کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی روندی جاتی ہے۔ بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ، جہاں گزشتہ چار ماہ سے جاری قبائلی تنازع تاحال جاری ہے۔ حکام کے مطابق اب تک دونوں جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کے باعث نو افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں، جن میں اکثریت راہگیروں کی ہے، جن کا اس سارے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا
وڈھ میں خوف اور دہشت کا عالم ہے۔ جاری کشیدگی کی وجہ سے یہاں بازار ویران ہیں۔ اسکول اور اسپتال بند ہیں، جب کہ گزشتہ چار ماہ سے کرفیو جیسا ماحول ہے، جس سے زندگی کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ڈرون کیمرے سے لی گئی وڈھ شہر کے ایک وڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہر ویران ہے۔ تمام دکانیں بند ہیں اور لوگوں کے مکان بھی خالی ہیں
ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وڈھ شہر میں گزشتہ چار ماہ سے جاری کشیدہ صورتِ حال کے باعث آدھی سے زائد آبادی کراچی، حب چوکی، کوئٹہ اور خضدار نقل مکانی کر چکی ہے
ان کے بقول بازار کی بندش کے باعث علاقے میں لوگوں کے پاس گھر کا راشن بھی ختم ہو گیا ہے
دوسری جانب دیہاڑی داڑ طبقے کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث طلبہ کا تعلیمی سال بھی ضائع ہو رہا ہے
خوف کا یہ عالم ہے کہ عام لوگ تو اپنی جگہ، حکام بھی کھل کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ قلات ڈویژن کے ایک اعلٰی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وڈھ میں فریقین کی جانب سے تاحال ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ اُن کے بقول اب تک چار افراد کی ہلاکت کے مقدمات درج ہو چکے ہیں
یاد رہے کہ وڈھ میں جاری تنازع کے باعث انتظامیہ کو متعدد بار کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو وڈھ کے مقام پر بلاک کرنا پڑا، جس کا مقصد مسافروں کو جانی اور مالی نقصان سے بچانا تھا
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے
وڈھ میں زمین کا تنازع ہے، جس پر اختر مینگل اور میر شفیق مینگل دونوں ہی دعویٰ کر رہے ہیں۔ یوں دونوں گروہوں کی یہ کشمکش اب جنگ کی سی صورت اختیار کر چکی ہے جس سے عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے
وڈھ میں جاری گشیدگی کے حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کا موقف ہے کہ ان کے مخالفین نے وڈھ کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ علاقے میں روزانہ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور بھتہ خوری عام ہے
دوسری جانب جھالان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل کا دعویٰ ہے کہ ان کے مخالف سردار اختر مینگل نے وڈھ شہر میں ان کی آبائی جائیداوں، دکانوں اور ہوٹلوں پر قبصہ کر رکھا ہے
انہوں نے کہا کہ 18 برس قبل بھی مصالحتی کمیٹی ہمارے پاس آئی اور کامیاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی گئی مگر آج 18 سال گزرنے کے باوجود وہ زبان دے کر بھاگ گئے
مقامی صحافی شہزادہ ذوالفقار کے مطابق وڈھ تنازع حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے طول پکڑ رہا ہے
شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ اگر انتظامیہ چاہے تو یہ مسئلہ فوری حل ہو سکتا ہے۔ انتظامیہ علاقے کی خراب صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایف سی کو بھی طلب کر سکتی ہے یہ معاملہ ایک دن میں حل ہو سکتا ہے
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں سابق صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو اور قبائلی و سیاسی رہنما چیف آف ساروان نواب اسلم رئیسانی نے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کیا تھا
انہوں نے کہا کہ وڈھ میں فائرنگ کے باعث روزانہ روڈ بند ہوتا ہے اور کوئٹہ کراچی سفر کرنے والے مسافر ہزاروں مسافروں کی جان و مال کو خطرہ ہے
دوسری جانب وڈھ تنازع پر بنائی گئی مصالحتی کمیٹی کے ممبر نوابزادہ لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ بہت سے تنازعات میں ریاست خود فریق بن گئی ہے
نوابزادہ لشکری رئیسانی کے بقول بہت سے تنازعات کو قبائلی تنازع کا نام دیا جاتا ہے تاہم پس پردہ ان میں ریاست کا ہاتھ بھی ہوتا ہے
اُن کے بقول ہم اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ مصالحتی کمیٹیوں کو مکمل اختیارات ملیں تاکہ ہم مکمل جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہوں
نگراں وزیر داخلہ بلوچستان میر محمد زبیر جمالی کا کہنا ہے کہ وڈھ میں کشیدہ صورتِ حال کے خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت سیاسی و قبائلی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اقدامات کر رہی ہے
ان کا کہنا تھا کہ وڈھ تنازع کو حل کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر خضدار کر رہے ہیں ”امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا“
یہ دعوے گزشتہ حکومت بھی کرتی رہی۔ وہ تو نہ رہی لیکن مسئلہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ ایسے میں حکومتی دعوؤں کے بعد وڈھ کا عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر یہ جلد کب آئے گا، جس کی بات صوبائی نگران وزیر داخلہ کر رہے ہیں؟