہہ رہا تھا، ”ناشتے میں کیا کھاؤ گے؟“
میں بولا، ”چودہ گھونگھے“
وہ کہنے لگا، ”ہمارے پاس نہیں ہیں۔“
میں نے جواب دیا، ”اس فوجی اڈے کی بائیں طرف موجود ہیں۔“
وہ بدستور بولا، ”ہمارے پاس نہیں ہیں۔“
میں نے کہا، ”پھر تین گولیاں ہی دے دیجئے۔ ویسے بھی میں چاہتا ہوں کہ خود کو ان کا عادی کرلوں۔“
جب انہوں نے مجھے تختۂ دار پر باندھا تو مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے میں ’سیلوانا منگانو‘ ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں بچّہ تھا تو ایک پیسہ دیتا تھا اور ایک تیر لگاتا تھا۔ میرا تمام بچپن ’سیلوانا منگانو‘ کی گولیوں کی اسی نشانے بازی میں گزرا تھا۔ میں نے افسر سے کہا، ”آپ پٹاخے چھوڑنا تو بھول ہی گئے ہیں۔“
اگلی گولی میں نے اپنے فاؤنٹین پین پر کھائی۔ تیسرا سپاہی فوراً چلّایا، ”اس کا خون سبز ہے۔“
میں نے اپنی کمر کھجائی اور خود کو دار سے قدرے سرکانے کی کوشش کی۔ فوجی افسر نے تیزی سے کہا، ”ہلو مت!“
چوتھی گولی بے سمت چلی۔ میں نے خود کو ایک طرف سرکا لیا تھا۔ گولی میرے شانے میں چھید کرتی ہوئی نکل گئی۔ میں نے اپنے کندھے کے سوارخ پر نظر دوڑائی۔ ایک بلّی اس گولی کا نشانہ بنی تھی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کچھ ثانیوں کے لیے کھڑی ہو گئی۔ پھر کوئی آہٹ پیدا کیے بنا اس کا منھ ہلا اور وہ محض ’میاؤں‘ کی آواز نکال سکی۔ اس نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا اور وہ میرے عقب سے غائب ہو گئی۔ بلّی جیسے ہی دنیا سے گئی، میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان سرخ ہو گیا تھا۔ میرے شانے کے سوارخ سے سورج نے طلوع کیا۔ میرا سایہ روشن ہو گیا۔ سپہ سالار میرے سر پر کھڑا تھا۔۔۔ اب حتمی گولی مارنے کا وقت تھا۔
میں کہہ رہا تھا، ”حتمی گولی وہی پہلا سپاہی مارے۔“
وہ کہہ رہا تھا، ”سپاہی بے کار ہوگئے ہیں۔“
چناں چہ اب سپہ سالار کی بندوق کی نالی میرے بائیں کان کی لو پر تھی۔ بندوق کی نالی یخ بستہ تھی۔ مجھے گدگدی سی ہونے لگی۔ میں بے اختیار ہنس پڑا۔ فوجی افسر نے میری خاطر اسے اپنے ہاتھوں سے گرم کیا۔
مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ میں بچپن میں صبح کے وقت بائیسکل سے گرا تھا اور میرے بائیں کان کی لو کچھ کٹ گئی تھی۔ پھر ایک بار ایک پتھر میری اسی لو کو چھوتے ہوئے گزرا تھا۔
پھر منگنی کی رات، میرے سہرے کی پن میرے بائیں کان ہی کے بالائی حصے میں اندر تک چلی گئی تھی۔۔ انسان جلد بھول جانے والا ہے۔۔۔ مجھے چاہیے تھا کہ میں خود کو اپنے بائیں کان کی لو سے نجات دے دیتا!
آخری فرد جسے اس روز میں نے اپنے رو برو دیکھا، وہ میری بیوی تھی۔ اس نے برے قرینے سے دستر خوان بچھایا، روٹی کے ٹکڑے تقسیم ہوئے اور میں مر چکا تھا!
* گلِ شمعدانی: جیرنیم (Geranium) پودوں کی جنس میں سے کوئی ایک جس پر شوخ سرخ رنگ کے یا گلابی و ارغوانی پھول لگتے ہیں اور بہت خوشبودار ہوتے ہیں۔
اصل عنوان: اعدام