جب جب ہمیں کوئی ایسی خبر سننے کو ملتی ہے کہ پڑوسی ممالک نے سائنسی یا معاشی میدان میں کوئی پیش رفت کی ہے تو ہم اپنے ملک کے خلاف میمز اور لطیفے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
خالص دیسی ماں باپ کی طرح جو پڑوسی کی اولاد سے ہمیشہ متاثر رہتے ہیں یا رشتے داروں کے بچوں کی مثالیں دے دے کر ہمیں تمام عمر احساس کم تری کا شکار کیے رکھتے ہیں۔
حالانکہ سوچتے سمجھتے وہ بھی نہیں اور اس کارِ خیر کی زحمت ہم بھی کم ہی کرتے ہیں کہ کسی کا بچہ کیونکر ترقی کیے چلا جا رہا ہے اور ہمارا بچہ کس وجہ سے مسلسل پیچھے رہتا چلا آ رہا ہے۔
حالانکہ آپ کے مطابق آپ نے بھی اپنے گھر میں وہ سب سہولتیں مہیا کر رکھی ہوتی ہیں جو کسی بھی اچھے گریڈز اور اچھی نوکری والے بچے کے ماں باپ نے دے رکھی تھیں تو ایسا کیا ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے نتائج ہمیں نہیں ملتے۔
بچے کو لا پروائی کے الزامات سے نوازنے کے علاوہ کیا کبھی ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم خود کہاں غلط رہے ہیں۔ ہم نے اپنی آنے والی نسل کو اپنی ناکامیاں اور ادھورے خواب تو وراثت میں منتقل کردیئے ہوتے ہیں، مگر انفرادی طور پر مجموعی کاز کے لیے اپنے حصے کا جو ضروری کام تھا وہ کیا یا نہیں؟
ہمیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو ہم نے نجی اداروں سے بغیر پڑھے ڈگریاں حاصل کیں اور تعلیم یافتہ کہلانے لگے۔
جب سائنسی میدان میں تحقیق کا وقت آیا تو کاپی پیسٹ سے کام چلایا اور ملک کو ہزاروں پی ایچ ڈی ہولڈر نوازنے کے بعد بھی ذہنی اور علمی معیار گراوٹ کا شکار ہی رہا۔
جدید ٹیکنالوجی اپنانے کا وقت آیا تو ہم نے صرف کمپیوٹر اور موبائلز خریدنے کی دوڑ میں خود کو شامل کر لیا، مگر یہاں سے سیکھا بھی تو دو نمبری، بلیک میلنگ، وقت کا ضیاع اور میمز بنانا۔
غربت، بے روزگاری، جہالت، انتہا پسندی، بدعت پسندی اور کرپشن میں ہم بحیثیت مجموعی مسلسل ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
ہمیں پہلے دن سے دنیا کی نمبر ون قوم ہونے کے جھوٹے غرور میں ایسا مبتلا کیا گیا کہ ہم آج تک اس مغالطے سے باہر آنے کے قابل بھی نہیں ہو پائے۔
ہمیں ہر طرح کے تاریخی اور قومی اندھیرے میں رکھا گیا تا کہ ہم تا قیامت اپنی غلطیوں پر نگاہ نہ کر سکیں۔
ہمارے سامنے ہماری شکست کو بھی ایسا بنا کر پیش کیا جاتا رہا کہ ہم یہ کہنے پر مجبور رہے کہ ’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔‘
اور پیار بھی ایسے والا کہ اس میں دراصل ہر طرح کی قربانی ہم دیتے چلے آ رہے ہیں اور ہمیں یہ لگتا رہا ہے کہ ہمارے لیے فلاں قربان ہو گیا اور ڈھمکاں جاگتا رہا تاکہ ہم سو سکیں، لیکن ہم حقائق سے بے خبر لگے بندھے نصاب کو رٹتے رہے اور اپنے لیے کوئی اچھا اور سچا رول ماڈل بھی خلق نہ کرسکے اور اگر ہو بھی تو رول ماڈل بھی کیسا اور کیا کہ جسے دیکھ کر ہم اپنی کل ہی سیدھی کر لیں۔
ہم نے نہیں سمجھا کہ فرسٹ ورلڈ کو صرف لباس اور حرکات میں ہی نقل نہیں کرنا ہے بلکہ ان کے دیگر اچھے اطوار بھی سیکھنے ہیں۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارا مذہب اخلاقیات کا جو درس دیتا ہے وہ مغرب کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسے ثابت بھی کرنا ضروری ہے کہ وہ اخلاقیات کہاں ہیں جو صرف زبانی کلامی بیان ہوتے ہیں، ان کی عملی صورت کدھر ہے۔
تھرڈ ورلڈ کی بی گریڈ موویز، ریلز، پورن وڈیوز اور اسکینڈلز کے علاوہ بھی یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ بالکل ہمارے ہی جیسے معاملات اور حالات کے باوجود کوئی ہمسایہ ملک دنیا کی معاشی دوڑ میں کس طرح نمایاں ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے کون سے عوامل ہیں جنہیں وہ کسی صورت ترک کرنے کو تیار نہیں۔ کیا سرحد کے اس پار مذہبی انتہا پسندی کم ہے؟
کیا وہاں غربت نہیں ہے، کیا جہالت کے اندھیرے نے انہیں روشنی کے دیو کے آگے پھینک دیا ہے؟
کیا وہاں طبقاتی سسٹم کو تعلیم نے مات دے دی ہے؟ کیا وہاں کے حکمران یکا یک نیک ہو گئے ہیں؟
ان سب کا جواب آپ ایک ہی لفظ سے دیں گے اور وہ ہے۔۔۔ نہیں!
لیکن پھر بھی اگر ہم سے الگ ہوئے دیگر خطے اچھے معاشی گراف کے حامل ہوتے جا رہے ہیں تو بھئی اپنے گریباں میں جھانک لیجیے۔
جب آپ کے پڑوسی اور رشتے دار آپ سے آگے بڑھ رہے ہوں تو اپنی زندگی گزارنے کی پالیسیوں پر نظر ثانی کر لیجیے، بعینہ ملکوں کی سطح پر بھی ہمارے بڑوں کو نفسا نفسی کے عالم سے نکل کر ملک کے سیاسی اور معاشی فیصلے بہتر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
ورنہ عوام غربت، جہالت، انتہا پسندی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ویلے تو ہیں ہی، میمز بھی اچھی بنا ہی رہے ہیں اور کچھ تو ان میمز، مزاحیہ ویڈیوز اور بی اور سی گریڈ مواد کی تشکیل سے پیسہ بھی کما رہے ہیں، لیکن فکر اس بات کی ہے کہ ایسے اطوار کے نتیجے میں ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)