طبی ماہرین کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے، ”ہم ایک عرصے سے کوشش کر رہے ہیں لیکن حمل نہیں ٹھہر رہا۔‘‘ لیکن اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ تقریبا 40 فیصد ایسے کیسز میں عورت کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرتا اور 40 فیصد کے ذمہ دار مرد ہوتے ہیں۔ باقی 20 فیصد کیسز میں کوئی واضح وجہ نہیں بتائی جا سکتی
مگر ہوتا یہ ہے کہ اکثر اوقات اولاد نہ پیدا ہونے کی وجہ صرف عورت میں تلاش کی جاتی ہے اور اس کا ذمہ دار بھی عورت ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے
اس تصور کے حوالے سے جرمن شہر میونسٹر میں یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ کلینیکل اینڈ آپریٹیو اینڈرولوجی سے وابستہ زابینے کلیش کہتی ہیں کہ یہ خواتین ہی ہیں، جو بچوں کو جنم دیتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ روایتی تصور بھی انہی کے بارے میں ہے کہ بچہ نہ پیدا ہونے میں ان کا قصور ہے
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر حمل کا ٹیسٹ بارہ ماہ کے بعد بھی مثبت نہیں آتا تو اسے بانجھ پن سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بچے کی خواہش رکھنے والے دس سے پندرہ فی صد جوڑے اس کا شکار رہتے ہیں۔ محققین کے مطابق یہ شرح دنیا کے تقریباً ہر خطے میں یکساں ہے
بانجھ پن کی وجوہات
خواتین میں بے اولادی کی بنیادی وجوہات ہارمونل عوارض، پولی سسٹک اوورین سنڈروم (پی سی او ایس)، اینڈومیٹری اوسس یا فیلوپین ٹیوب سسٹم میں خرابی ہیں
اگر کوئی مرد بانجھ ہے تو اس کی وجہ عموماً اس کے اسپرمز کی ناقص کوالٹی یا ناکافی مقدار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اسپرمیوگرام ٹیسٹ مزید وضاحت فراہم کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسپرمز کے نمونے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اسپرمز کی تعداد، شکل اور نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے
زابینے کلیش بتاتی ہیں، ”جب ہم اسباب تلاش کرتے ہیں، تو ان کا اکثر خصیوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ خصیے تھیلی سے اوپر ہوتے ہیں، جن کا بچپن میں ابتدائی طور پر علاج نہیں کیا گیا ہوتا‘‘
خصیے اگر لٹکے ہوئے نہ ہوں اور پیٹ کے اندر گھسے ہوں تو اس طرح اسپرمز کی کوالٹی شدید متاثر ہوتی ہے، تاہم اس کا علاج موجود ہے
ڈاکٹر زابینے کلیش کے مطابق ”اگر ناقص خصیوں کو بہت دیر سے درست کیا جائے تو ان کو مستقل نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ پھر انزال میں اسپرم نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں اور آدمی قدرتی طور پر افزائش کے قابل نہیں رہتا‘‘
علاج کا امکان اور تھراپی
اگر بے اولادی واضح طور پر مرد کی وجہ سے ہے تو سب سے پہلا اقدام یہ ہے کہ کسی ماہر اینڈرولوجیکل یا یورولوجیکل سے چیک اپ کروایا جائے۔ اگر ٹیسٹ میں اس بات کی نشاندہی ہو کہ منی کا معیار ٹھیک نہیں ہے تو پھر ’ان وٹرو فرٹیلائزیشن‘ کا امکان موجود ہے
علاج کے اس طریقہ کار میں ایک محنت طلب عمل کے تحت صحت مند اسپرمز کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب سے زیادہ چُست اسپرم کو منتخب کر لیا جاتا ہے، جو پھر عورت کی بیضہ دانی میں چھوڑا جاتا ہے
اگر ٹیسٹ سے یہ پتہ چلے کہ انزال میں کوئی اسپرم ہی نہیں ہے تو پھر حمل ٹھہرانے کے لیے ایک مخصوص عمل کے تحت خصیوں یا بالائی خصیوں سے براہ راست اسپرم نکالے جاتے ہیں۔ پھر ان اسپرمز کے ذریعے مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرایا جاتا ہے
اسپرمز کا معیار بہتر بنانے کے لیے کیا کیا جائے؟
اسپرمز کے معیار کو بڑھانے کے لیے مرد یقیناً خود بھی کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر زابینے کلیش کہتی ہیں، ”ہم کافی تعداد میں ایسے نوجوان دیکھ رہے ہیں، جن کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہارمونل عدم توازن پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔ وزن کی کمی میں انسان خود کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں، ”ایک اور نکتہ تمباکو نوشی ہے۔ تمباکو نوشی نطفے کی کارکردگی کو نصف حد تک کم کر دیتی ہے۔‘‘
غیر صحت مند طرز زندگی، غیر متوازن خوراک، سگریٹ نوشی اور شراب کے استعمال سے اسپرمز کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس سلسلے میں اقدامات اسپرمز کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کر سکتے ہے۔ ماحولیاتی زہریلے مادوں، جیسے کہ کیڑے مار ادویات اور بھاری دھاتوں سے جہاں تک ممکن ہو گریز کیا جانا چاہیے۔ ایسے ہی ذہنی تناؤ یا اسٹریس سے بھی بچنا چاہیے۔
جذباتی مسائل
عورت کا حاملہ ہوئے بغیر جتنا زیادہ وقت گزرتا ہے، نفسیاتی بوجھ بھی اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زابینے کہتی ہیں، ”یہ ایک شدید جھٹکا ہوتا ہے، جب دنیا کی سب سے قدرتی چیز کام نہیں کرتی۔ آپ کے آس پاس کے جوڑے خوش ہیں اور یہ آپ کو مسائل درپیش ہیں۔‘‘ جب مردوں کو معلوم ہوتا ہے کہ بے اولادی ان کے اندر پائے جانے والے کسی نقص کی وجہ سے ہے تو وہ اکثر اپنے آپ پر شک کرنے لگتے ہیں، یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں میں مایوسی دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور ان کو اپنے ہی جسم پر غصہ آنا شروع ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے کام نہیں کرتا، جیسا وہ چاہ رہے ہوتے ہیں
بچے کی خواہش جتنی زیادہ توجہ کا مرکز بنتی ہے، میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زابینے کہتی ہیں کہ ایسے جوڑوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنا ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بے اولادی کو ذاتی ناکامی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ بے اولاد جوڑوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے
مردوں میں بانجھ پن کے حوالے سے اہم انکشافات
ایک اور تحقیق میں انسانی جینوم کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، سائنسدان طویل عرصے بعد مردوں میں پائے جانے والے ’وائی‘ کروموسوم کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں، جس کی مدد سے مردوں میں بانجھ پن پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی جا سکتی ہے
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے 23 اگست کو مردوں میں پائے جانے والے ’وائی‘ کروموسوم کی پہلی بار مکمل ترتیب دکھائی ہے
خیال رہے کہ انسانوں کے ہر خلیے میں کروموسومز کی 23 جوڑیاں ہوتی ہیں، یعنی 46 کروموسومز ہوتے ہیں
ان میں سے 22 جوڑیاں مردوں اور عورتوں میں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں، لیکن صرف 23ویں جوڑی میں فرق ہوتا ہے، جسے ایکس کروموسوم کہا جاتا ہے۔ خواتین میں 2 ایکس کروموسوم ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں ایک ایکس اور ایک وائے کروموسوم ہوتا ہے
امریکا میں نیشنل ہیومن جینوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسٹاف سائنسدان اور نیچر جریدے کے ایک تحقیقی مقالے کے مصنف آرانگ رائی کا کہنا ہے ”میرے خیال میں جینیاتی معلومات کو پڑھنے اور کمپیوٹر کے استعمال کے نئے طریقوں میں ہونے والی پیش رفت اس کامیابی کی بنیادی وجوہات ہیں“
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی پروفیسر کیرن میگا کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ پہلی بار وائی کروموسوم کا پورا کوڈ دیکھ سکتے ہیں، ہم نے کروموسوم کی لمبائی کا 50 فیصد سے زیادہ کوڈ دریافت کیا ہے، جو اس سے قبل جینوم کے نقشوں پر واضح نہیں تھا
دوسری جانب ’ایکس‘ کروموسوم کی ترتیب 2020 میں شائع ہوئی تھی، لیکن سائنسدان اب تک وائی کروموسوم کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پارہے تھے، جس کی وجہ سے انسانی جینوم کو پڑھنے میں ایک بہت بڑا خلا موجود تھا
شریک مصنف مونیکا سیچووا کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات انسانی بیماریوں کا مطالعہ کرتے ہوئے سانسدان ایکس کروموسوم اور جینوم پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے تھے، جس کی وجہ سے مردوں میں پایا جانے والا وائی کروموسوم مطالعے کے دوران کسی حد تک نظر انداز یا خارج کر دیا جاتا تھا
دوسرے کروموسوم کے مقابلے میں وائی کروموسوم انسانی جینوم میں سب سے چھوٹا اور زیادہ تیزی سے تبدیل ہوتا ہے
تحقیق میں وائی کروموسوم کے ان حصوں کے بارے میں اہم چیزیں سامنے آئیں، جن کا تعلق صحت سے ہے، سائنسدانوں کو وائی کروموسوم میں ڈی این اے کا ایک ایسا مالیکیول ملا ہے، جس میں کئی ایسے جینز ہوتے ہیں جو اسپرم کی پیداوار میں کردار ادا کرتے ہیں
سائنسدانوں کے مطابق فرٹیلیٹی سے متعلق تحقیق میں وائی کروموسوم کے جین کو عملی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے وائی کروموسوم میں مزید جینز دریافت کی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تحقیق میں کروموسوم کے کچھ ڈی این اے کو بیکٹیریا سے سمجھا جاتا تھا لیکن اصل میں ایسا نہیں تھا
سائنسدان انسانی جینیات کو سمجھنے کے لیے مزید مطالعہ کر رہے ہیں، انسانی جینوم کی پہلی تفصیل 2003 میں سامنے آئی تھی
گزشتہ سال سائنسدانوں نے انسانی جینوم کا پہلی مکمل تفصیل شائع کی تھی، حالانکہ اس میں وائی کروموسوم کے حوالے سے کچھ معلومات غائب تھیں، بعد ازاں مئی میں محققین نے جینوم کی نئی اور بہتر تفصیل جاری کی۔