فائیو آئیز: کینیڈا کو بھارت سے متعلق شواہد فراہم کرنے والی یہ تنظیم کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

ویب ڈیسک

فائیو آئیز۔۔ یہ وہ تنظیم ہے، جس کا نام ان دنوں کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور اس میں انڈیا کے ملوث ہونے کی خبروں کے حوالے سے سننے میں آ رہا ہے

کینیڈا میں امریکی سفیر ڈیوڈ کوہن نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ ’فائیو آئیز کے شراکت کاروں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے‘ کے نتیجے میں کینیڈا کو اس قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کی معلومات دی گئی تھیں، جس کی بنیاد پر وزیرِ اعظم ٹروڈو نے بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق بات کی تھی

اس بیان کے بعد کینیڈا اور بھارت کے مابین سفارتی کشیدگی کا باعث بننے والے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور اس کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ اب انٹیلیجینس شیئرنگ کے اتحاد ’فائیو آئیز‘ کا کردار بھی زیرِ بحث ہے

فائیو آئیز کو ’دنیا کا سب سے خصوصی انٹیلیجنس شیئرنگ کلب‘ اور ’دنیا کی سب سے قدیم انٹیلیجنس شیئرنگ پارٹنرشپ‘ بھی کہا جاتا ہے

شروع شروع میں اس ادارے کے تحت جاری ہونے والی دستاویزات پر SECRET—AUS/CAN/NZ/UK/US EYES ONLY لکھا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اسے فائیو آئیز کہا جانے لگا

یوکے ڈیفنس جرنل کے مطابق ”فائیو آئیز میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں اور یہ دنیا کا سب سے مکمل اور جامع انٹیلیجنس اتحاد ہے“

سکیورٹی امور کے ماہر اور مصنف سید محمد علی کہتے ہیں ”اس وقت یعنی 2023 میں ’فائیو آئیز‘ انٹیلی جنس شیئرنگ کا ایک بہت جامع اور ہمہ جہت نظام ہے، جو امن، بحران اور جنگ، یعنی تینوں حالتوں میں بہت اہم معلومات کا آپس میں تبادلہ کرتا ہے،‘ اور یہ معلومات ان پانچ ملکوں کو ’سفارتی میدان میں مختلف معاملات پر ایک مشترکہ موقف یا لائحۂ مرتب کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں“

 یہ انٹیلیجنس اتحاد کیسے وجود میں آیا؟

سن 1939ع میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں محوری قوتیں اور اتحادی مدمقابل تھے۔ محوری قوتوں میں جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل تھے جب کہ ان کے مقابل فرانس برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین اتحادی کیمپ کا حصہ تھے

ابتدائی طور پر امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1941 میں ہونے والے ’اٹلانٹک چارٹر‘ سے اس اتحاد کی بنیاد پڑی۔ 1943 میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے ’بروسا‘ معاہدے کے بعد اس تعاون میں مزید اضافہ ہوا

یوکے ڈیفنس جرنل نے ایک مضمون میں لکھا ہے ”یہ اتحاد دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان بڑے پیمانے پر انٹیلیجنس کا تبادلہ ہوا تھا جس کی وجہ سے جرمنوں کے خفیہ کوڈ کو پڑھ لیا گیا تھا جو ہٹلر کی شکست کی اہم وجوہات میں سے ایک تھا“

سن 1946 میں جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ کے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے اتحادیوں کے ساتھ ’خصوصی تعلق‘ کی بات کرنا شروع کر دی۔ ان کا اشارہ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ انٹیلیجنس کے تبادلے کی سطح پر تعلقات قائم کرنے کی جانب تھا

دوسری عالمی جنگ کے بعد بروسا معاہدہ 1946 تک ’یو کے – یو ایس اے ایگریمنٹ‘ میں تبدیل ہو گیا، مگر 1948 میں اس میں کینیڈا اور 1956 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو بھی شامل کر لیا گیا

اس کے بعد سے اب تک یہ عالمی رسائی رکھنے والا سب سے بڑا بین الاقوامی انٹیلی جنس اتحاد بن گیا ہے

 سرد جنگ اور وار آن ’ٹیرر‘

انٹیلیجنس ماہرین کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ سوویت یونین کی ’سرد جنگ‘ کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی خفیہ معلومات کے تبادلے کو مزید اہمیت حاصل ہو گئی

فائیو آئیز پر مرتب ہونے والی کتاب ’دی برج ان دی پارکس: دی فائیو آئیز اینڈ کولڈ وار‘ کے مطابق سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اپنی خفیہ سرگرمیاں تیز کردی تھیں

سوویت یونین کی جاسوسی اور خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور روس میں جاسوسی کے لیے فائیو آئیز ممالک نے 1960 کی دہائی میں ’ایشلون‘ نامی سرویلیئنس پروگرام کا آغاز کیا۔ تاہم نگرانی کا یہ پروگرام کئی دہائیوں تک خفیہ رہا

یوکے ڈیفنس جرنل کے لکھا ہے ”اس دوران برطانیہ کے فائیو آئیز شمالی بحرِ اوقیانوس میں بیلیسٹک میزائلوں سے لیس سوویت آبدوزوں کا سراغ لگاتا تھا جب کہ امریکہ کے لیے یہ اتحاد سابق برطانوی سلطنت، خاص طور مشرقِ وسطیٰ میں قائم انٹیلی جنس چوکیوں سے حاصل کردہ معلومات امریکہ کو فراہم کرتا تھا“

’دی برج ان دی پارک‘ کے مطابق سرد جنگ ختم ہونے کے بعد نائین الیون کے واقعات نے ایک بار پھر فائیو آئیز کے انٹیلیجنس شیئرنگ کے نظام کو مزید متحرک کیا

ماہرین کے مطابق ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس اتحاد نے اپنے ماضی کے حریف روس اور 2018ع کے بعد چین کی جاسوسی کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کر دی

فائیو آئیز کے باہمی تعاون سے 2010، 2016 اور 2018 میں کئی روسی جاسوسوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور جاسوسی کے نیٹ ورک ختم کرنے میں مدد ملی

  انتہائی خفیہ طریقہ کار

اگرچہ اس کے بارے میں گذشتہ برسوں میں میڈیا میں بہت کچھ آیا ہے مگر فائیو آئیز کا طریقۂ کار ابھی تک پردۂ اخفا میں ہے

جرنل آف کولڈ وار اسٹڈیز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ”اس ادارے کے قیام کے سمجھوتے کو ’انگریزی بولنے والی دنیا کی سب سے خفیہ دستاویز‘ سمجھا جاتا ہے، جس کی سخت رازداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1973 اس میں وقت کے آسٹریلوی وزیرِ اعظم گف وٹلیم کے علم میں بھی نہیں تھا“

ادارے کے قیام کے 64 سال بعد کہیں جا کر جون 2010 میں UKUSA معاہدے کا مکمل متن پہلی بار سامنے آیا اور اسے پہلی بار اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا

 تنازعہ

نائن الیون حملوں کے بعد فائیو آئیز کو مزید توسیع دی گئی۔ سابق برطانوی وزیر کلیئر شارٹ نے فروری 2004 میں کہا تھا ”برطانوی جاسوسوں نے اس وقت کے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے دفتر میں جاسوسی آلات لگائے تھے“

فائیو آئیز سے متعلق 2013 میں ایک بڑا تنازع اس وقت سامنے آیا، جب امریکہ کے خفیہ ادارے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے لیے کام کرنے والے سابق اہل کار ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے، برطانیہ کی ایجنسی جنرل کمیونیکیشنز ہیڈ کوارٹرز (جی سی ایچ کیو) اور فائیو آئیز کے دیگر اداروں پر جاسوسی کرتے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا

ایڈورڈ سنوڈن نے انٹیلیجنس سرگرمیوں سے متعلق متعدد دستاویزات بھی عام کر دیں اور دعویٰ کیا کہ فائیو آئیز میں شامل ممالک ایک دوسرے کے شہریوں پر جاسوسی کر کے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں

سنوڈن کا الزام تھا کہ شہریوں پر جاسوسی کرتے ہوئے فائیو آئیز اپنے قوانین کی بھی پروا نہیں کرتے، تاہم فائیو آئیز نے اس الزام کی تردید کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ معلومات کی رسائی کے لیے قوانین کی مکمل پاس داری کی جاتی ہے

انٹیلیجنس ماہرین کے مطابق فائیو آئیز میں تکنیکی اور مالی وسائل کے اعتبار سے امریکہ سب سے آگے ہے، جب کہ برطانیہ کے پاس جاسوسی کا سب سے طویل تجربہ ہے

ان کے مطابق امریکہ اور برطانیہ سمیت فائیو آئیز میں شامل سبھی ممالک اپنے معلومات کے تبادلے میں اپنے مفادات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک سابق امریکی انٹلیجنس افسر کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ فائیو آئیز اپنے ممالک میں موجود کسی بھی مشتبہ شخص کے فون کال ریکارڈ یا نمبر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پہلے متعلقہ حکومت سے رابطہ کرتے ہیں

کسی بھی اہم معلومات کی تصدیق اور از سر نو جائزے کے لیے بھی انٹیلیجنس حکام ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ تاہم معلومات تک رسائی کے لیے پہلے یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ اس کی معلومات حاصل کرنا مغربی ممالک کو درپیش کسی خطرے سے مقابلے کے لیے کتنا اہم ہے

دستیاب معلومات کے مطابق فائیو آئیز خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے رابطے کے برقی ذرائع کی نگرانی کرتے ہیں۔ اپنے قیام کے بعد سے فائیو آئیز نے خفیہ معلومات جمع کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کیا ہے

 دیگر اتحادوں سے کیسے مختلف ہے؟

دنیا میں فائیو آئیز کے علاوہ بھی خفیہ معلومات کے تبادلوں کے لیے باہمی تعاون کے معاہدے اور بندوبست پائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ممالک میں بھی اہم خفیہ معلومات رکن ممالک کو فراہم کرنے کا انتظام موجود ہیں

اس کے علاوہ امریکہ بھی فرانس، جرمنی اور جاپان جیسے اتحادیوں کے ساتھ حساس نوعیت کی معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ داعش کا چیلنج سامنے آنے کے بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اس شدت پسند تنظیم سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم فائیو آئیز کو انٹیلیجنس شیئرنگ اور باہمی تعاون کا سب سے مؤثر اتحاد کہا جاتا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فائیو آئیز بہت سی معلومات صرف رکن ممالک تک محدود رکھتے ہیں اور کسی معاملے کی نوعیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسے دوسرے ممالک کو فراہم کرتے ہیں

لیکن دیگر ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ عام طور پر ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ فائیو آئیز ایک دوسرے کو جو معلومات فراہم کرتے ہیں اس کے بدلے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔

 علاقوں کی تقسیم

یوکے ڈیفنس جرنل کے مطابق معاہدے کے مطابق ہر رکن ملک دنیا کے مخصوص جغرافیائی خطوں سے معلومات اکٹھی کرے گا۔ جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

برطانیہ: یورپ، مغربی روس، مشرقِ وسطیٰ اور ہانگ کانگ

امریکہ: مشرقِ وسطیٰ، چین، اور مشرقی ایشیا

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا: جنوبی بحرالکاہل اور جنوبی ایشیا

کینیڈا: روس اور چین کے اندر سے، لاطینی امریکہ

اس تقسیم کے باوجود ان ملکوں کے اہلکار مل کر کام کرتے ہیں اور حتمی رپورٹ میں ایک سے زیادہ ملکوں کی حاصل کردہ انٹیلیجنس شامل ہوتی ہے

 یہ ادارہ معلومات کیسے حاصل کرتا ہے؟

سید محمد علی نے بتایا کہ ’فائیو آئیز ہیومن بیسڈ انٹیلیجنس (انسانوں کے ذریعے حاصل کردہ خفیہ معلومات) کے علاوہ بڑی حد الیکٹرانک انٹیلیجنس پر انحصار کرتا ہے

”امریکہ کا الیکٹرانک انٹیلیجنس کا نظام بےحد وسیع ہے، جس میں خلا میں قائم نظام بھی شامل ہیں، سائبر سسٹم بھی ہے، ہوا میں، زمین پر، سمندر میں ہر جگہ یہ 24/7 کام کرتے ہیں جو ریئل ٹائم میں شیئر کی جاتی ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن دنیا میں جہاں بھی چل رہے ہوتے ہیں، اس حوالے سے ٹارگٹس کی نقل و حرکت آپس میں شیئر کی جاتی ہے“

انہوں نے کہا ”یہ ادارہ بحری اور ہوائی ٹریفک، میزائلوں کے ٹیسٹ، مصنوعی سیاروں کی تیاری اور فضائیہ سے متعلق فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے“

کولڈ وار جرنل کے مضمون کے مطابق ”اگرچہ رکن ملک انسانی جاسوسی، خفیہ کارروائیوں، ڈیٹا ہینڈلنگ وغیرہ پر بھی انحصار کرتے ہیں، مگر اس کا بنیادی نکتہ سگنل انٹیلیجنس ہے۔ سگنل انٹیلیجنس سے مراد وہ آپریشن ہی،ں جو الیکٹرمیگنیٹنک ٹرانسمشن کو ٹارگٹ کرتے ہیں“

اس کے علاوہ ’دہشت گرد تنظیمیں‘ اور ہتھیاروں کا کاروبار بھی اس کے دائرۂ عمل میں آتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سائبر سکیورٹی کے خدشات کے پیشِ نظر اس ادارے کی ذمہ داریوں میں سائبر سکیورٹی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے

 ’چاہے پانچ آنکھیں ہوں یا دس‘

نومبر 2020 میں چین نے خبردار کیا تھا ”اگر چین کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا جائے گا۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی پانچ آنکھیں ہوں یا دس!“

 فائیو آئیز اور پاکستانی کرکٹ

آپ کو یاد ہوگا کہ 2021 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے اچانک ہی پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا تھا تو یہاں خبروں میں ’فائیو آئیز‘ کی بازگشت سنائی دی۔ نیوزی لینڈ نے فائیو آئیز کی جانب سے دیے گئے تھریٹ الرٹ کو دورے کی منسوخی کی وجہ قرار دیا تھا

نیوزی لینڈ کرکٹ کے سربراہ ڈیوڈ وائٹ کے مطابق ”اس خطرے کی بنیادی نوعیت کے بارے میں تو پی سی بی کو آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن اس کی مخصوص تفصیلات نہیں بتائی جا سکتی تھیں، نہ بتائی جائیں گی۔۔۔ نہ ہی نجی حیثیت میں اور نہ ہی عوامی طور پر“

ڈیوڈ وائٹ نے تو نہیں بتایا مگر پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے ستمبر 2021 میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا ”نیوزی لینڈ کی حکومت نے دورہ پاکستان انٹیلیجنس گروپ ’فائیو آئیز‘ کی جانب سے ان کی ٹیم کو ’براہ راست‘ خطرے کا الرٹ موصول ہونے پر ختم کیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے سکیورٹی کنسلٹنٹ ریگ ڈکیسن نے فون کر کے نیوزی لینڈ ٹیم کو لاحق خطرے کا بتایا تھا“

وسیم خان نے کہا ”ڈکیسن نے فائیو آئیز سے ملنے والی معلومات شیئر کیں اور نیوزی لینڈ کے ڈپٹی وزیراعظم کو بتایا گیا کہ یہ بہت سنگین ہے اور فوری طور پر حل کرنا ہے“

دوسری جانب اس وقت کے پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسے ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ”اس کی وجہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ہوائی اڈے نہ دینا ہے“

 ہردیپ سنگھ نجر کیس میں ’فائیو آئیز‘ کینیڈا کی کیا مدد کر سکتا ہے؟

کینیڈا میں قومی سلامتی اور انٹیلیجنس امور کے ماہر ویزلی وارک کا کہنا ہے نجر کیس سے متعلق ’فائیو آئیز‘ کینیڈا کو اس کارروائی میں ملوث افراد، ان کے طریقۂ واردات اور انٹر سیپٹ کیے گئے رابطوں کی تفصیلات فراہم کر سکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کئی ماہ سے اس معاملے کی تحقیقات کر رہا تھا، تاہم فائیو آئیز کی جانب سے اسے ایسے شواہد ملے ہیں، جس نے بھارتی حکومت کے اس معاملے میں ملوث ہونے سے متعلق ان کی جمع کی گئی معلومات کی تصدیق کی ہے

واضح رہے کہ بھارت ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کر چکا ہے، البتہ کینیڈا کی جانب سے الزامات سامنے آنے کے بعد جہاں دونوں ممالک میں سفارتی تلخیاں بڑھی ہیں، وہیں بھارت نے خالصتان تحریک سے مبینہ طور پر وابستہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی نیشنل انٹیلیجنس ایجنسی (این آئی اے) نے خالصتان تحریک سے تعلق اور غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات کی بنا پر ایسے انیس مفرور افراد کی فہرست تیار کرلی ہے، جو اس وقت کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں

رپورٹس کے مطابق این آئی اے بھارت میں ان مفرور افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرچکی ہے، جس میں غیر قانونی سرگرمیوں کی انسداد کے قانون یو اے پی اے کے تحت جائیداد بھی ضبط کی جارہی ہے

فائیو آئیز میں شامل ممالک کے کینیڈا اور بھارت دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس لیے کینیڈا کے ساتھ موجودہ بحران میں بھارت کے لیے فائیو آئیز کی فراہم کردہ معلومات ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close