ان دنوں ہیرالال اور میں اکثر شام کو گھومنے جایا کرتے تھے۔ شہر کی گلیاں اُلانگھ کر ہم شہر کے باہر کھیتوں کی طرف نکل جاتے تھے۔ ہیرالال کو باتیں کرنے کا شوق تھا اور مجھے اس کی باتیں سننے کا۔ وہ باتیں کرتا تو لگتا جیسے زندگی بول رہی ہے۔ اس کے واقعات اور کہانیوں کا اپنا فلسفیانہ رنگ ہوتا۔ لگتا جو کچھ کتابوں میں پڑھا ہے، سب غلط ہے؛ برتاؤ کی دنیا کا راستہ ہی دوسرا ہے۔ ہیرالال مجھ سے عمر میں بہت بڑا تو نہیں ہے لیکن اس نے دنیا دیکھی ہے، بڑا تجربہ کار اور گہری نظر کا آدمی ہے۔
اس روز ہم گلیاں اُلانگھ چکے تھے اور باغ کی لمبی دیوار کو پار کر ہی رہے تھے، جب ہیرالال کو اپنی پہچان کا ایک آدمی مل گیا۔ ہیرالال اس سے بغل گیر ہوا، بڑے تپاک سے اس سے یوں باتیں کرنے لگا، گویا بہت دنوں بعد مل رہا ہو۔ پھر مجھے مخاطب کرکے بولا، ”آؤ، میں تمہارا تعارف کرواؤں۔۔۔۔ یہ شُکلا جی ہیں۔۔۔“
پھر خوش کُن آواز میں کہنے لگا، ”اس شہر میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے جاؤ تو ان جیسا نیک آدمی تمہیں نہیں ملے گا۔“
شکلا جی کے چہرے پر عاجزی کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ انہوں نے ہاتھ جوڑے اور ایک دھیمی سی جھینپ بھری مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر کانپنے لگی۔
”اتنا نیک سیرت آدمی ڈھونڈے بھی نہیں ملے گا۔ جس ایمانداری سے انہوں نے زندگی بِتائی ہے، میں تمہیں کیا بتاؤں۔۔ یہ چاہتے تو محل کھڑے کر لیتے، لاکھوں روپیہ اکٹھا کر لیتے۔۔۔۔“
شکلا جی اور زیادہ جھینپنے لگے۔ تبھی میری نظر ان کے کپڑوں پر گئی۔ ان کا لباس واقعی بہت سادہ تھا، سستے سے جوتے، گھر کا دھلا کرتا پاجامہ، لمبا بند گلے کا کوٹ اور کھچڑی مونچھیں۔۔ میں انہیں ہیڈ کلرک سے زیادہ کا درجہ نہیں دے سکتا تھا۔
”جتنی دیر انہوں نے سرکاری نوکری کی، ایک پیسے کے روادار نہیں ہوئے۔ اپنا ہاتھ صاف رکھا۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہی نوکری کرنے لگے تھے۔ یہ پڑھائی کے فوراً ہی بعد کمپیٹیشن میں بیٹھے تھے اور کامیاب ہو گئے تھے اور جلد ہی مجسٹریٹ بن کر فیروزپور میں مقرر ہوگئے تھے۔ میں بھی ان دنوں وہیں پر تھا۔۔۔۔“
میں متاثر ہونے لگا۔ شکلا جی ابھی تک لَجاتے، ہاتھ جوڑے کھڑے تھے اور اپنی تعریف سن کر سکڑتے جا رہے تھے۔ اتنی سی بات تو مجھے بھی کھٹکی کہ عام سا کرتا پاجامے پہننے والے لوگ عام طور پر مجسٹریٹ یا جج نہیں ہوتے۔ جج ہوتا تو کوٹ پتلون ہوتی، دو تین اردلی ارد گرد گھومتے نظر آتے۔ کُرتا پاجامے میں بھی کبھی کوئی جج ہوتا ہے؟
اس جھینپ، خاموشی اور تعریف میں یہ بات رہ ہی گئی کہ شکلا جی اب کہاں رہتے ہیں، کیا ریٹائر ہو گئے ہیں یا اب بھی سرکاری نوکری کرتے ہیں اور ان کی خیریت پوچھ کر ہم لوگ آگے بڑھ گئے۔
ایماندار آدمی کیوں اتنا ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے، کیوں سکڑتا، جھینپتا رہتا ہے، یہ بات کبھی بھی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ شاید اس لیے کہ یہ دنیا پیسے کی ہے۔ جیب میں پیسہ ہو تو خود احترامی کا جذبہ بھی آ جاتا ہے، لیکن اگر جوتے سستے ہوں اور کرتا پاجامہ بھی گھر کا دھلا ہو تو دامن میں ایمانداری بھری رہنے پر بھی آدمی جھینپتا، سکڑتا ہی رہتا ہے۔ شکلا جی نے فنڈ کمایا ہوتا، بھلے ہی بے ایمانی سے کمایا ہوتا، تو ان کا چہرہ دمکتا، ہاتھ میں انگوٹھی دمکتی، کپڑے گھم گھم کرتے، جوتے چمچماتے، بات کرنے کے طریقے سے ہی رعب جھلکتا۔
خیر، ہم چل دیے۔۔ باغ کی دیوار پیچھے چھوٹ گئی۔ ہم نے پل پار کیا اور جلد ہی فطرت کے پھیلے ہوئے وسیع آنگن میں پہنچ گئے۔ سامنے ہرے بھرے کھیت تھے اور دور نیلما کی جھینی چادر اوڑھے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں کھڑی تھیں۔ ہماری لمبی سیر شروع ہو گئی تھی۔
اس ماحول میں ہیرالال کی باتوں میں اپنے آپ ہی فلسفے کی لہر آ جاتی تھی۔ ایک قسم کا غیر جانبدارانہ پن، کچھ کچھ خاموش سا، گویا فطرت کے عظیم پسِ منظر کے آگے انسانی زندگی کے طرز عمل کو دیکھ رہا ہو۔ تھوڑی دیر تک تو ہم چپ چاپ چلتے رہے، پھر ہیرالال نے اپنا بازو میرے بازو میں ڈال دیا اور آہستہ سے ہنسنے لگا۔
”سرکاری نوکری کا اصول ایمانداری نہیں ہے، دفتر کی فائل ہے۔ سرکاری افسر کو دفتر کی فائل کے مطابق چلنا چاہیے۔“
ہیرالال گویا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ کہتا گیا، ”اس بات کی اسے فکر نہیں ہونی چاہیے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، کون کیا کہتا ہے۔ بس، یہ دیکھنا چاہیے کہ فائل کیا کہتی ہے۔“
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“ مجھے ہیرالال کی دلیل بڑی عجیب سی لگی، ”ہر سرکاری افسر کا فرض ہے کہ وہ سچ کی جانچ کرے، فائل میں تو انٹ سنٹ بھی لکھا ہوسکتا ہے۔“
”نہ، نہ، نہ، فائل کا سچ ہی اس کے لیے واحد سچ ہے۔ اسی کے مطابق سرکاری افسر کو چلنا چاہیے، نہ ایک انچ اِدھر نہ ایک انچ اُدھر۔۔ اسے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، یہ اس کا کام نہیں۔۔۔“
”بے گناہ آدمی بے شک پِستے رہیں؟“
ہیرالال نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے برعکس وہ مجھے انہی شکلا جی کا قصّہ سنانے لگا۔ شاید انہی کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے یہ تبصرہ کیا تھا۔
”جب یہ آدمی جج ہو کر فیروزپور میں آیا تو میں وہیں پر رہتا تھا۔ یہ اس کی پہلی نوکری تھی۔ یہ آدمی سچ مچ اتنا نیک، اتنا محنتی، اتنا ایماندار تھا کہ تمہیں کیا بتاؤں۔ سارا وقت اسے اس بات کی فکر لگی رہتی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو جائے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے اِس سے پوچھتا، اُس سے پوچھتا کہ اصلیت کیا ہے، قصور کس کا ہے، گناہگار کون ہے؟ ملزم تو میٹھی نیند سو رہا ہوتا اور جج کی نیند حرام ہو جاتی تھی۔ اگر میں بھول نہیں کر رہا تو اپنی ماں سے اس نے وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دے گا۔ ایسی ہی کوئی بات اس نے مجھے سنائی بھی تھی۔“
”چھوٹی عمر میں تمام لوگ آدرش وادی ہوتے ہیں۔ وہ زمانہ بھی اصول پسندی کا تھا۔“ میں نے اضافہ کِیا۔
لیکن ہیرالال کہے جا رہا تھا، ”آدھی آدھی رات تک یہ دستاویزات پڑھتا اور میز سے چپٹا رہتا۔ اسے یہی ڈر کھائے جاتا تھا کہ اس سے کہیں بھول نہ ہو جائے۔ ایک ایک کیس کو بڑے غور سے جانچا کرتا تھا۔“
پھر یوں ہاتھ جھٹک کر اور سر ٹیڑھا کر کے، گویا اس دنیا میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اس کا اندازہ لگا پانا کبھی ممکن ہی نہ ہو، ہیرالال کہنے لگا، ”انہی دنوں فیروزپور کے نزدیک ایک قصبے میں ایک واردات ہو گئی اور کیس کچہری میں آیا۔ معمولی سا کیس تھا۔ قصبے میں رات کے وقت کسی راہ جاتے مسافر کو پیٹا گیا تھا اور اس کی ٹانگ توڑ دی گئی تھی۔ پولیس نے کچھ آدمی حراست میں لے لیے تھے اور مقدمہ انہی شکلا جی کی کچہری میں پیش ہوا تھا۔ آج بھی وہ سارا واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔۔۔ اب جن لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا، ان میں علاقے کا زیلدار اور اس کا جوان بیٹا بھی شامل تھے۔ پولیس کی رپورٹ تھی کہ زیلدار نے اپنے لٹھیت بھیج کر اس راہگیر کو پٹوایا ہے۔ زیلدار خود بھی پیٹنے والوں میں شامل تھا۔ ساتھ میں اس کا جوان بیٹا اور کچھ دیگر لٹھیت بھی تھے۔ معاملہ وہیں رفع دفع ہو جاتا اگر اس راہگیر کی ٹانگ نہ ٹوٹ گئی ہوتی۔ معمولی مارپیٹ کی تو پولیس پرواہ نہیں کرتی لیکن اس معاملے کو پولیس نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ خیر، گواہ پیش ہوئے، پولیس نے بھی معاملے کی تحقیقات کی اور پتا یہی چلا کہ زیلدار نے اس آدمی کو پٹوایا ہے، اور پیٹنے والے، راہگیر کو ادھ موا سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔ تین ماہ تک کیس چلتا رہا۔“ ہیرالال کہنے لگا، ”کیس میں کوئی الجھن، کوئی پیچیدگی نہیں تھی، مگر ہمارے شکلا جی کو چین کہاں؟ ادھر زیلدار کے حراست میں لیے جانے پر، حالانکہ بعد میں اسے ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تھا، قصبے بھر میں تہلکہ سا مچ گیا تھا۔ زیلدار کو تو تم جانتے ہو نا، زیلدار کا کام مال گذاری اگاہنا ہوتا ہے اور گاؤں میں اس کی بڑی حیثیت ہوتی ہے، یوں وہ سرکاری ملازم نہیں ہوتا، خیر! تو جب فیصلہ سنانے کی تاریخ نزدیک آئی تو شکلا جی کی نیند حرام، کہیں غلط آدمی کو سزا نہ مل جائے، کہیں کوئی بے گناہ مارا نہ جائے۔ ادھر پولیس تحقیقات کر رہی تھی، ادھر شکلا جی نے اپنی پرائیویٹ تحقیقات شروع کر دیں۔ اِس سے پوچھ، اُس سے پوچھ۔۔۔ جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا، اس سے ایک دن پہلے شام کو یہ شریف آدمی اس قصبے میں جا پہنچے اور وہاں کے تحصیل دار سے ملے۔ وہ ان کی پرانی جان پہچان کا تھا۔ انہوں نے اُس سے بھی پوچھا کہ بھائی، بتاؤ، اندر کی بات کیا ہے، تم تو قصبے کے اندر رہتے ہو، تم سے تو کچھ چھپا نہیں رہتا ہے۔ اب جب تحصیل دار نے دیکھا کہ ضلع کچہری کا جج چل کر اس کے گھر آیا ہے، اور جج کا بڑا رتبہ ہوتا ہے، اس نے اندر کی صحیح صحیح بات شکلا جی کو بتا دی۔ شکلا جی کو پتا چل گیا کہ ساری کارستانی قصبے کے تھانیدار کی ہے، ساری شرارت اسی کی ہے، اس کی کوئی پرانی عداوت زیلدار کے ساتھ تھی اور وہ زیلدار سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ایک دن کچھ لوگوں کو بھجوا کر ایک راہ جاتے مسافر کو اس نے پٹوا دیا، اس کی ٹانگ تڑوا دی اور زیلدار اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے لیا۔ پھر ایک کے بعد ایک جھوٹی گواہی۔۔ اب قصبے کے تھانیدار کی مخالفت کون کرے؟ کس کی ہمت؟ تحصیل دار نے شکلا جی سے کہا کہ میں کچھ اور تو نہیں جانتا، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ زیلدار بے گناہ ہے، اس کا اس پٹائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
”وہاں سے لوٹ کر شکلا دو ایک اور جگہ بھی گیا۔۔ جہاں گیا، وہاں پر اس نے زیلدار کی تعریف سنی۔ جب شکلا جی کو یقین ہو گیا کہ مقدمہ واقعی جھوٹا ہے تو اس نے گھر لوٹ کر اپنا پہلا فیصلہ فوراً بدل دیا اور دوسرے دن عدالت میں اپنا نیا فیصلہ سنا دیا اور زیلدار کو غیر مشروط رہا کر دیا
”اسی دن وہ مجھے کلب میں ملا۔ وہ سچ مچ بڑا خوش تھا۔ اسے بہت دن بعد چین نصیب ہوا تھا۔ بار بار بھگوان کا شکر کر رہا تھا کہ ’میں ناانصافی کرتے کرتے بچ گیا، ورنہ مجھ سے بہت بڑا گناہ ہونے جا رہا تھا۔ مجھ سے بہت بڑی بھول ہو رہی تھی۔ یہ تو اچانک ہی مجھے سوجھ گیا اور میں تحصیل دار سے ملنے چلا گیا۔ ورنہ میں نے تو اپنا فیصلہ لکھ بھی ڈالا تھا‘۔“ اس نے کہا۔
ہیرالال کی بات سن کر میں سچ مچ متاثر ہوا۔ اب میری نظروں میں شکلا سستے جوتوں اور میلے کپڑوں میں ایک ایماندار انسان ہی نہیں تھا بلکہ ایک دل گردے والا، زندہ دل اور ہمت والا آدمی تھا۔ اسے باغ کی دیوار کے پاس کھڑا دیکھ کر جو رحم دلی سی میرے دل میں اٹھی تھی، وہ جاتی رہی اور میرا دل اس کے لیے احترام سے بھر گیا۔ ہمیں واقعی ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو معاملے کی تہہ تک جائیں اور بے گناہ کو آنچ تک نہ آنے دیں۔
کھیتوں کی منڈیروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہم بہت دور نکل آ ئے تھے اور اس سفید مجسمے تک جا پہنچے تھے، جہاں سے ہم اکثر دوسرے راستے پر مڑتے تھے۔
”پھر جانتے ہو کیا ہوا؟“ ہیرالال نے بڑے سروکار سے کہا۔
”کچھ بھی ہوا ہو ہیرالال، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ آدمی ہمت والا اور ایماندار ہے۔ اپنے اصول کا پکا رہا۔“
”سنو، سنو، ایک اصول ضمیر کا ہوتا ہے تو دوسرا فائل کا۔“ ہیرالال نے دانش مندوں کی طرح سر ہلایا اور بولا، ”آگے سنو۔۔۔ فیصلہ سنانے کی دیر تھی کہ تھانیدار تو تڑپ اٹھا۔ اسے تو جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ چلا تھا زیلدار کو نیچا دکھانے، الٹا سارے قصبے میں لوگ اس کی لعنت ملامت کرنے لگے۔ چاروں طرف تھو تھو ہونے لگی۔ اسے تو الٹے لینے کے دینے پڑ گئے تھے، لیکن وہ بھی پکا گھاگ تھا، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سیدھا ڈپٹی کمشنر کے پاس جا پہنچا۔ جہاں ڈپٹی کمشنر ضلع کا حاکم ہوتا ہے، وہاں تھانیدار اپنے قصبے کا حاکم ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سے ملتے ہی اس نے ہاتھ باندھ لیے، کہ حضور میری اس علاقے سے تبدیلی کر دی جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے وجہ پوچھی تو بولا، ’حضور، اس علاقے کو قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ یہاں چور ڈکیت بہت ہیں، بڑی مشکل سے قابو میں رکھے ہوئے ہوں، مگر حضور، جہاں ضلع کا جج ہی رشوت لے کر شرارتی لوگوں کو رہا کرنے لگے، وہاں میری کون سنے گا۔ قصبے کا نظام چوپٹ ہو جائے گا‘، اور اس نے اپنے طریقے سے سارا قصّہ سنایا۔ ڈپٹی کمشنر سنتا رہا۔ اس کے لیے یہ پتا لگانا کون سا مشکل کام تھا کہ کسی افسر نے رشوت لی ہے یا نہیں لی ہے، کب لی ہے اور کس سے لی ہے۔ تھانیدار نے ساتھ میں یہ بھی اضافہ کر دیا کہ فیصلہ سنانے سے ایک دن پہلے جج صاحب ہمارے قصبے میں بھی تشریف لائے تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے بڑی سوچ بچار کے بعد کہا کہ اچھی بات ہے، ہم دستاویز دیکھیں گے، تم مقدمہ کی فائل میرے پاس بھجوا دو۔ تھانیدار کی باچھیں کھل گئیں، وہ چاہتا ہی یہی تھا۔ اس نے جھٹ سے پھر ہاتھ باندھ دیے، کہ ’حضور ایک اور عرض ہے۔ دستاویز پڑھنے کے بعد اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مقدمے کی ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی اجازت دی جائے۔
”آخر وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ ڈپٹی کمشنر نے مقدمے کی دستاویز منگوالی۔ شروع سے آخر تک اس نے مقدمے کے کاغذات دیکھے، تمام شہادتیں دیکھیں، ایک ایک قانونی نکتہ دیکھا اور اس نے پایا کہ واقعی فیصلہ بدلا گیا ہے۔ کاغذوں کے مطابق تو زیلدار مجرم ثابت ہوتا تھا۔ دستاویز پڑھنے کے بعد اسے تھانیدار کا یہ مطالبہ جائز لگا کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ اس نے اجازت دے دی۔ پھر کیا؟ شک کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو بھی شکلا کی ایمانداری پر شک ہونے لگا۔۔“
یہ کہتے کہتے ہیرالال چپ ہو گیا۔
دھوپ کب کی ڈھل چکی تھی اور چاروں طرف شام کے بوجھل سائے اترنے لگے تھے۔ ہم دیر تک چپ چاپ چلتے رہے۔ مجھے لگا جیسے ہیرالال اس واقعہ کے بارے میں سوچنے کے بجائے کسی دوسری ہی بات کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔
”ایسے چلتی ہے برتاؤ کی دنیا۔“ وہ کہنے لگا، ”معاملہ ہائی کورٹ میں پیش ہوا اور ہائی کورٹ نے ضلعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ زیلدار کو پھر سے پکڑ لیا گیا اور اسے تین سال سخت قید کی سزا مل گئی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں شکلا پر لاپروائی کا الزام لگایا اور اس کے انصاف پر شک بھی ظاہر کیا۔
”اس ایک مقدمہ سے ہی شکلا کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کا دل ایسا کھٹا ہوا کہ اس نے ضلع سے تبدیلی کروانے کی درخواست دے دی اور سچ مانو، اس ایک فیصلے کی وجہ سے ہی وہ ضلع بھر میں بدنام بھی ہونے لگا تھا۔ سب کہنے لگے، رشوت لیتا ہے۔ بس، اس کے بعد پانچ چھ سال تک وہ اسی محکمے میں گھسٹتا رہا، اس کا پروموشن رکا رہا، اسی لیے کہتے ہیں کہ سرکاری افسر کو فائل کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے، جو فائل کہے، وہی سچ ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔۔۔“
اندھیرا گھِر آیا تھا اور ہم اندھیرے میں ہی دھیمے دھیمے شہر کی طرف لوٹنے لگے تھے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ شکلا کے دل پر کیا بیتی ہوگی اور وہ کتنا حیران اور پریشان رہا ہوگا۔ وہ کہ جو انصاف کرنے کا وعدہ اپنی ماں کو دے کر آیا تھا۔
”پھر؟ پھر کیا ہوا؟ ججی چھوڑ کر شکلا جی کہاں گئے؟“
”استاد بن گیا، اور کیا؟ ایک کالج میں فلسفہ پڑھانے لگا۔ اصولوں اور آدرشوں کی دنیا میں ہی ایک ایمان دار آدمی اطمینان سے رہ سکتا ہے۔ بڑا کامیاب استاد بنا۔ ایمانداری کا دامن اس نے اب بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ بڑھیا سے بڑھیا کتابیں لکھتا ہے، پر عمل کی دنیا سے دور، بہت دور۔۔۔۔۔۔“