2016 میں معروف فلم ساز انوراگ کشیپ نے ایک فلم ’رمن راگھو 0۔2‘ بنائی تھی، جو عالمی طور پر ’سائیکو رمن‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔
اس فلم میں اداکار نواز الدین صدیقی اور وکی کوشل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ فلم ایک ایسے قاتل کی کہانی پر مبنی ہے، جس نے سنہ 1960ع کی دہائی میں بمبئی میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ یہ ایک ایسی خوفناک کہانی ہے، جو کسی کے بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے
یہ قاتل شخص کسی امیر یا اہم شخصیت کے لیے خوف و ہراس کی علامت نہیں تھا، بلکہ تنہا بے سہارا اور فٹ پاتھ پر سونے والوں اور کچی آبادی میں رہنے والوں کے لیے موت تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تھا تو لوگوں نے چین کا سانس لیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔
اس شخص کے بارے میں پولیس کے پاس بھی کوئی زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن جب انوراگ کشیپ نے رمن راگھو پر فلم بنائی تو ایک بار پھر وہ بہت سے لوگوں کی یادوں میں تازہ ہو گیا
تاہم اس سیریل کلر کو پکڑنے والے پولیس افسر آر ایس کلکرنی نے اپنی دو کتابوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اپنی کتاب ’کرائمس، کرمنلز این کاپس‘ میں وہ لکھتے ہیں ’رمن راگھو بلا شبہ جرائم کی تاریخ میں سب سے زیادہ بدنام زمانہ قاتلوں میں سے ایک تھا۔۔ 1968 کے مون سون کے دوران بمبئی کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں جنونی قتل و خون کے ایک سلسلے کے ذریعے راگھو نے پورے شہر پر خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’سڑکیں اور پارک شام کے وقت خالی ہو جاتے تھے کیونکہ کند پھاوڑے کے ساتھ تن و تنہا قاتل جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے تعاقب میں نکل جاتا تھا۔ راگھو کا شکار ہمیشہ غریب اور بے گھر لوگ ہوتے تھے۔ کچھ خواتین کو قتل کرنے کے بعد ان کے ساتھ عصمت دری بھی کی گئی۔‘
’اس کے قتل کا مقصد سمجھ سے باہر تھا کیونکہ وہ کسی مال و متاع کے لیے قتل نہیں کرتا تھا۔ اس کا عمل میڈیا کے لیے ایک بڑی کہانی بن گیا تھا اور مشتعل لوگوں نے پولیس پر کارروائی کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔‘
انڈیا کے ہندی زبان کے اخبار ’امر اجالا‘ نے اس کے بارے میں لکھا کہ ’رمن راگھو نہ تو انڈر ورلڈ ڈان تھا اور نہ ہی گینگ لیڈر یا ڈاکو۔ وہ ایک سائیکو یا نفسیاتی مریض تھا، جس کے سر پر خون سوار تھا۔‘
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق جنوبی انڈیا کے تمل ناڈو سے تھا لیکن امر اجالا کے مطابق وہ سنہ 1929 کے آس پاس پونے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا
رمن راگھو ایک قاتل نفسیاتی مریض کیسے بنا، یا کن حالات نے اسے سیریل کلر بنایا، اس کی مکمل معلومات شاید اب کسی کے پاس نہیں لیکن اس کے جرائم اتنے شدید اور اتنے بہیمانہ تھے کہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے
اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور تھیں، کوئی اسے بھوت پریت سمجھتا تھا جو شکلیں بدل لیتا ہے تو کوئی اسے ڈراؤنا خواب سمجھتا تھا۔ پولیس کے سامنے جب اس نے اعتراف جرم کیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ قتل بھگوان کے کہنے پر کرتا تھا اور اسے اس پر کوئی افسوس نہیں تھا
صحافی ایم رحمان نے مسٹر کلکرنی کی کتاب پر انڈیا ٹوڈے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’راما کانت ایس کلکرنی اس وقت سب سے نوجوان آئی پی ایس افسر تھے جنھیں یہ کام سونپا گيا۔ سنہ 1966 میں مل میں کام کرنے والے ایک بے روزگار شخص شندھی دلوئی عرف رمن راگھو کو پکڑا گیا لیکن ثبوت کے عدم موجودگی میں اسے چھوڑ دیا گیا۔‘
پولیس ریکارڈ کے مطابق اس نے چالیس سے زیادہ قتل کا اعتراف کیا ہے لیکن پولیس کا خیال ہے کہ اس نے اس سے کہیں زیادہ قتل کیے تھے۔ یہ قتل دو مرحلوں میں کیے گئے۔ پہلے سنہ 1965-66 میں اور پھر سنہ 1968 میں
پہلے دور میں اس نے ڈیڑھ درجن سے زیادہ افراد پر حملہ کیا، جس میں سے نو لوگ ہلاک ہو گئے جبکہ باقی بری طرح زخمی ہوئے تھے لیکن کسی طرح بچ گئے۔ وہ اپنے شکار کے سر کو کند پھاوڑے یا کلہاڑی سے کچل دیتا تھا۔ بچ جانے والوں نے اسے اچھی طرح نہیں دیکھا تھا، اس لیے اس کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھی اور پولیس اس کو قطعی طور پر گرفتار کرنے سے قاصر رہی
ہندی کے اخبار ’جن ستّا‘ کے مطابق وہ پھر سنہ 1968 میں سرخیوں میں آیا جب چند ماہ کے اندر اس نے اسی بہیمانہ انداز میں ستائیس لوگوں کو قتل کر دیا
اس بار مسٹر کلکرنی نے اس کے خلاف بڑا جال بچھایا اور اس وقت مغربی ممبئی کے جس علاقے میں وہ اس قسم کی واردات انجام دے رہا تھا تقریبا دو ہزار پولیس اہلکار گشت کیا کرتے تھے
مسٹر کلکرنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’1968 میں تقریبا ہر روز بہیمانہ قتل کی واردات سامنے آ رہی تھی اور بظاہر یہ قتل بلامقصد نظر آ رہے تھے کیونکہ یہ معمولی اور غریب لوگوں کے قتل تھے لیکن اس کی وجہ سے بمبئی میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔’ بہر حال اس وقت تک مسٹر کلکرنی کو ممبئی کرائم برانچ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔
’رمن راگھو نہ تو انڈر ورلڈ ڈان تھا اور نہ ہی گینگ لیڈر یا ڈاکو۔ وہ ایک سائیکو یا نفسیاتی مریض تھا جس کے سر پر خون سوار تھا۔‘: فوٹو ہندوستان ٹائمز
مسٹر کلکرنی لکھتے ہیں کہ اس کے بارے میں یہ قصے مشہور ہونے لگے کہ ’اسے جادوئی قوت حاصل ہے اور وہ بلی یا طوطے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔‘
بہرحال 27 اگست 1968 کو مسٹر کلکرنی کے ایک سب انسپیکٹر نے اس کی شناخت کر لی اور لوگوں کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر اسے گرفتار کر لیا گیا
یہ افسر ایلیکس فیالہو تھے۔ ان کی موت پر سنہ 2020 میں شائع ایک رپورٹ میں لکھا گیا کہ ‘فیالہو نے کئی کیسز کا پتہ لگایا تھا، لیکن انہیں سیریل کلر رمن راگھو کی گرفتاری کے لیے سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، جس کے لیے انہیں صدر کے پولیس میڈل سے نوازا گیا تھا۔ فیالہو، جو اس وقت ڈونگری پولیس سٹیشن میں پی ایس آئی تھے انہوں نے 1968 میں راگھو کو جنوبی ممبئی کے بھنڈی بازار علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے بعد راگھو نے کم از کم اکتالیس قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا
جب اس کی گرفتاری کی خبر اخباروں کی زینت بنی تو بمبئی کے لوگوں نے چین کا سانس لیا۔ مسٹر کلکرنی کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے گھر مبارکباد دینے پہنچے تھے۔
رمن راگھو نے پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور پولیس افسر کلکرنی کے مطابق اس نے کوئی بات نہیں بتائی۔ اخبار امر اجالا کے مطابق اسے بچپن سے جاننے والوں نے بتایا کہ اسے کوئی خاص بیماری نہیں تھی لیکن اسے بچپن سے ہی چوری کی خراب لت تھی۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے وہ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا
امر اجالا کے مطابق وہ خواتین کے ساتھ ریپ بھی کیا کرتا تھا اور اس نے اپنی بہن کا بھی ریپ کیا تھا۔ اس کی شکار ہونے والی ایک زخمی خاتون کریتیکا نے اس کی شناخت بتائی تھی اور پھر رمن راگھو کا کردار ابھر کر سامنے آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل وہ چوری اور ڈاکے کے معاملے میں پانچ سال جیل کی سزا کاٹ چکا تھا
اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر کلکرنی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کوئی بھی حربہ اس سے کوئی بھی معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پھر ایک دن ان کے ایک افسر نے رمن راگھو سے ہلکی پھلکی گفتگو میں پوچھ لیا کہ اسے کیا چاہیے۔ جس کے جواب میں اس نے اسی انداز میں جواب دیا ’مرغی۔‘
اس کے بعد اسے مرغی یعنی چکن پیش کیا گیا اور پھر جب وہ مرغی کا گوشت کھا کر فارغ ہوا تو پھر اس سے اس کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے تیل کی فرمائش کی اور پھر اس نے اپنے سر پر خوب تیل کی مالش کی بالوں کو کنگھی کیا اور پھر اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر کہنے لگا ’تم لوگوں کو مجھ سے کیا چاہیے۔‘
پولیس افسر نے وہ سوال کیا کہ اس نے کیسے لوگوں کو قتل کیا اور پھر وہ ان کے ساتھ وہاں وہاں گیا جہاں اس نے قتل کو انجام دیا تھا اور ان ہتھیاروں کے بارے میں بتایا جس سے اس نے واردات انجام دی تھی اور یہ بھی بتایا کہ اس نے ان ہتھیاروں کو کیسے چھپایا۔ پولیس کے مطابق اس کی بہت سے معلومات درست تھیں
اخبار جن ستا لکھتا ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس نے اس کی میڈیکل جانچ کرائی تو اسے ذہنی مریض نہیں کہا گیا اور پھر ذیلی عدالت نے ایک طویل سماعت کے بعد اسے سزائے موت دے دی۔ لیکن رمن راگھو نے اپنی طرف سے ہائی کورٹ میں کوئی اپیل نہیں کی لیکن پھر ہائی کورٹ نے تین ماہر نفسیات کے ایک پینل کو اس کی جانچ کے لیے مقرر کیا کیونکہ اس نے جج کی کسی بھی بات کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا
ماہر نفسیات کے انٹرویو کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہے اور پھر اس کی بنیاد پر اس کی سزا کو تاحیات قید میں تبدیل کر دیا گیا
اس کے بعد اسے پونے کی یرودا جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا جہاں کئی سالوں تک اس کا علاج بھی ہوتا رہا۔ برسوں بعد سنہ 1995 میں گردے کی خرابی کی وجہ سے جیل میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی اور اس طرح جرم کا ایک باب بند ہو گیا
لیکن مسٹر کلکرنی جن کی موت سنہ 2005 میں ہو گئی، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ راگھو اور دوسرے قاتلوں کے مقدمات یہ بتاتے ہیں کہ ’قانون کس طرح مجرموں کے حقوق کی وضاحت کرتا ہے، لیکن متاثرین کی حالت زار پر بہت کم توجہ دیتا ہے‘ کیونکہ جو لوگ ان کا شکار ہوئے ان کا تو کوئی پرسان حال نہ ہوا۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں دہلی میں مقیم لکھاری یوسف تہامی کے ایک مضمون سے مدد لی گئی۔