کچے گوشت اور بغیر اُبلے دودھ سمیت وہ غذائیں، جو آپ کو موت کے منہ میں لے جا سکتی ہیں!

ویب ڈیسک

سترہ سالہ اسٹیفنی انگبرگ ڈومینیکن ریپبلک میں چھٹیوں پر اپنے والدین کے ساتھ اچھی بھلی زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنی فلائیٹ سے قبل انہیں اپنے پیٹ میں کچھ خرابی محسوس ہوئی، لیکن انہوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور جب وہ جزیرے پر پہنچیں تو وہ تھوڑا بہتر محسوس کر رہی تھیں۔ رات کے وقت ان کو پھر گڑبڑ کا احساس ہوا تاہم ہسپتال پہنچنے تک ان کو دوبارہ افاقہ محسوس ہونے لگا

لیکن اگلی صبح تک ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ اپنی والدہ تک کو نہیں پہچان پا رہی تھیں، اُن کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، ان کے دماغ میں سوجن ہو چکی تھی اور ان کے جسمانی اعضا میں مسلسل کپکپاہٹ تھی

ان کے والدین انہیں ہنگامی طبی امداد کے لیے ہسپتال لے کر پہنچے، جہاں ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ ان کی بیٹی ’ای کولی بیکٹیریل انفیکشن‘ کا شکار ہے۔ ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے بدتر ہوتی چلی گئی، وہ کوما میں چلی گئیں

اسٹیفینی زندہ تو بچ گئیں لیکن شاید عمر بھر انہیں اس کے نتائج انھیں بھگتنے پڑیں گے۔ اب انہیں اپنے گردوں کے افعال کو درست کرنے کے لیے ہر روز دوائیں لینا پڑتی ہیں

اسٹیفینی نیٹ فلکس کی ایک نئی دستاویزی فلم کے ستاروں میں سے ایک ہیں، جو اس بات کو سامنے لائی ہیں کہ ہماری فوڈ چین میں حفظان صحت کی خرابیاں صارفین کے لیے کتنے تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہیں

بل مارلر ایک فوڈ سیفٹی اٹارنی ہیں، جنھوں نے تیس سال تک ای کولی، سلامونیا اور لسٹیریا جیسے مہلک جرثوموں سے ہونے والی فوڈ پوائزننگ سے متاثر ہونے والے افراد کی رہنمائی کی ہے۔ وہ نیٹ فلکس کی اس نئی دستاویزی فلم میں بھی حال ہی میں نظر آئے ہیں

بل مارلر دستاویزی فلم میں کہتے ہیں ”اس بات کا امکان ہے کہ اسٹیفنی کو گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹیشن) کی ضرورت ہوگی اور انہیں ساری زندگی ڈائیلاسز پر رہنا پڑے گا۔ آپ کبھی بھی اپنی صحت کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سننا چاہیں گے کہ آپ نے کوئی کھانا کھایا اور پھر اس کے اثرات پوری زندگی آپ کی صحت پر رہیں“

قسٹیفینی ان چھ سو ملین افراد میں سے ایک ہیں، جو عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال آلودہ کھانا کھانے سے بیمار ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ ان چار لاکھ بیس ہزار افراد میں شامل نہیں ہیں، جو ہر سال ایسے کھانے کھا کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں

بل مارلر کے مطابق آپ جو کھاتے ہیں، اس کا جائزہ لینے سے آپ کی جان بچ سکتی ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے یہ وہ غذائیں ہیں جن سے آپ کو پرہیز کرنا چاہیے

بل مارلر نے حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کھانوں کے بارے میں بتایا، جن کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے پرہیز کرنا چاہیے، ہم ذیل میں اس کی تفصیل دے رہے ہیں

کچا دودھ:
مارلر نے قانونی چارہ جوئی کے دوران جو تجربہ حاصل کیا ہے، اس کی وجہ سے انہوں نے کچے دودھ (بغیر اُبلا دودھ) یا کچے جوس والی مصنوعات کو ترک کر دیا کیونکہ ان اشیا میں ای کولی بیکٹیریا کا خطرہ پایا جاتا ہے، جس نے اسٹیفینی کو اتنا بیمار کیا تھا

مارلر کے مطابق ”کچے دودھ کا صحت سے متعلق کوئی بھی فائدہ سائنسی طور پر قابل بھروسہ نہیں۔ لوگ ان بیماریوں کو بھول گئے ہیں جو انیسویں صدی میں موجود تھیں اور جن کا باعث بغیر ابلا دودھ تھا“

بیج سے پھوٹتی کچی کونپلیں:
مارلر خام سپراوٹ یا بیجوں سے پھوٹنے والی کچی کونپلوں کو بھی نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ ان کھانوں کو دنیا میں فوڈ پوائزننگ کے کچھ بدترین واقعات سے جوڑا گیا ہے۔ 2011 میں میتھی کے بیجوں سے منسلک ایک وبا کی وجہ سے نو سو افراد جگر کے عارضے میں مبتلا ہوئے اور اس میں پچاس سے زیادہ کی اموات ہوئیں

مارلر بتاتے ہیں ”جب بیج سے باہر پودا پھوٹتا ہے تو بیج آلودہ ہو جاتے ہیں۔ جب آپ انہیں اگنے کے لیے ایک اچھے پانی کا غسل دیتے ہیں تو آپ ان میں بیکٹیریا کے پنپنے کے لیے ایک بہترین موقع دیتے ہیں۔ میں فوڈ سیفٹی انڈسٹری میں کسی ایک فرد کے بارے میں نہیں جانتا جو کونپلوں کو کچا کھاتا ہو“

کچا یا مناسب طریقے سے نہ پکایا گیا گوشت:
جب گوشت کا قیمہ کیا جاتا ہے تو ای کولی کی باقیات اس میں پھیل جاتی ہیں۔ پسے ہوئے گوشت کے ساتھ گوشت کی سطح پر موجود مضر صحت بیکٹیریا اس میں گھل مل سکتے ہیں

مارلر کہتے ہیں کہ اسی لیے گوشت کو اچھی طرح پکانا بہت ضروری ہے، بصورتِ دیگر آپ کو شدید بیمار ہونے کے لیے بہت زیادہ بیکٹیریا کی ضرورت نہیں ہوگی

تقریباً پچاس ای کولی بیکٹیریا آپ کو مارنے کے لیے کافی ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ایک سوئی کی نوک پر تقریباً ایک لاکھ بیکٹریا سما سکتے ہیں

مارلر کہتے ہیں ”یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے آپ دیکھ سکیں، چکھ یا سونگھ سکیں۔ واحد محفوظ طریقہ یہ ہے کہ گوشت کو اچھی طرح پکایا جائے”

وہ تجویز کرتے ہیں ”آپ اصرار کریں کہ گوشت سے بنے برگر کو 155 ڈگری فیرن ہائٹ 155 یا 69 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہِ حرارت پر پکایا جائے تاکہ ہر قسم کے بیماری کا سبب بننے والے جراثیم کو ختم کیا جا سکے

وہ پھل اور سبزیاں، جنہیں مناسب طریقے سے دھویا نہ گیا ہو:
نیٹ فلکس دستاویزی فلم میں فوڈ سیفٹی کنسلٹنٹ منصور صمدپور نے بتایا کہ جب آپ ہیم برگر کھاتے ہیں تو سب سے خطرناک حصہ ہیم برگر نہیں بلکہ سلاد پتہ، پیاز اور ٹماٹر ہوتا ہے

سنہ 2006 میں پالک سے منسلک ای کولی کی ایک بڑی وبا پھیلی جس میں دو سو سے زیادہ لوگ بیمار ہو گئے اور امریکہ میں پانچ ہلاکتیں ہوئیں

بیکٹیریل آلودگی کا پتہ کیلیفورنیا میں پالک کے فارم سے لگایا گیا تھا، جس میں جانوروں کی مداخلت کی کچھ شکل تھی یعنی جانوروں کے فضلے نے پالک کو بیکٹریا سے آلودہ کر دیا تھا

جب انہیں کاٹ کر فیکٹری میں بھیجا گیا تو وہاں انہیں تین بار دھویا گیا لیکن اس عمل کے دوران بیکٹریا محدود رہنے کے بجائے پھیل گئے اور وہاں سے ہونے والی سپلائی کے ذریعے یہ جراثیم زدہ پالک ملک کے طول و عرض میں چلی گئی، جس سے سینکڑوں افراد بیمار ہو گئے

مارلر کہتے ہیں ”کیا یہ بات خطرے سے خالی نہیں کہ سلاد کو زیادہ سے زیادہ لوگ صرف اس سہولت کے لیے سنبھالیں کہ اسے دھونا نہ پڑے؟ اگر زیادہ لوگ اسے چھوتے ہیں اور یہ آلودہ ہو جاتا ہے تو یہ بہت تیزی سے پھیل جاتا ہے“

کچے یا کم پکے ہوئے انڈے:
انڈوں سے خطرہ سالمونیلا کے ممکنہ انفیکشن سے آتا ہے، یہ ایک عام بیکٹیریا ہے، جو اسہال، بخار، الٹی اور پیٹ میں درد کا سبب بن سکتا ہے۔ بہت کم عمر یا بہت بوڑھے لوگ اس بیکٹیریا کے انفیکشن سے شدید بیمار ہو سکتے ہیں یا ان کی جان بھی جا سکتی ہے

حالیہ تاریخ میں انڈوں سے متعلق بہت سے تباہ کن واقعات ہوئے ہیں۔ سنہ 1988 میں ممکنہ سالمونیلا پھیلنے کے خوف سے برطانوی حکومت نے بیس لاکھ مرغیوں کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ سنہ 2010 میں اسی طرح کے ایک کیس کی وجہ سے امریکہ میں تقریباً پانچ سو ملین انڈے تلف کیے گئے

مارلر کا کہنا ہے کہ اگرچہ آج کے انڈے پرانے زمانے کے انڈوں سے زیادہ محفوظ ہیں، لیکن پھر بھی احتیاط برتنی چاہیے

وہ خبردار کرتے ہیں کہ سالمونیلا اب بھی کچے یا کم پکے ہوئے انڈوں کے صارفین کے لیے ناقابلِ قبول خطرہ ہے

دس ہزار میں سے ایک انڈے کے خول کے اندر سالمونیلا ہوتا ہے۔ مرغی اپنی بیضہ دانی میں سالمونیلا پیدا کر سکتی ہے، جو وہاں سے انڈے میں داخل ہو جاتا ہے

خام سِی فوڈ:
سیپ اور دیگر شیلفش کے ساتھ خطرہ یہ ہے کہ انہیں فلٹر کی طرح (سالم) کھایا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانی میں بیکٹیریل یا وائرل انفیکشن ہے تو یہ یقینی طور پر فوڈ چین میں آسانی سے داخل ہو جائے گا

مارلر کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مسئلہ مزید بڑھ رہا ہے۔ ”گرم سمندروں کے ساتھ سیپ سے متعلق آلودگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے: ہیپاٹائٹس، نوروائرس، وغیرہ۔ میں سیئٹل سے ہوں، اور دنیا کے کچھ بہترین سیپ شمال مغربی امریکہ سے آتے ہیں، لیکن واضح طور پر ہمارے پانی کے معیار اور درجہ حرارت سے متعلق مسائل ہیں۔ یہ ایک نیا خطرے کا عنصر ہے جسے آپ کو ان کچے سیپوں کا آرڈر دیتے وقت ذہن میں رکھنا پڑتا ہے“

پیک شدہ سینڈوچز:
مارلر مشورہ دیتے ہیں کہ ’آپ کو ان سینڈوچز پر احتیاط سے تاریخیں چیک کرنا چاہییں۔ کوشش کریں کہ وہ کھانا کھائیں، جو یا تو آپ خود بناتے ہیں یا آپ کے سامنے تیار کیا جاتا ہے۔‘

مارلر کہتے ہیں کہ سینڈوچ جتنا پرانا بنایا گیا ہوگا، اتنا ہی اس کے اندر خطرناک بیکٹیریا، لیسٹیریا مونوسیٹوجینز کی موجودگی کا خطرہ ہو سکتا ہے

ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ اور دنیا بھر میں سب سے بڑے ’قاتلوں‘ میں سے ایک ہے، اور اس کو کھانے والا تقریباً ہر شخص ہسپتال کا رُخ کر سکتا ہے

لیسٹیریا ریفریجریٹر کے درجہ حرارت میں بہت اچھی طرح بڑھتا ہے، لہٰذا اگر کوئی آپ کو سینڈوچ بنا کر دیتا ہے اور آپ اسے تقریباً فوراً کھا لیتے ہیں، تو لیسٹیریا کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اگر وہ اسے بناتے ہیں اور آپ اسے کھانے سے پہلے ایک ہفتہ تک فریج میں رکھتے ہیں، تو اس سے لیسٹیریا کے جرثومے کو اتنی تعداد میں بڑھنے کا موقع ملے گا کہ وہ آپ کو بیمار کر دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close