طرزِ حیات (افسانہ)

فرنانڈو سورنٹینو (ترجمہ: سجاول سچار)

جوانی میں، کاشتکاری اور مویشی بانی سے پہلے میں ایک بینک میں ملازم تھا اور یہ سب کچھ اس طرح ہوا:
اس وقت میں چوبیس سال کا تھا اور میرا کوئی بھی قریبی رشتہ دار نہیں تھا۔ میں کیننگ اور آروز کے درمیان، سانتا فے ایوینیو پر اسی چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ حادثہ کہیں بھی ہو سکتا ہے حتیٰ کہ کسی چھوٹی سی جگہ پر بھی۔۔ میرے معاملے میں تو یہ ایک چھوٹا سا حادثہ ہی تھا۔ جب میں نے کام پر جانے کے لیے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، چابی تالے کے اندر ہی ٹوٹ گئی۔
پیچ کس اور چمٹی کی مدد سے تالا کھولنے میں ناکامی کے بعد میں نے تالا مرمت کرنے والے کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ مستری کا انتظار کرنے کے دوران میں نے بینک والوں کو اطلاع کر دی کہ آج مجھے تھوڑی تاخیر ہو جائے گی۔

خوش بختی سے، تالاساز بہت جلدی آ گیا۔ اس آدمی کے بارے میں، مجھے بس اتنا یاد ہے کہ اگرچہ وہ جوان نظر آ رہا تھا لیکن اس کے بال بالکل سفید تھے۔ دروازے کے روزن سے میں نے اس سے کہا، ”میری چابی تالے کے اندر ہی ٹوٹ گئی ہے۔“

وہ جھنجھلاہٹ میں بولا، ”اندر کی طرف؟ اگر یوں ہے تو یہ معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ اس صورتحال میں مجھے کم از کم تین گھنٹے لگیں گے اور اس کا معاوضہ ہوگا تقریباً۔۔۔“

اس نے بہت زیادہ پیسے مانگے۔

”میرے پاس ابھی گھر میں اتنی نقدی نہیں ہے۔“ میں نے جواب دیا ”لیکن جیسے ہی میں باہر آؤں گا، بینک سے لا کر تمہیں ادائیگی کر دوں گا۔“

اس نے ملامت بھری نظروں سے مجھے دیکھا، جیسے میں نے کوئی غیر اخلاقی بات کہہ دی ہو، ”معاف کیجئے گا، جناب۔۔“ اس نے ناصحانہ شائستگی سے کہا، ”میں نہ صرف ‘
’انجمن تالا سازاں ارجنٹائن‘ کا باقاعدہ رکن ہوں، بلکہ ہماری تنظیم کے منشور سازوں میں سے ایک ہوں۔ اس کے مطابق رعایت دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آپ اس متاثرکن دستاویز کو پڑھنا گوارا کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ’اساسی قواعد‘ کے باب میں ایک تالاساز کو پیشگی محنتانہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے۔“

میں مسکرایا، ”تم ضرور مذاق کر رہے ہو۔“

”میرے پیارے محترم! ’انجمن تالا سازاں ارجنٹائن‘ کا منشور کوئی مذاق نہیں ہے۔ ہماری تنظیم کے طے کردہ اصول، جن میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا اور جس کے مختلف ابواب بنیادی ضابطہ اخلاق کے عین مطابق ہیں، اسے ہم نے برسوں کی کڑی تحقیق کے بعد تیار کیا ہے۔ ظاہر ہے، ہر کوئی اسے نہیں سمجھ سکتا، جیسا کہ ہم اکثر علامتی اور مرموز زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، مجھے یقین ہے کہ آپ ہماری دستاویز کی شق نمبر 7 کو سمجھیں گے: ’دولت سے دروازے کھلتے ہیں اور دروازے اسے خوش آمدید کہیں گے‘…“

میں نے اس طرح کی مضحکہ خیزی کو قبول نہ کرتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کی، ”براہ کرم! معقول بات کیجئے۔ ایک بار دروازہ کھلنے دو، اس کے بعد میں معاوضہ ضرور دوں گا“

”میں معذرت خواہ ہوں جناب! ہر پیشہ کے کچھ اصول ہوتے ہیں، تالاساز اپنے معاملے میں تھوڑے سخت گیر ہیں۔ صبح بخیر صاحب۔“ اور اس کے ساتھ ہی وہ چلا گیا۔۔

میں چند لمحوں کے لیے ششدر وہیں کھڑا رہا۔ اس کے بعد میں نے بینک میں دوبارہ فون کیا اور انہیں بتایا کہ آج میں شاید نہ آ پاؤں۔ پھر میں نے سفید سر والے اس تالاساز کے بارے میں سوچا اور خود سے کہا، ”وہ خطبی ہے۔ میں تالاساز کی کسی دوسری دکان کو فون کرنے جا رہا ہوں، اور اب کسی بھی صورت ہرگز نہیں بتاؤں گا کہ میرے پاس فی الحال پیسے نہیں ہیں، حتیٰ کہ وہ دروازہ کھول دے۔“

میں نے ٹیلی فون ڈائریکٹری سے نمبر تلاش کیا اور فون ملایا۔
”کس پتے پر؟“ ایک نسوانی آواز نے مجھ سے پوچھا

”3653 سانتا فے، اپارٹمنٹ 10- اے۔“

وہ پل بھر ہچکچائی، مجھے پتہ دوہرانے کے لئے بولا اور کہنے لگی، ”ناممکن، جناب! ’انجمن تالا سازاں ارجنٹائن‘ کے تازہ ترین اعلامیہ کے مطابق ہمیں اس پتے پر کسی بھی طرح کی خدمات مہیا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔“

میں غصے کی آگ میں بھڑک اٹھا، ”سنو تم! یہ کیا مذاق۔۔۔۔“
میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے فون بند کر دیا

تب میں نے دوبارہ ٹیلی فون ڈائریکٹری اٹھائی اور تالا سازوں کی بیسیوں دکانوں پر فون کیا۔ پتہ سنتے ہی سبھی نے کام کرنے سے صاف انکار کر دیا

”ہاں، ٹھیک ہے۔۔۔“ میں نے خود سے کہا، ”میں کوئی اور حل ڈھونڈ نکالوں گا۔“

میں نے عمارت کے چوکیدار کو فون کرکے اپنا مسئلہ بتایا۔

”دو باتیں ہیں“ اس نے جواب دیا، ”اوّل، میں نہیں جانتا کہ تالا کیسے کھولتے ہیں اور دوم یہ کہ اگر مجھے معلوم بھی ہو تو میں نہیں کھولوں گا، کیونکہ میرا کام اس جگہ کی صفائی کرنا ہے نہ کہ مشکوک پرندوں کو پنجروں سے اڑانا۔۔ ویسے بھی آپ نے مجھے بخشش دینے میں کبھی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔“

اس کے بعد میں بہت پریشان ہو گیا اور اوپر تلے کئی بیکار اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگا۔ میں نے ایک پیالہ کافی ختم کی، سگریٹ پھونکا، بیٹھ رہا، کھڑا ہوا، چہل قدمی کی، اپنے ہاتھ دھوئے، ایک گلاس پانی پیا۔۔

پھر مجھے مونیکا ڈی چیاؤ یاد آئی، میں نے اس کا نمبر ملایا، انتظار کیا، اس کی آواز سنی: ”مونیکا!“ لہجے میں مصنوعی شیرینی گھولتے ہوئے میں نے کہا، ”کیسی ہو جانِ من؟ کیا ہو رہا ہے؟“

اس کے جواب سے میں کانپ اٹھا ”تو آخر تمہیں میری یاد آ ہی گئی؟ میں بتا سکتی ہوں کہ تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو۔ تقریباً دو ہفتوں سے تمہاری کوئی خبر نہیں ہے۔“

خواتین سے بحث کرنا میری استطاعت سے باہر ہے، بالخصوص اس نفسیاتی الجھن کے ہوتے، جس میں میں پھنسا ہوا تھا۔ پھر بھی، میں نے اسے جلدی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے ساتھ کیا پیش آیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ میری بات سمجھ نہیں پائی یا مجھے سننے سے انکار کر دیا۔ جو آخری بات اس نے فون رکھنے سے پہلے کہی، وہ تھی: ”میں کسی کا کھلونا نہیں ہوں!“

اب مجھے مہمل اور غیرمنطقی اقدامات کرنے کا دوسرا سلسلہ انجام دینا تھا۔

پھر میں نے بینک میں فون کیا، اس امید میں کہ شاید کوئی ساتھی ملازم آ کر دروازہ کھول دے۔ شومئی قسمت۔۔۔ میرے حصے میں اینزو پیریدیس سے بات کرنا آیا، ایک کم عقل مسخرا، جس سے مجھے نفرت تھی۔۔ ”تو تم اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے؟“ اس نے واہیات طریقے سے کہا، ”تمہارے کام پر نہ آنے کے بہانے کبھی ختم نہیں ہوتے!“

اس کی باتیں سن کر مجھے قتل جیسے خیال نے آن جکڑا۔ میں نے فون کاٹ دیا، پھر سے ملایا اور مائکل اینجلو لاپورتا سے بات کرنا چاہی، جو قدرے ہوشیار تھا۔ یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ حل نکالنے کا آرزومند تھا، ”بتاؤ مجھے، چابی ٹوٹی ہے یا تالا؟“

”چابی۔۔“

”اور کیا وہ اندر رہ گئی ہے؟“

”اس کا نصف حصہ اندر رہ گیا ہے۔“ میں نے، جو اس تفتیش سے پہلے ہی اکتا چکا تھا، جواباً کہا، ”اور باقی کا باہر۔“

”کیا تم نے اندر پھنسے ہوئے حصہ کو پیچ کس سے نکالنے کی کوشش نہیں کی؟“

”ہاں، بالکل میں نے کوشش کی ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں۔“

”اوہ! اچھا، پھر تو تمہیں کسی تالاساز کو بلانا پڑےگا؟“

”میں بارہا فون کر چکا ہوں۔“ میں نے طیش، جس سے میرا دم گھٹ رہا تھا، دباتے ہوئے جواب دیا، ”لیکن وہ پیشگی پیسے مانگتے ہیں۔“

”تو دے دو نا اور پریشانی ختم۔“

”تم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں!!“

پھر وہ اوب گیا ”میرے دوست! تمہیں عجیب پریشانیاں لاحق ہیں۔۔“

میں فوراً جواب نہیں دے سکا۔ مجھے اس سے کچھ رقم مانگنی چاہیئے تھی، لیکن اس کی نکتہ چینی نے مجھے چکرا دیا اور میں کچھ سوچ ہی نہیں پایا

اور اس طرح دن اختتام کو پہنچا۔۔

اگلے دن میں جلدی اٹھا تاکہ مدد کے لیے مزید فون کر سکوں۔ لیکن حسبِ معمول ٹیلیفون خراب تھا۔ ایک اور ناقابل حل مسئلہ: فون کال کے بغیر اب کیسے اسے ٹھیک کرنےکی درخواست کروں؟

میں باہر بالکونی میں گیا اور سانتا فے اوینیو پر چل رہے لوگوں کو دیکھ کر چلانے لگا۔ سڑک پر کافی شور تھا، دسویں منزل سے کسی کی پکار کون سنتا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ کسی اجنبی نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور پھر آگے بڑھ گیا۔۔

اس کے بعد میں نے ٹائپ رائٹر میں پانچ کاغذ اور چار کاربن لگائے اور درج ذیل پیغام لکھا:
”عزت ماب خواتین و حضرات! میری چابی تالے کے اندر ٹوٹ گئی ہے۔ میں دو دن سے گھر میں قید ہوں، براہ کرم میری رہائی کے لیے کچھ کیجئے۔ 3653 سانتا فے، اپارٹمنٹ 10- اے۔“

میں نے جنگلے سے پانچوں کاغذ نیچے پھینک دیے۔ اتنی بلندی سے، سیدھا نیچے گرنے کا امکان بہت کم تھا۔ تند و تیز ہوا کے دوش پر وہ کافی وقت ادھر ادھر پھڑپھڑاتے رہے۔ تین سڑک پر گرے اور مسلسل رواں دواں گاڑیوں سے کچلے جانے کے بعد سیاہ پڑ گئے۔ چھوتھا ایک دکان کے سائبان پر جا اُترا۔ لیکن آخری والا پانچواں کاغذ ٖفٹ پاتھ پر گرا۔ تبھی ایک پستہ قد آدمی نے اسے اٹھایا اور پڑھنے لگا۔ پھر اس نے بائیں ہاتھ سے آنکھوں پر سایہ کرتے ہوئے اوپر جھانکا۔ میں نے دوستانہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ اس شریف انسان نے کاغذ کو پھاڑ کر متعدد ٹکڑے کئے اور انییں غصے سے گٹر میں پھینک دیا۔۔

مختصر یہ کہ مزید کئی ہفتوں تک میں نے ہر طرح سے کوشش کی۔ میں نے بالکونی سے سیکڑوں پیغام پھینکے؛ یا تو انہیں پڑھا نہیں گیا اور اگر کسی نے پڑھا بھی تو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ایک دن میں نے ایک لفافہ دیکھا، جسے میرے اپارٹمنٹ کے دروازے سے نیچے کھسکایا گیا تھا۔ ٹیلی فون کمپنی بل کی عدم ادائیگی کے باعث اپنی خدمات معطل کر رہی تھی اور پھر آگے چل کر اسی طرح میرا یکے بعد دیگرے گیس، بجلی اور پانی کا کنیکشن بھی منقطع ہو گیا۔

ابتدا میں، مَیں نے اپنا راشن بری طرح ختم کیا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ یوں نہیں چل سکتا۔ میں نے بارش کا پانی اکٹھا کرنے کے لیے بالکونی میں بھگونے رکھے۔ میں نے پھولوں کے پودے اکھاڑ پھینکے اور ان گملوں میں ٹماٹر، دالیں اور دوسری سبزیاں اگانا شروع کی، جن کی دیکھ بھال میں محنت اور لگن سے کرتا ہوں۔ لیکن مجھے پروٹین کے لیے گوشت کی بھی ضرورت تھی، اس لئے میں نے کیڑوں، مکڑیوں اور چوہوں کی پرورش سیکھی، بالخصوص قید کرکے ان کی افزائش نسل کیسے کی جائے؛ کبھی کبھی میں کوئی چڑیا یا کبوتر بھی پکڑ لیتا ہوں۔

جب دھوپ ہوتی ہے تو آتشی عدسہ اور کاغذ کی مدد سے آگ جلا لیتا ہوں۔ ایندھن کے لیے میں دھیرے دھیرے کتابیں، فرنیچر اور چوبی فرش کام میں لا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے گھر میں ہمیشہ ضرورت سے زیادہ ہی سامان رہتا ہے۔

میں بڑے آرام سے ہوں، حالانکہ میرے پاس بعض چیزوں کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر مجھے آگاہی نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ میں اخبار نہیں پڑھتا، میرا ٹیلی ویژن اور ریڈیو کام نہیں کر رہے۔

بالکونی سے میں بیرونی دنیا کو دیکھتا ہوں اور مجھے چند تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پر ٹھیلے چلنا بند ہو گئے، لیکن میں نہیں جانتا یہ کتنا عرصہ پہلے ہوا تھا۔ میں نے وقت کا تصور کھو دیا ہے، لیکن آئینہ، میرا گنجاپن، لمبی سفید داڑھی اور جوڑوں کا درد مجھے بتاتے ہیں کہ میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں۔

تفریح طبع کے لیے میں اپنے خیالات کو بے لگام چھوڑ دیتا ہوں۔ مجھے چنداں خوف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عزائم ہیں۔

ایک لفظ میں کہوں تو میں نسبتاً خوش ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close