کیا دہلی میں پاکستانی شہروں سے منسوب دکانیں محفوظ ہیں؟

زینت اختر ( نئی دہلی)

میں جیسے ہی نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلی میری نظر لاہوری ڈھابے کے عنوان سے ایک خورد نوش کے ہوٹل پر پڑی۔ حالانکہ میں بیسویں مرتبہ اس ریلوے اسٹیشن پر آئی ہوں مگر کبھی اس طرف توجہ نہیں گئی۔ میرے لیے یہ نام اس لیے باعث حیرت بنا کہ انڈیا میں اس وقت جب سے ہندو قوم پرست عناصر برسراقتدار آئے ہیں، تب سے برصغیر میں مسلم دور حکومت اور پاکستان سے منسوب ناموں کو مٹانے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

لیکن کراچی بیکری، لاہوری پان، راولپنڈی جیولرس، پشاور سویٹ بھنڈار جیسے ناموں والی دکانوں پر غالباً ہندوتو عناصر کی نظر نہیں گئی ہے یا شاید انہوں نے ان دکانوں کو اس لیے نظر انداز کر دیا ہے کہ ان کے مالکان غیر مسلم ہیں، جو تقسیم کے بعد انڈیا چلے آئے تھے مگر اپنی جائے پیدائش کو بھولے نہیں۔

جب آپ نئی دہلی اسٹیشن سے پہاڑ گنج کی جانب باہر نکلیں، تو کھانے پینے کے ہوٹل قطار در قطار آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے چمکتے دمکتے سائن بورڈوں میں سے زعفرانی رنگ کے ایک بورڈ پر نظر خود بخود چلی جاتی ہے، جس پر لکھا ہے ‘لاہور ڈھابہ‘۔ اسی طرح جب کوئی اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے ٹرمینل تھری سے باہر نکلتا ہے اور ایئر پورٹ لائن میٹرو اسٹیشن کی طرف قدم بڑھاتا ہے، تو اسے اپنے بائیں جانب جو پہلی بڑی سی دکان دکھائی دیتی ہے وہ ‘کراچی بیکری’ ہے۔

بہرحال دارالحکومت نئی دہلی کے اہم کاروباری علاقوں میں لاہور، کراچی، روالپنڈی، پشاور، ملتان، کوئٹہ اور سیالکوٹ وغیرہ پاکستانی شہروں کے نام سے دکانیں ہیں۔ شہر کی سب سے بڑی سبزی منڈی میں ’ملتان‘ اور ’روالپنڈی‘ کے نام سے جوہریوں کی دکانیں ہیں۔ قرول باغ کے غفار مارکیٹ علاقے میں ’لاہور واچ کمپنی‘ کا بورڈ نظر آتا ہے تو چند قدم کے فاصلے پر ’پنڈی جیولرس‘ کی دکان ہے۔

اس سے کچھ دوری پر واقع نیو راجند نگر میں ’پیشاور سوئٹ بھنڈار‘ کے نام سے ایک حلوائی کی دکان ہے۔ اسی طرح دہلی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی شہروں سے منسوب دکانیں نظر آئیں گی۔ نئی دہلی کے معمار مشہور آر کیٹیک لوٹینس Lutyens کے علاقے میں ایک معروف شاہراہ جن پتھ ہے۔ اس کا پہلے نام کوئین وے تھا اسی روڈ پر کراچی اسٹیشنری مارٹ کا بڑا سا بورڈ ہر آنے جانے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہ کناٹ پیلیس کا فیشن ایبل علاقہ ہے۔ شہر کے ایک مصروف ترین بازار سروجنی مارکیٹ میں بھی کوئٹہ اسٹور کے نام سے ایک دکان ہے۔

موتی نگر میں واقع ’نیو سیالکوٹ جیولرز‘ کے مالک بودھ راج ببر کہتے ہیں کہ سیالکوٹ میں میرے داداجی کی زیورات کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ یہاں آنے کے بعد سیالکوٹ نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہزاروں لوگ جو سرحد پار کر کے یہاں آئے تھے، آسانی جان جائیں کہ یہ وہی دکان ہے، جو سیالکوٹ میں تھی۔

پشاور سویٹ بھنڈار کو چنی لال ساہنی نے سن 1950میں قائم کیا تھا، جو ایک کھوکھے کی شکل میں تھی۔ آج ان کی تیسری نسل اسے چلا رہی ہے۔ ساہنی کے پوتے ساکیت ساہنی کہتے ہیں کہ یہ ان کا آبائی پیشہ ہے۔ جب پوچھا گیا کہ آج کل نام تبدیل کرنے کی مہم زور و شور سے چل رہی ہے، کیا آپ کو اس سے ڈر نہیں لگتا؟ وہ گویا ہوا کہ ہمارا خاندان تقسیم کے بعد پشاور سے آ کر یہاں بسا لیکن داداجی کو اپنے وطن (پشاور) سے بے حد لگاؤ تھا، اسی لیے انہوں نے اپنی دکان کا نام پشاور رکھا اور ہمیں بھی اس پر فخر ہے۔

کراچی بیکری 1953 میں ایک سندھی مہاجر خان چندرمانی نے حیدرآباد دکن میں شروع کی تھی، جس کی آج ملک کے تمام بڑے شہروں میں شاخیں ہیں۔ تاہم سن 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد اس کے بنگلور، حیدر آباد اور ممبئی اسٹوروں پر پولیس کو تعینات کرنا پڑا تھا۔ ہندو انتہاپسند عناصر نے ’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

بھارت کے موجودہ حالات میں ذرا تصور کیجیے! اگر ان دکانوں کے مالکان مسلمان ہوتے تو ان کا کیا حشر ہوتا؟ ان پر کس طرح الزامات عائد کیے جاتے۔ ملک دشمن، غدار اور نا جانے کن کن برے القابات سے نوازا جاتا، نیز بھارت کی حکمران جماعت نواز میڈیا کس طرح ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی۔

دہلی میں جب پاکستان کے علاقوں سے ترکِ وطن کر کے لوگ آئے تو ان مہاجرین کی باز آباد کاری کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں نئی نئی بستیاں بسائی گئیں، ان میں جنگ پورہ، لاجپت نگر، موتی نگر اور نیو راجندر نگر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جنگ پورہ میں ایک زنگ آلود بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے ’پشاوری محلہ‘ یعنی پشاور سے آنے والوں کا محلہ۔ یہاں لاہوری پان کے نام سے پان کی دکان بھی ہے، جس میں اب مموز، برگر وغیرہ بھی فروخت ہوتے ہیں۔

تقسیم کے بعد دہلی میں فرقہ ورانہ حالات بڑے مخدوش تھے۔ مسلمانوں کے خلاف ہر طرف مار کاٹ کا بازار گرم تھا مسلمان اپنی جان بچانے کی خاطر کئی علاقوں جیسے ہمایوں کا مقبرہ وغیرہ میں پناہ لیے ہوئے تھے اور نئے ملک پاکستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہیں دوسری طرف ہندو اور سکھ شر نارتھی بڑی تعداد میں پاکستان سے دہلی میں داخل ہو رہے تھے۔

70 سالہ سردار دیا سنگھ، جن کے والد سیالکوٹ سے آئے تھے، کہتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت سکھوں کو پنجاب میں بسنے نہیں دیا گیا، تاکہ وہاں سکھوں کی اکثریت نہ ہو جائے۔ جو ٹرین لاہور سے نکلی تھی، اسے دہلی کے سوا پنجاب کے کسی مقام پر روکا نہیں گیا۔

اردو اور ہندی کی مشہور ادیبہ کرشنا سوبتی، جو مغربی پنجاب کے گجرات میں 1925 میں پیدا ہوئیں، نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ آزادی سے قبل ہی ان کے والد اپنے چالیس پینتالیس رشتہ داروں کے ہمراہ دہلی آ گئے تھے اور ایک ریلیف کیمپ میں پناہ لی تھی۔ ”جو ہونا تھا ہو چکا، اب ہم دلی آگئے ہیں تو آگے کا کچھ سلسلہ بنائیں گے۔“ دکانوں کے یہ نام اسی کا حصہ ہیں۔

ایک ایسے وقت جب بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت صوبائی حکومتیں بڑے پیمانے پر نام تبدیل کر رہی ہیں۔ الہ آباد کا نام پریاگ نام کردیا گیا۔ فیض آباد اب ایودھیا بن گیا ہے، مغل سرائے اسٹیشن کو آر ایس ایس کے نظریہ ساز پنڈت دین دیال کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے نام سے خاصی چڑ معلوم ہوتی ہے۔ نئی دہلی کے ایک روڈ جو اورنگ زیب سے منسوب تھا، اسے مرحوم صدر جمہوریہ اے پی عبدالکلام کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ اس سے متصل گلی کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔

حال ہی میں میری اپنی آبائی ریاست مہا راشٹر اورنگ آباد کا نام سمبھا جی نگر رکھ دیا گیا، حالانکہ اس شہر سے مراٹھا سردار شیواجی مہاراج کا بیٹے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح عثمان آباد، جو نظام حیدر آباد کے آخری نواب میر عثمان علی خان کے نام سے موسوم تھا، اسے تبدیل کرکے دھار شیور بنا دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا، کوئی نہیں بتا نہیں سکتا۔

’نام میں کیا رکھا ہے؟‘ مشہور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے ڈرامہ رومیو اینڈ جولیٹ کا ایک ایسا لافانی ڈائیلاگ ہے، جو تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد آج بھی مستعمل ہے، جس میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نام بذاتِ خود چیزوں یا لوگوں میں فرق کرنے کی ایک روایت ہے لیکن خود ان کے کوئی معنی یا اہمیت نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ نکتہ ان عناصر کو کون سمجھائے جو قدیم ناموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close