کل گھر میں بینگن کا سالن بنا تھا، میں نے کھا کر امی جان سے کہا کہ کوئی ذائقہ اور لذت ہی نہیں ہے۔ میں نے دیکھا کہ امی بے تحاشا ہنس رہی تھیں، اور مجھ سے کہنے لگیں کہ بیٹا تمہیں سبزیوں اور موسموں کا کیا پتہ! اور پھر امی جان نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا
بینگن اور پھول گوبھی سردی کے موسم کی سبزیاں ہیں، گرمیوں کے موسم میں ان میں ذائقہ کہاں ہوگا۔ ہم نے اپنی پوری زندگی سردیوں میں ترئی (گلکا)، بھنڈی اور گوار پلی کی سبزی نہیں دیکھی، اور اسی طرح گرمیوں میں پھول گوبھی اور بینگن نہیں ہوتے۔ جب کسی سبزی کا موسم ہی نہ ہو تو ذائقہ کہاں سے آئے گا؟
ہائبرڈ بیج اور کیمیائی کھاد کسی بھی موسم میں کچھ بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ اس میں سبزیوں کا کوئی قصور نہیں۔ سائنس نے فطرت کے نظام کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، اور ہم بیچاری سبزیوں پر ناراض ہوتے ہیں۔
پھر امی جان نے پوچھا کہ کبھی اگست میں سردی کی وجہ سے چادر اوڑھ کر سوئے ہو؟
اگست تو دھوپ، بارش اور بارش کی پرورش کا مہینہ ہوتا ہے۔ ہم نے سالوں تک اگست میں بارشوں کی بہار دیکھی ہے اور دھوپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی ہے۔ اب یہ زمانہ آیا ہے کہ ایک مہینے سے دھوپ ناراض ہے، بارشوں کا نام و نشان نہیں اور رات 3 بجے کے بعد ابھی سے سردی کی جھلک محسوس ہو رہی ہے۔
مسئلہ سردی، گرمی، بینگن یا بھنڈی نہیں ہیں۔ مسئلہ وقت ہے، ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر اچھی لگتی ہے۔
پھر امی جان کہنے لگیں ”اور کاٹو درخت، جنگلات ختم کردو، کھیتوں کو برباد کرو، ندیوں اور چشموں میں غلاظت چھوڑ دو، اور باغات کے وسط میں فیکٹریاں بناؤ۔۔ اگر تم لوگ فطرت اور قدرت کی عزت نہیں کرو گے تو وہ خداوندا کریم تم کو بھی اپنی نظر کرم سے محروم رکھے گا۔“
امی جان کی باتیں سن کر میں حیران رہ گیا۔ اور سوچنے لگا کہ ہماری زندگی کتنی مصنوعی ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر ہماری یہ نسل سبزیوں کے اصل ذائقے سے محروم ہے، تو سوچ لو کہ آنی والی نسلیں کن کن چیزوں سے محروم ہونگی۔
ہم نے ترقی کے غلط راستے چُن کر اپنی اور اس سرزمین پر آنے والی نسلوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔!