پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے 75 فیصد تک زیادہ بارشیں ہوئیں: تحقیق

ویب ڈیسک

ماہرین پاکستان میں رواں سال مون سون میں ہونے والی تباہی کو ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیتے رہے ہیں، لیکن اب ایک حالیہ سائنسی تحقیق نے بھی اپنے تجزیے میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زیادہ تباہی موسمیاتی تبدیلی کے ہی باعث ہوئی

سائنسی بنیادوں پر یہ تحقیق موسمیاتی تبدیلی کے جائزے کے ادارے ’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن‘ نے کی ہے، جو بدترین موسمی حالات پر سائنسی تحقیق کرتا ہے

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معمول سے 50 سے 75 فیصد زیادہ بارش موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی، جس کے بعد سیلابی صورتحال سے 1400 سے زائد اموات ہوئیں اور تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہو کر رہ گئی

یہ پہلی بار ہے کہ کسی سائنسی مطالعے میں بارشوں اور سیلابوں کی شدت سے موسمیاتی تبدیلی کے پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہو

اس تحقیق میں دس ممالک سے چھبیس محققین نے حصہ لیا، جنہوں نے سائنسی ماڈل اور تاریخی ڈیٹا کی مدد سے یہ جانچنے کی کوشش کی کہ ایسا شدید سیلاب تب بھی آتا اگر 1800 کے آخر سے دنیا کے درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ اضافہ نہ ہوا ہوتا

اس اسٹڈی میں دو ڈیٹا سیٹ استعمال ہوئے، جس میں پاکستان کے سب سے بڑے دریا، دریائے سندھ میں جون اور ستمبر کے مہینوں میں ساٹھ دنوں تک تیز بارشوں کا تجزیہ کیا گیا

دوسرے سیٹ میں پانچ دن کے دوران بارشوں کی شدت کا اندازہ سندھ اور بلوچستان میں لگایا گیا، جو بدترین سیلابی صورت حال کا شکار ہوئے

سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کی شدت میں اضافہ 75 فیصد تک پایا گیا، جبکہ ساٹھ دنوں تک ریکارڈ کی گئیں بارشوں کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا

مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان بھر میں اس سال اگست میں تین گنا زیادہ بارشیں دیکھنے میں آئیں، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب سات اور آٹھ گنا زیادہ ماہانہ بارشیں دیکھنے کو ملیں

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس طرح کے واقعات ہر سو سال میں ایک بار ہوسکتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں، گرمی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہر سال واقع ہونے کا ایک فیصد امکان ہے

اسٹڈی کے مطابق: ’یہی واقعہ شاید ایسی دنیا میں بہت کم ہوتا، جہاں انسانوں کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نہ ہوتے، مطلب کہ موسمیاتی تبدیلی نے ممکنہ طور پر شدید بارشوں کو بہت حد تک ممکن بنا دیا‘

عالمی پیرس معاہدے میں درج 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک عالمی درجہ حرارت کو محدود کرنے کی کوششوں کے باوجود اس طرح کے واقعات کے زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ یہاں تک کے دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے بھی صورتحال ابتر ہو سکتی ہے

سائنسی ادارے کی شریک سربراہ اور گرانتھم انسٹیٹیوٹ میں موسمیاتی سائنس کی سینیئر لیکچرر ڈاکٹر فریڈریکے اوٹو کے بقول ’ہمارے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے اس واقعے میں ایک اہم کردار ادا کیا، حالانکہ ہمارے تجزیے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کتنا بڑا کردار تھا‘

ڈاکٹر اوٹو نے کہا کہ حساب کی غیر یقینی کی وجہ یہ ہے کہ اس خطے کا ایک سال سے دوسرے سال تک موسم بہت مختلف ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مشاہدہ شدہ ڈیٹا اور آب و ہوا کے ماڈلز میں طویل مدتی تبدیلیوں کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے

انہوں نے مزید کہا ’تاریخی ریکارڈ کے مطابق بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں جب سے انسانوں نے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسوں کو فضا میں خارج کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے تیز بارش میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اور ہمارا اپنا تجزیہ بھی واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ گرمی میں مزید اضافہ ان تیز بارشوں کی شدت میں اضافہ کر دے گا‘

موسمیاتی بحران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موسمی نظام کی تبدیلیوں جیسے مشرقی مون سون بارشوں اور خطے میں مغربی اثرات میں بھی اس نے کردار ادا کیا ہے، جس کی طرف ماہرین موسمیات کافی عرصے سے اشارہ کر رہے ہیں

دریاؤں میں طغیانی میں گلیشیئرز کے پگھلنے کے کردار کا بھی ذکر کیا گیا، جو کہ اپریل سے مئی میں مہلک ہیٹ ویو کی وجہ سے تیزی سے پگھلے، جب پاکستان کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا

پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو قطبین کے باہر کسی بھی ملک کے لیے سب سے زیادہ ہیں

تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تباہی کے پیمانے کے پیچھے بھی متعدد عوامل موجود ہیں۔ پاکستان کے انفراسٹرکچر کی کمزوریوں، آبادی کے اضافے، غربت کی شرح اور سیاسی عدم استحکام نے اسے پہنچنے والے نقصان میں بہت بڑا کردار ادا کیا

لیکن ان سب عوامل اور امیر ممالک کی جانب سے پیدا کردہ موسمی تبدیلی کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 27 میں اپنا کیس مضبوط انداز میں پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں

واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں ہونے والے چھیالیس سب سے کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) کے بلاک کے وزرا اور ماہرین نے کہا کہ ان کے ممالک سب سے زیادہ آب و ہوا کے اثرات سے دوچار ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یعنی کاربن کے اخراج میں ان کا سب سے کم حصہ ہے

دنیا کے غریب ترین ممالک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر اصرار کریں گے کہ اقوام متحدہ کے آئندہ موسمیاتی مذاکرات کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کے خطرے سے دوچار اقوام کو معاوضہ دینے کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجاویز پر زور دیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close