ایک آدمی چھوٹا سا سرخ صندوق اٹھائے گلی میں آ نکلا۔ اس کا پرانا تنکوں کا ہیٹ اور بد رنگ لباس یوں دکھائی دیتے تھے، گویا برسوں سے بارش میں بھگتے رہے ہوں اور سورج نے اتنی ہی مرتبہ انہیں سُکھایا ہو۔ وہ سن رسیدہ نہیں تھا مگر لاغر اور کمزور نظر آتا تھا۔ وہ دھوپ میں تارکول کی کھردری سڑک پر چلتا تھا۔ گلی کے بالمقابل درختوں کا جھنڈ تھا، جو گھنا اور خوشگوار سایہ مہیا کرتے تھے۔ لوگ زیادہ تر اسی طرف ہو کر چلتے تھے مگر وہ آدمی نابینا ہونے کی وجہ سے یہ نہیں جانتا تھا، مزید برآں وہ کچھ احمق بھی تھا۔
سرخ ڈبے میں کچی پنسلیں تھیں، جو وہ فروخت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ کوئی چھڑی نہیں لیتا تھا۔ وہ پتھروں کی منڈیر کو پاؤں سے ٹٹول کر یا لوہے کے جنگلے کو ہاتھ سے چُھو کر اپنی رہنمائی کرتا تھا۔ جب وہ کسی مکان کی سیڑھیوں پر آتا تو چڑھ جاتا تھا۔ بعض اوقات اگر بمشکل وہ دروازے تک پہنچ بھی جاتا تو برقی گھنٹی کا بٹن نہ ڈھونڈ سکتا تھا، جس پر وہ تحمل سے نیچے اتر آتا اور اپنی راہ لگتا۔ کچھ آہنی دروازے مقفل ہوتے تھے، جن کے مالکان گرمیاں گزارنے کہیں دور گئے ہوتے، وہ زیادہ تر وقت ان کو کھولنے کی کوشش میں صرف کرتا، جس سے اسے زیادہ فرق نہ پڑتا کیونکہ سارا وقت اس کے اختیار میں تھا۔
اکثر اوقات وہ بٹن ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتا مگر جو آدمی یا ملازمہ گھنٹی کے جواب میں دروازہ کھولتے، انہیں پنسل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، نہ ہی وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اتنی معمولی بات کے لیے گھر کی مالکن کو تنگ کیا جائے۔
وہ شخص کافی دیر سے باہر نکلا ہوا تھا اور خاصا دور نکل آیا تھا مگر کچھ بھی فروخت نہیں کر پایا تھا۔ اس صبح کوئی شخص جو اس ڈبے کو اٹھائے بالآخر تھک چکا تھا، اُس نے ڈبہ اِس نابینا کے حوالے کیا اور اسے روزی روٹی کمانے بھیج دیا۔
اس کے پیٹ میں بھوک سے چوہے دوڑ رہے تھے۔ شدید پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ سورج گرمی سے بھون رہا تھا۔ اس نے کافی زیادہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بنیان کے اوپر قمیص اور اس پر کوٹ تھا۔ وہ انہیں اتار کر بازو پر ڈال سکتا تھا یا انہیں اتار پھینک سکتا تھا، مگر اسے اس کا خیال نہیں آیا۔ ایک نیک دل خاتون نے بالائی منزل کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھا اور اس کے لیے متاسف ہوئی اور خواہش کی کہ وہ سڑک پار کر کے چھاؤں ہی میں چلا جاتا۔
آدمی بغلی گلی میں مڑ گیا، جہاں پُر جوش شرارتی بچوں کی ٹولی کھیل میں مگن تھی۔ جو ڈبہ وہ اٹھائے ہوئے تھا، اس کے رنگ نے بچوں کو متوجہ کیا۔ وہ جاننا چاہتے تھے اس کے اندر کیا ہے۔ ان میں سے ایک نے اسے چھیننے کی کوشش کی۔ خود کو محفوظ رکھنے کی فطری جبلت اور اپنی بقاء کے واحد ذریعۂ روزگار کو بچانے کے لیے اس نے مزاحمت کی، ان پر چیخا چلاّیا اور گالیاں دیں۔ گلی کی نکڑ سے آتے ہوئے پولیس اہل کار نے یہ دیکھ کر کہ وجۂ نزاع کا مرکزی کردار وہ ہے، اسے گریبان سے پکڑ کر سختی سے جھٹکا دیا، مگر یہ جان کر کہ وہ نابینا ہے، اسے ڈنڈے سے مارنے سے باز رہا اور اسے اپنے راستے پر روانہ کر دیا۔ وہ دھوپ میں چلتا رہا۔
اپنے بے مقصد مٹر گشت کے دوران وہ ایک ایسی گلی میں مڑ گیا، جہاں عفریت نما برقی گاڑیاں چنگھاڑتی، وحشیانہ گھنٹیاں بجاتی قدموں تلے زمین کو لرزاتی اوپر تلے آ جا رہی تھیں۔ ٹریفک کے تیز بہاؤ میں اس نے سڑک عبور کرنا شروع کر دی۔
پھر کچھ وقوع پذیر ہوا۔۔۔۔ کچھ بہت ہی ہولناک کہ عورتیں غش کھا گئیں اور مضبوط ترین مرد بھی جنہوں نے یہ منظر دیکھا، کمزور پڑ گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ موٹر چلانے والے کے ہونٹوں کا رنگ بھی اڑ گیا اور وہ اس کے چہرے کی طرح بے رنگ ہو گئے۔ وہ لرزا، لڑکھڑایا اور کسی مافوق الفطرت کوشش سے اس نے اپنی گاڑی روک لی۔
اچانک ہی اتنا ہجوم کہاں سے آ سکتا تھا۔۔ گویا کسی نے جادو سے بلایا ہو؟ لڑکے دوڑے آئے۔ اس کریہہ منظر کو دیکھ کر مرد و زن اپنی گاڑیوں میں آنسو بہا رہے تھے۔ معالجین جیسے الہامی ہدایت کے پیش ِ نظر بگھیوں میں سوار ہونے لگے۔
خوف و ہراس اس وقت بڑھ گیا، جب مجمع نے دھجیاں بکھرے مردہ وجود کو شہر کے سب سے مالدار، سب سے نافع اور سب سے با اثر شخص کے طور پر شناخت کر لیا۔ ایسا شخص جو اپنی تدبیر اور دور اندیشی کے لیے مشہور تھا، ایسی ہولناک تقدیر اس پر کیسے غالب آ سکتی تھی؟ وہ جلدی میں اپنے تجارتی ادارے سے نکلا تھا، اس نے اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہونے میں تاخیر کر دی تھی، جو بحر اوقیانوس کے ساحل پر گرمیاں گزارنے کے لیے ایک گھنٹے میں روانہ ہونے والا تھا۔ جلدی میں اسے مخالف سمت سے آنے والی دوسری گاڑی کا ادراک نہ ہو سکا اور عام رونما ہونے والا دل خراش واقعہ ایک بار پھر دہرایا گیا۔
اندھے آدمی کو معلوم نہ تھا کہ یہ تمام ہنگامہ کیا تھا۔ وہ سڑک عبور کر چکا تھا۔ وہ سورج تلے ٹھوکریں کھا رہا تھا اور سڑک کی منڈیر پر ٹٹول ٹٹول کر پاؤں دھرتا نشانیوں پر چلا جا رہا تھا.
Original Title:
THE BLIND MAN
Written by:
Kate Chopin