حکومت نے انسانی جان بچانے والی متعدد ادویات سمیت 25 دواؤں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں، جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے
وزارت قومی صحت (این ایچ ایس) کے ترجمان ساجد شاہ نے بتایا کہ تمام مالیکیولز نئے ہیں اور ان کی منظوری پی ڈی ایم کی حکومت نے دی تھی
ان کا کہنا تھا ”ڈریپ نے مالیکولز کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے تاکہ کمپنیاں اس سے زائد نرخ پر اپنی مصنوعات فروخت نہ کریں، تاہم کمپنیاں کم قیمت پر ادویات فروخت کر سکتی ہیں“
نوٹیفکیشن کے مطابق ان دواؤں میں بلڈ پریشر اور خون کی شریانیں کھولنے والی گولیوں، مختلف بیماریوں کے انجیکشن، گولیاں، انہیلر اور سیرپ وغیرہ شامل ہیں
دستیاب دستاویز کے مطابق لورویقیوا 100 ملی گرام کی 30 گولیوں کی خوردہ قیمت 8 لاکھ 46 ہزار 857 روپے ہے، جو پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے، . زربکسا کے 10 ساشے ایک لاکھ 53 ہزار 566 روپے میں دستیاب ہوں گے، جو پیشاب کے انفیکشن کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اسی طرح چھاتی کے کینسر میں استعمال ہونے والی ایبرانس کی 7 گولیاں 74 ہزار 510 روپے میں دستیاب ہوں گی
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پیراسیٹامول اور ڈیفن ہائیڈرمائن ہائیڈروکلورائیڈ کے امتزاج کی 20 گولیوں کی خوردہ قیمت 192 روپے ہوگی، یہ دوا نیند کی دشواری سے متعلق درد (سر درد، درد شقیقہ، کمر درد، گٹھیا) میں عارضی ریلیف کے لیے دی جاتی ہے
اس میں کہا گیا ہے کہ بلاسٹین کی 50 گولیاں 1723 روپے میں دستیاب ہوں گی، یہ الرجک رائنوکونجیکٹیوائٹس کی علامات کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے
ٹریلاگلپٹن کی 50 ایم جی کی 14 گولیاں کی قیمت 10 ہزار 263 روپے ہوگی، یہ دوا ٹائپ 2 ذیابیطس ملیٹس (ٹی 2 ڈی ایم) کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اسی برینڈ کی 100 ملی گرام کی گولیاں 17 ہزار 105 روپے میں دستیاب ہوں گی، مزید بتایا گیا کہ ٹوفاسنیب کی 10 گولیوں کی خوردہ قیمت 26 ہزار 710 روپے ہوگی
نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ کینسر میں استعمال ہونے والے پولیوی 30 ملی گرام کے ایک انجیکشن کی قیمت 3 لاکھ 20 ہزار روپے ہوگی
گٹھیا کے لیے استعمال ہونے والی ایٹنرسیپ 50 ملی گرام کی ایک شیشی 26 ہزار 400 روپے میں دستیاب ہوگی، ہیپاٹائٹس بی کے امیونوگلوبلین کا انجیکشن 10 ہزار 275 روپے ہوگی
لاہور کے علاقے رحمٰن پورہ کی رہائشی ثمینہ نعیم کینسر کی مریضہ ہیں اور انہیں کیمو تھراپی کے بعد ایک مخصوص انجکشن ہر ماہ لگوانا لازمی ہے، لیکن قیمتوں میں اضافے کے باعث وہ شدید پریشان ہیں۔
ثمینہ بتاتی ہیں ”میں ایک سال سے کینسر کی مریض ہوں اور لاہور کے انمول ہسپتال میں میرا علاج چل رہا ہے۔ دو بچے ہیں اور خاوند فوت ہو چکے ہیں، میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گزارہ کرتی ہوں۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے تو اپنی دوا اور وہ بھی مہنگی کیسے خریدوں؟“
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے خاوند کی وفات کے بعد ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو انمول ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان کا علاج شروع کیا۔ انہیں ہر ماہ کیمو تھراپی کروانا ہوتی ہے، جس کے بعد ایک انجکشن لگایا جاتا ہے
ثمینہ کہتی ہیں ”انجیکشن شروع میں چار ہزار روپے کا تھا، پھر چھ ہزار روپے کا ہوا، مگر اب اس کی قیمت 10 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے“
پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین منصور دلاور کے مطابق ”پاکستان میں بننے والی دواؤں کے لیے خام مال انڈیا اور چین سمیت دیگر ممالک سے آتا ہے، جس کی خریداری ڈالرز میں کرنی پڑتی ہے۔ ہماری معیشت کی صورت حال اور ڈالرز کی قلت کے باعث ہمیں خام مال مہنگا خریدنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے دوائیوں کی قیمت پر اثر پڑتا ہے“
لیکن ڈرگ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اسحاق میو اور ڈرگ ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما امین خالد اس دعوے کے برعکس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں
امین خالد کا کہنا ہے ”پاکستان میں صرف ایسی دوائیں ہی نہیں جن کی تیاری کے لیے خام مال دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے بلکہ ان دوائیوں کے ریٹ بھی زیادہ ہیں، جن کا خام مال مقامی طور پر حاصل ہوتا ہے“
انہوں نے بتایا ”گلوکوز سمیت کئی اشیا ایسی ہیں جن کا خام مال بھی پاکستان سے ملتا ہے لیکن ان کی قیمت بھی زیادہ ہی ہے۔ کئی غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں یہاں ادویات تیار کرتی ہیں مگر ریٹ وہ بھی ڈالر کے حساب سے ہی رکھتی ہیں“
ڈرگ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اسحاق میو کا کہنا ہے ”جب سے معاشی بحران آیا ہے، ایک ڈیڑھ سال میں ادویات کی قیمتیں چھ سے سات بار بڑھ چکی ہیں اور ان میں 18 سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دویات ساز کمپنیاں منافع بڑھانے کے لیے اکثر دواؤں کی قلت پیدا کر کے رکھتی ہیں تاکہ حکومت ان سے بلیک میل ہو کر قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے“
انہوں نے بتایا کہ ایسی ادویات جن کے لیے خام مال بیرون ملک سے آتا ہے ان کے علاوہ مقامی سطح سے خام مال لے کر تیار ہونے والی دوائیوں کے ریٹ بھی مرضی سے طے کیے جاتے ہیں
”بلوچستان میں کئی ادویات ساز غیر ملکی کمپنیاں یہیں سے جڑی بوٹیاں حاصل کر کے دوائی بناتی ہیں لیکن تیار کرکے بیرون ملک اپنے دفاتر بھجوا کر بار کوڈ لگاتی ہیں۔ ان ادویات کا ریٹ بھی غیر ملکی ادویات کے برابر رکھا جاتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کمپنیوں کی بلیک میلنگ ختم کرکے مخصوص مدت کے لیے قیمتوں کا فارمولہ طے کریں تاکہ مارکیٹ میں بھی استحکام پیدا ہو اور شہریوں کو بھی ادویات سستی ملیں“
اسحاق میو کہتے ہیں ”جب بھی ادویات کی خریداری کرتے ہیں، اس کی خریداری کے وقت ریٹ کم ہوتا ہے لیکن جب انوائس آتی ہے تو اکثر ہی قیمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے، لہٰذا ہم مال اس وقت تک پوری طرح مارکیٹ میں اسٹورز پر سپلائی کرنے سے گریز کرتے ہیں جب تک انوائس نہ مل جائے تاکہ ہم بھی اس کے مطابق ریٹ طے کریں“
خیال رہے کہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈپارٹمنٹ نے پنجاب کے نگران وزیر صحت پروفیسر جاوید اکرم کی اہلیہ کی ملکیتی کمپنی کی تیار کردہ دوائیوں کی ایک کھیپ کو بدھ (23 اگست) کو غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ قرار دیتے ہوئے اسے مارکیٹ سے واپس منگوانے کی ہدایات جاری کی ہیں اور قرار دیا ہے کہ یہ لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں
کمپنی کی مالک شہلا جاوید کے بقول ’محکمہ صحت کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جو ادویات پکڑی گئیں، ان میں پیراسیٹامول دوا کے نمونے موجود تھے، جو بذات خود ایک محفوظ دوا تھی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی نے مریضوں کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلے ہی دوا کے اس بیچ کو مارکیٹ سے رضاکارانہ طور پر واپس بلانے کی ہدایات جاری کر دی تھیں۔