’گھروں کے دروازے کھول دو‘ مہم

روہنی سنگھ

بھارت کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں معروف صحافی سعید نقوی نے ایک بار سامعین سے سوال کیا کہ کتنے ہندو طالب علم یا اساتذہ کبھی کسی مسلم ساتھی کے گھر گئے ہیں یا قریب سے مسلمانوں کو جاننے کی کوشش کی ہے؟

جواب میں چند ایک نے کہا کہ مسلمان گوشت کا سالن بہت اچھا پکاتے ہیں اور اچھی بریانی کھانے کیلئے وہ مسلم علاقوں میں جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کی جانکاری بس اسی حد تک تھی۔ حد تو یہ ہے ایک ہی محلے اور سوسائٹی میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور رہتے تھے۔

کچھ ایسا ہی میرا بھی حال تھا۔ میری پیدائش اور پرورش ایک ایسے سکھ گھرانے میں ہوئی، جس نے ملک کی تقسیم کے دوران قتل عام کے منظر دیکھے۔ چونکہ میرے دادا اور نانا کو اپنی جائیداد، گھر وغیر ہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان سے بھارت آنا پڑا، اس لئے بھی ہمارے گھر میں مسلمانوں کے بارے میں کچھ کھچاؤ سا تھا۔ ایک ایسا شکوہ، جو زبان پر تو نہ آتا تھا، مگر ہم ان کو اپنی ہجرت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ میری دادی اپنے گھر میں خاص طور پر باورچی خانے میں مسلمان ملازم کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔

اسکول میں میرے مسلمان ساتھی تھے۔ لیکن ان کے ساتھ میرا میل جول صرف کلاس تک ہی محدود رہتا تھا۔ مجھے کبھی ان کے گھر جانے کا موقع نہیں ملا۔ جب میں کالج جانے لگی اور آہستہ آہستہ خاندانی بندشوں سے آزادی حاصل کرتی ہوئی، نیز صحافت کے کیریئر کے دوران احباب کا دائرہ بڑھتا گیا، تو مسلمان ساتھیوں کو قریب سے جاننے اور پرکھنے کا موقع ملا۔

معلوم ہوا کہ مسلمان روزانہ بریانی اور قورمہ نہیں کھاتے، روزمرہ کی زندگی میں وہ بھی ہماری طرح کا کھانا کھاتے ہیں۔ ان کے گھرو ں میں بھی مغربی طرز کا مہمان خانہ اور کھانے کی میز ہوتی ہے۔ وہ بھی ہماری طرح کتابیں پڑھتے ہیں اور ٹی وی دیکھتے ہیں اور انہیں موسیقی سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔

مسلمانوں کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ وہ آبادی بڑھانے کی مشین ہیں، ان کی چار چار بیویاں اور لا تعداد بچے ہوتے ہیں۔ اب پچھلی کئی دہائیوں سے میں نے تو اپنے دوستوں میں کوئی مسلمان شوہر چار بیویوں کے جلوے میں نہیں دیکھا۔ وہ بھی اسی طرح بچوں کو اسکولوں میں ایڈمیشن دلانے کے لئے ایسے ہی خوار ہوتے ہیں، جیسے ہم ہوتے ہیں۔

اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے، میں اکثر محسوس کرتی ہوں کہ میں نے مسلمانوں کے بارے میں کتنی غلط فہمیاں پال رکھی تھیں اور ان کو حقیقت سمجھتی تھی۔

ایسا لگتا ہے کثیر الجہتی اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود بھارت میں لوگ خصوصاً پڑھا لکھا اور اپنے آپ کو لبرل و روشن خیال کہلوانے والا مڈل کلاس بھی ایک خول میں رہتا ہے۔ انتہا پسندوں کی بات ہی دوسری ہے۔

ایک دوسر ے کے بارے میں بھرم دل و دماغ میں سموئے ہوئے ہیں اور ان پر ہی یقین بھی کر تے آئے ہیں۔ ہم دہائیوں سے نسلی تفریق کی حالت میں جی رہے ہیں اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں۔

اگست میں بھارت اور پاکستان کے ماہ آزادی کی مناسبت سے پچھلے ہفتے معروف فلم اداکارہ نندیتا داس، رتنا پاٹھک اور چند دیگر فراد نے جب ”میرے گھر آ کر تو دیکھو‘‘ مہم شروع کی، تو مجھے لگا کہ یہ وقت کی انتہائی ضرورت ہے۔ دیگر کمیونٹی کے افراد کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھولنا اور ان کو اپنے ساتھ کھانے پینے اور بات چیت میں شامل کرنا، یوم آزادی کی سالگرہ کے لئے بہترین تحفہ ہے۔

اس مہم کے تحت ایک کمیونٹی کے افراد دوسری کمیونٹی کے افراد کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں گے، ایک دوسرے کی ثقافت اور مماثلت کو

سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ مہم اگلے سال جنوری تک جاری رہے گی، جس میں صرف ہندو، مسلمان یا سکھ ہی نہیں بلکہ خواجہ سرا بھی حصہ لیں گے۔

سما جی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہے کہ 2017 میں، انہوں نے ایسی ہی ایک مہم مغربی صوبہ گجرات میں چلائی تھی، تاکہ 2002 کے مسلم کُش فسادات کا زہر کسی حد تک زائل ہو۔ ان فسادات نے صوبہ میں ہندو اور مسلمانو ں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کر دی۔ ان کی اس مہم نے کافی حد تک فرقہ وارانہ اہم آہنگی دوبارہ قائم کرنے میں مدد کی۔ اس بار اس مہم کو ملک گیر سطح پر چلایا جائے گا۔

ایک دہائی قبل جب میں سکھ مذہبی مقامات دیکھنے کے لئے پاکستان کے دورے پر گئی تھی، تو مجھے ایک خوشگوار تجربہ ہوا۔ اسلام آباد کے جناح مارکیٹ میں مستند پاکستانی پنجابی کھانے کی تلاش میں بھٹک رہی تھی کہ میرے ہم عمر دو لڑکے میرے پاس آئے۔ ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میں بھارتی مسافر ہوں۔

جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک اچھا پاکستانی پنجابی ہوٹل تلاش کر رہی ہوں، تو انہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ ہچکچاہٹ کے ساتھ میں نے دعوت قبول کی لیکن ا س دعوت نے وہ کام کر دکھایا، جو ایک درجن کتابیں پڑھ کر بھارت۔پاکستان کے درمیان رواداری کے موضوع پر ہزار لیکچر سن کر بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

جہاں بھارت اور پاکستان آج کل آزادی کی 77ویں سالگرہ منا رہے ہیں، وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ جشن منانے کے علاوہ اپنے پڑوسیوں اور دیگر فرقوں کے افراد کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول کر ان کو جاننے کے لئے وقت نکالیں۔

میں یہی کچھ اس سال اگست میں کر رہی ہوں تاکہ جشن آزادی کا لطف دوبالا ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ میری ہی طرح میرا بیٹا بھی کچھ ایسی ہی غلط فہمیاں پال کر بھرم یا مذہبی تعصب کا شکار ہو، جیسے کئی دہائی قبل میں تھی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close