ہم اٹک قلعہ کی مغربی دیوار کے قریب کھڑے ہیں۔ ہوا ٹھنڈی اور موسم خوشگوار ہے۔ میرے دائیں ہاتھ مشرقی سمت اٹک برج ہے، جس کے نیچے دریاؤں کا باپ اباسین (سندھو اس خطہ میں اباسین بھی کہلاتا ہے) پر سکون بہہ رہا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی پر سکون ہے، جیسے اژدھا شکار نگل کر کنڈلی مار کر پرسکون ہو جاتا ہے کہ پل سے ذرا پہلے یہ بھی دریائے کابل کو نگل کر کنڈلی مارے ہے۔
ہوا ٹھنڈی اور شام مسرت افزاء ہے۔ مجھے میرا تصور قدیم زمانے میں لے گیا۔ ”دور دور تک سناٹا ہے۔ قلعہ ہے اور بس چھوٹی سی ایک انسانی بستی۔۔ سندھو کے کنارے جہاں آج اٹک برج ہے۔ مجھے جے پال کی فوجیں محمود غزنوی سے شکست کھا کر تتر بتر ہوتی نظر آئیں۔ کچھ جان بچانے کے لئے ادھر اُدھر بھاگ رہے ہیں اور کچھ زخموں سے چور چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ فاتح سپاہ مال غنیمت سمیٹنے میں لگی ہے۔ شکست خوردہ سپاہ میں خود راجہ جے پال بھی ہے۔ کیا منظر ہے۔ زخمی اور کراہتے انسان و حیوان۔ بھاگنے والوں کو جان کے لالے پڑے ہیں مگر جے پال خالص اور سچا راجپوت ہے۔ شکست نے اس کے چہرے کی ہوائیں اڑا دی ہیں۔ چہرے پر پریشانی ہے اور پشیمانی بھی۔ آنکھیں ڈوبی ہوئیں، ماتھے پر گہری سوچ کی تیوریاں، ہار نے اُس کی دنیا اجاڑ دی ہے۔ مجھے محسوس ہوا اُس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز بھی شکست کے دکھ اور کرب میں دب چکی ہے۔ جتنی محمود کی سپاہ میں فتح کی خوشی اور مسرت کی شادمانی ہے ُاس سے کہیں زیادہ مایوسی، بددلی جے پال اور دیگر راجاؤں کے لشکر میں ہے۔ جے پال کا گھمنڈ ٹوٹا ہے۔ گھمنڈ اور مان ٹوٹنے سے افسوس اور دکھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ شکست کی ذلت، خالی خزانہ، تاریک مستقبل؟ زندگی سے مایوس جے پال خود کشی کر چکا ہے۔ اس کا بیٹا انند پال باپ کی چتا کو آگ لگا کر جلتی چتا کے قریب حسرت و یاس کی تصویر بنا کھڑا ہے۔ اس کا ہاتھ اپنی تلوار پر ہے۔ میں راجپوت کی آنکھ میں انتقام کی آگ بھی دیکھ رہا ہوں۔ انتقام۔ مجھے۔۔۔۔۔“
میرا تخیل ٹوٹا تو اٹک قلعے پر شام کی چادر اتر چکی ہے۔
نین نے سندھو سے پوچھا؛ ”کبھی کسی نے خزانے کی چابی تم میں پھینکی ہے۔“ مجھے اس کی لہروں میں سنجیدگی نظر آئی۔ جیسے ہنستے ہنستے وہ اچانک خاموش ہو گیا ہو۔ اس کی موجوں کا شور بھی تھم سا گیا ہے۔ اس کی آواز میں اداسی ہے؛ ”کسی نے خزانے کی چابی کیا میری نظر کرنی تھی نین جی، میں توخود ہی بہت بڑا خزانہ ہوں۔ میرے پانی میں زندگی بھی ہے اور قہر بھی۔ غصہ بھی ہے اور رحم دلی بھی۔۔ بپھر جاؤں تو بستیاں اجاڑ دوں۔ اتر جاؤں تو ریت کا سمندر پیچھے چھوڑ آؤں۔ میری لال مٹی سونا اور کھیت کی خوشحالی کی ضامن ہے۔پنجاب اور سندھ کے زرخیز میدان میری ہی مرہون منت ہیں۔ پہاڑوں کا جل ترنگ میری ہی بدولت ہے۔ میری تہہ میں خدانے بیسیوں نعمتیں اتار دی ہیں۔ میرا پانی تیری زندگی ہے۔ میری مچھلیاں تیری خوراک ہیں، میری ریت میں سونا ہے۔ میری مٹی میں ہریالی ہے۔ کہتے ہیں میں نہ ہوتا تو بہت سی بستیاں بھی نہ ہوتیں، بہت سے زرخیز میدان بھی نہ ہوتے۔ بتاؤ نین! کون بڑا خزانہ ہے؟“ وہ مسکرائی اور بولی؛ ”آپ ہی ہو سندھو سرکار۔“
وہ خاموش ہوا تو باس نے سوال پو چھا؛ ”عظیم سندھو! تم نے تو یہاں سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو گزرتے دیکھا ہے، کوئی یاد بھی ہے ان میں سے تم کو؟“
وہ مسکرایا اور کہنے لگا؛ ”واہ باس! کیسا سوال کیا ہے آپ نے؟ کیا بات پوچھی ہے؟ پگلے! لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کی آمدو رفت کا گواہ ہوں۔ یونان کا سکندر بھی دنیا فتح کرنے کی آرزو لے کر یہاں سے گزرا۔ اس کی تمنا پر میں ہنسا تھا۔ مجھے قوی امید تھی کہ میری دھرتی کے راجپوت اسے آسانی سے اپنی دھرتی پر قابض تھوڑی ہونے دیں گے؟ میں نے اس جنونی اور خبطی کو زخم چاٹتے، نقصان اٹھا کر واپس جاتے دیکھا تو تب بھی میں ہنسا تھا۔ امیر تیمور سے لے کر منگولوں تک، غزنوی سے لے کر غوری تک، بابر سے لے کر اورنگ زیب تک، نادر شاہ سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک اور پھر انگریز، کون کون یہاں سے نہیں گزرا۔۔ کس کس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز نہیں سنی میں نے۔۔ بہت سوں کو ہنستے، بہت سوں کو روتے اور کچھ کو ماتم کرتے بھی دیکھا ہے۔ ان میں سکندر، غزنوی، تیمور لنگ اور بابر کمال شخصیات تھے۔ بہادر، دھن کے پکے، دشمنوں کے لئے قہر۔۔ میں نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو سونے کی چڑیا لوٹنے کا خواب آنکھوں میں سجائے یہاں آئے تھے مگر آخر انہیں بھی واپس ہی جانا پڑا۔ برصغیر کا بٹوارا بھی دیکھا اور فرنگی کو یہ دھرتی چھوڑتے بھی دیکھا۔ میں نے اس قلعے کو بھی بنتے دیکھا۔ یہاں ہونے والے ظلم، قیدیوں کی آہ و بکا اور ایس ایس جی کی سخت کمانڈو ٹرنینگ کا بھی گواہ ہوں۔ ہاں میں بھولا نہیں تو ظہیرالدین بابر کو نہیں بھولا۔ کیا انسان تھا۔ سچا، پکا، کھرا، بہادر، وفادار، رحم دل۔ اس نے مجھے کئی بار تیر کر پار کیا۔ باس! وہ میری موجوں سے یوں کھیلتا تھا جیسے میرا دوست نین کے نینوں سے کھیلتا ہے۔“
مشتاق جو بڑی دیر سے خاموش تھا، اس نے سندھو سے سوال کیا؛ ”سندھو جی!کچھ اٹک کے بارے بتاؤ۔“ سندھو کو تو بس بولنے کا موقع چاہیے، کہنے لگا؛ ”یہ بھی قدیم شہر ہے۔ سکندر اعظم کے وقت میں بھی یہ آباد تھا۔ اٹک خورد، ملاں منصور، ملاحی ٹولہ اُسی دور کی بستیاں ہیں۔ اشوک اعظم سے لے کر مغل اعظم تک اس جگہ کی اہمیت رہی ہے۔ ماضی کا یہ تاریخی شہر آج بھی اہمیت رکھتا ہے۔ وسط ایشیاء سے ہندوستان تک جانے کا واحد زمینی راستہ اور اُس دور کی قدرتی سرحد بھی۔ قدیم زمانے میں ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے اسی راستے سے گزرے مگر مجھے عبور کرنے میں انہیں ہمیشہ دشواری کا سامنا ہی رہا۔ گندھار ا تہذیب کے قریب تر ہونے کی وجہ سے بھی اس کی بڑی شہرت رہی ہے۔ ’گرینڈ ٹرنک‘ (جی ٹی) روڈ پر ہندو، بدھ اور مغل ادوار کی بھی بہت سی نشانیاں لب سڑک ہیں۔ ہنومان کے مندر کی عمارت تو اب زمانے کی شکست و ریخت کی کہانی سناتی اب وقت کے ہاتھوں ہار ہی چکی ہے، بس کچھ بچی شکستہ دیواریں ہیں جو دیکھنے والوں کا منہ چڑھاتی ہیں۔“
سندھو کنارے سولہویں صدی کی تعمیر شدہ مسجد سے اللہ اکبر کی صدا سنائی دے رہی ہے۔ سندھو کے جل ترنگ کے ساتھ مؤذن کی خوش الحانی بھی من میں اتری جا رہی ہے۔ میرا دل چاہا کہ میں یہیں بیٹھا رہوں اور وقت تھم جائے۔ ہم نے اسی مسجد میں شام کی نماز ادا کی ہے، جس کے بارے روایت ہے کہ اورنگ زیب نے بھی بہت سے نمازیں اسی مسجد میں ادا کی تھیں۔نماز ادا کر کے باہر آیا تو منظر بدل چکا ہے۔ سورج کی آخری کرنیں بھی جا چکی ہیں۔ شام تیزی سے اتر رہی ہے۔ شفق کے رنگ نمایاں ہو چکے ہیں۔ ذرا سی دیر میں آسمان ستاروں، جگنوؤں سے اور دھرتی برقی قمقموں سے جگمگا اٹھے گی۔ ایسے ہی سوہنے من موہنے منظر ہمیں آفاقی سمتوں کے سفر کی جانب مائل و متوجہ کرتے ہیں۔ میرا سفر تو سندھو سپت کی سنگت میں جاری ہے۔
مسجد کے باہر میرا دوست طہٰ حسین موجود ہے۔ میرا اس کا ساتھ اب ایک دھائی پرانا ہے۔ وہ کمال نفیس انسان ہے۔ یاروں کا یار۔۔ آج کل اس کی پوسٹنگ اٹک ہے۔ اس کے ساتھ دوسری گاڑی میں اس کا ڈرائیور عدیل اور اسسٹنٹ عامر بھی ہے۔ ہم اُن کے ساتھ ماضی کے کیمبل پور اور آج کے اٹک جا رہے ہیں، جہاں ہم رات بسر کریں گے۔ آسمان پر بادل ہیں۔ ہوا خوشگوار ہے۔
طہٰ کہنے لگا؛ ”سر! سفر تو اچھا ہی رہا ہوگا؟ سندھو کیسا لگا۔“ میں مسکرایا اور جواب دیا؛ ”بے شک اللہ کے کرم سے سفر بہت اچھا رہا۔سندھو عظیم ہی نہیں۔۔۔۔“ میں فقرہ کیا پورا کرتا نین بول پڑی! ”واقعی یہ دریاؤں کا باپ ہے۔ شہزاد کا دوست ویسے بھی بڑا دریا دل ہے۔ اس کے پیٹ سے کتنا ہی پانی ہم ہر سال نکالتے ہیں۔ اس پر بڑے بڑے ڈیمز بنائے ہیں۔ ہم نے پنجاب اور سندھ کی بنجر زمینوں کو سونا اگلتی دھرتی میں بدل دیا ہے۔ دنیا کے لئے یہ خطہ سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور شاید آج بھی ہے۔ سبھی اسے للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی زرخیزی لاجواب ہے۔ سندھو کا نہری نظام ہر سال خزانہ میں آبیانہ کی مدد میں کروڑں روپے جمع کرواتا ہے۔سندھو آج بھی اپنے خزانے اس دیس کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے دریا دلی سے خرچ کر رہا ہے۔ بنا کسی بوجھ کے بناء کسی لالچ کے باس۔“
شام ہو گئی ہے۔ پرندے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہم بھی تھکے ہارے رات بسر کرنے کے لئے محکمہ انہار کے ڈاک بنگلے پہنچے ہیں۔ سندھو سے ذرا ہٹ کر ایک اونچی چٹان پر واقع یہ ڈاک بنگلہ انگریز کے دور کا تعمیر شدہ ہے۔ اونچی چھتیں والے 3 آرام کمرے، کچی اینٹ کی موٹی دیواریں، چھت سے جھولتے لمبی راڈ والے پنکھے جن سے آتی گھوں گھوں کی آواز، کمروں کے گرد گھومتا برآمدہ۔ یہ عمارت مجھے میرا بچپن یاد دلا رہی ہے، جب اُس زمانے کے اکثر گھروں کی بناوٹ لگ بھگ ایسی ہی ہوتی تھی۔ اس پرانے ریسٹ ہاؤس کی نئی بات یہ ہے کہ ہر کمرے میں جدید اسپلٹ اے سی لگے ہیں، واش رومز میں جدید فرش، لاؤنج میں سفید ٹائیلز اور لان میں پلاسٹک کی کرسیاں رکھی ہیں۔ بس پچھلے سو برس میں ہم یہی تبدلی کر سکیں ہیں۔ ڈاک بنگلہ کی عمارت کے 3 اطراف وسیع ہرا بھرا لان ہے، جس میں بوڑھے چھاؤں دار درختوں میں ”بوڑھ اور شیشم“ نمایاں ہیں (اب تو ہم نے مقامی درخت ہی لگانے چھوڑ دئیے ہیں۔ نئی ورائیٹی کے پیچھے بھاگتے بھا گتے ہم اپنے گھنے اورچھاؤں دار درختوں سے بھی بہت دور ہو گئے ہیں۔ یہ بھی المیہ ہے۔) پھولوں کی خوبصورتی سے تراشی کیاریاں،صفائی سے کٹی گھاس، خوشبودار پودے، آج کے دور میں یہ افسانوی مگر بہت رومانوی جگہ ہے۔ لان کے گرد چاردیواری۔گیٹ پر کھڑا چوکیدار اورخدمت کے لئے ملازم۔ یہ ہے محکمہ انہار کا ڈاک بنگلہ۔(انگریز کے دور میں چار محکمہ جات محکمہ انہار، تعمیرات، مال اور ریلوے بہت اہم تھے۔ ان محکمہ جات کے افسران کے سرکاری گھر اور ڈاک بنگلہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔)
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔