خزانے والا خواب برسوں پرانا تھا،
ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے کہا تھا۔۔۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اس گھر میں کہیں خزانہ ہے۔‘‘
ان کی خاموشی پر وہ جھجک سی گئی۔۔۔ ’’رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔‘‘
اس نے پوچھا۔۔۔ ’’کون سا خواب؟‘‘
’’وہی خزانے والا۔۔۔ میں وہاں تک پہنچ بھی گئی تھی۔‘‘
اس نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ’’تو پھر نکال کیوں نہ لائیں؟‘‘
’’بس‘‘ ماں نے جھرجھر لی۔۔۔ ’’میں وہاں تک پہنچ تو گئی، لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ چھوٹی بہن نے جلدی سے پوچھا۔
’’جب میں نے ہاتھ بڑھا کر اٹھانا چاہا تو۔۔۔‘‘ ماں نے پھر جھرجھری لی، ایک لمحہ کے لیے جیسے خواب اس کی آنکھوں میں مجسم ہو گیا۔۔۔ ’’کسی نے میری کلائی پکڑ لی۔‘‘
وہ ہنس پڑا۔۔۔ ’’خزانے کے سانپ کی بات تو سنی ہے لیکن سانپ نے کلائی کب سے پکڑنی شروع کر دی ہے۔‘‘
ماں نے برا سا منہ بنایا اور بولی۔۔۔ ’’تم بس مذاق ہی اڑانے کے لیے ہو، لیکن میں سچ کہتی ہوں اس گھر میں کہیں خزانہ ضرور ہے، ایک دن تم۔۔۔ یاد رکھنا بس۔‘‘
اس نے کندھے جھٹکے۔۔۔ ’’جلدی سے چائے بنا دیں، دفتر دیر ہو رہی ہے۔‘‘
بس میں سوار ہوتے ہوئے اسے ایک لمحہ کے لیے ماں کی بات یاد آئی اور خزانے کی نرم نرم گرمی اس کے جسم میں لہراتے لمس کی طرح رقص کرنے لگی، لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی نظریں اگلی سیٹوں سے جا چپکیں، وہ ابھی ابھی سوار ہوئی تھی اور کن انکھیوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نظروں ہی نظروں میں اسٹاپ آ گیا۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے سرگوشی کی۔۔۔ ’’واپسی پر چائے کا کپ چلے گا نا۔‘‘
وہ مسکرائی اور اٹھلاتی ہوئی آگے نکل گئی۔
چائے پیتے ہوئے وہ چپ چپ رہی۔
اس نے پوچھا۔۔۔ ’’کیا بات ہے، آج ہیڈ مسڑیس سے ڈانٹ تو نہیں پڑی؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘
’’پھر‘‘
’’بس اب تم ماں جی کو ہمارے گھر بھیج ہی دو۔‘‘
وہ چپ ہو گیا، بہت دیر چپ رہا، پھر بولا۔۔۔ ’’بھیج دینے میں تو ہرج نہیں اور ماں آنا بھی چاہتی ہے، لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘
’’سوچتا ہوں کہ کچھ ہاتھ کھل جاتا تو اچھا تھا۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے اسے خزانے کا خیال آیا، کیا معلوم واقعی گھر میں کہیں خزانہ ہو۔۔۔ اگر ہاتھ آ جائے تو۔۔۔ ایک گرم لہر نے اس کے اندر انگڑائی لی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ ہنسی۔۔۔ ’’اندر ہی اندر مسک رہے ہو۔‘‘
’’بس ایسے ہی۔۔۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔۔۔ ’’خواب بھی عجب چیز ہیں۔‘‘
’’سوچتا ہوں اگر خواب نہ ہوتے تو ہم جیسوں کا کیا بنتا۔‘‘
وہ ہنسی۔۔۔ ’’اسی تنخواہ پر گزارہ کرتے۔‘‘
چند لمحے خاموشی رہی، پھر بولی۔۔۔ ’’تو کب آ رہی ہیں ماں جی؟‘‘
’’جب کہو‘‘ اس نے شانے اچکائے۔۔۔ ’’لیکن بہنوں کی شادی ہو جاتی تو اچھا تھا۔ باپ تو میرا ہے نہیں، آخر یہ سب کرنا تو مجھے ہی ہے۔‘‘
’’تو مل کر کریں گے‘‘ اس نے اس کا ہاتھ دبایا۔۔۔ ’’اب تم اکیلے ہو، پھر میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔‘‘
وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ بس خیال سا آیا کہ کیا معلوم گھر میں کہیں خزانہ ہو ہی؟
رات کو کھانا کھاتے ہوئے اس کا دل چاہا کہ ماں خزانے والی بات پھر چھیڑ لے، لیکن ماں کو اس رات گیس اور بجلی کے بلوں کی فکر تھی کہ اگلے دن ان کی آخری تاریخ تھی۔
پھر کئی ماہ گزر گئے۔ خزانے اور خواب آئے گئے ہو گئے۔ اس دوران ماں اس کی شادی کی بات پکی کر آئی۔
ایک صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماں نے پھر خزانے کا ذکر چھیڑا اور بولی۔۔۔ ’’رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا ہے۔۔۔ لیکن بس۔۔۔‘‘ لمحہ بھر چپ رہنے کے بعد بولی۔۔۔
’’بس کوئی میری کلائی پکڑ لیتا ہے، ٹھنڈے برف ہاتھ والا۔‘‘
بہن نے پوچھا۔۔۔ ’’آپ نے مڑ کر دیکھا کہ وہ کون ہے؟‘‘
ماں نے خوف سے جھرجھری لی۔۔۔ ’’ایک ٹھنڈا برف ہاتھ، میرا تو سارا جسم کانپنے لگتا ہے اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔‘‘
وہ بولا تو کچھ نہیں لیکن سوچا۔۔۔ کیا معلوم واقعی یہاں خزانہ ہو اور یہ کوئی غیبی بشارت ہی ہو؟
اگلے دن ماں اور بہنوں نے اس کے سسرال تاریخ مقرر کرنے جانا تھا۔
وہ گھر میں اکیلا رہ گیا، کچھ دیر پڑھتا رہا، پھر جانے کیسے خزانے کا خواب آہستہ آہستہ دبے پاؤں اس کے اندر داخل ہوا اور لمحوں میں سارے وجود پر پھیل گیا۔
اس نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور سوچنے لگا کہ اگر خزانہ ہے تو کہاں ہو سکتا ہے؟
برسوں سے خزانے کا ذکر سنتے سنتے ایک دو جگہیں اس کے ذہن میں کلبلاتی رہتی تھیں، لیکن دوسروں کی ہنسی اور اس خوف سے کہ کہیں اس کے تجسّس کا مذاق نہ اڑایا جائے اسے کبھی انہیں دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اب گھر خالی دیکھ کر اس نے پرانے تھیلے سے چھینی اور ہتھوڑا نکالا اور بڑے دالان کی الماری کے آخری خانے کی طرف چل پڑا۔ یہ خانہ اسے ہمیشہ اندر سے کھوکھلا محسوس ہوا تھا۔ کیا معلوم اس کے نیچے کوئی خفیہ خانہ ہو اور اس میں۔۔۔ تختہ نکالتے نکالتے اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا، لیکن خزانے کے گرم گرم لمس نے درد کا احساس ابھرنے نہ دیا۔ خانے کے نیچے کچھ بھی نہیں تھا۔
لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔
سونے کے کمرے کے فرش کا ایک ٹکڑا بھی اسے مشکوک لگتا تھا۔ تختے کو اپنی جگہ جما کر اس نے سونے کے کمرے کی غربی دیوار کے ساتھ ان دو اینٹوں کو نکالا جو ذرا مختلف انداز سے لگی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں سے بھی کچھ نہ نکلا۔ ایک دو جگہیں اور بھی تھیں لیکن گھر والوں کی واپسی کا وقت ہوا جا رہا تھا۔
اگلے چند دن شادی کی تیاریوں اور ہنگاموں میں گزر گئے۔ بیوی کے آنے سے گھر میں کچھ آسانیاں ہو گئیں۔ اس کی تنخواہ نے کئی رکی ہوئی ضرورتوں کو پہیے لگا دئیے۔ جہیز کی چیزوں نے خالی گھر کو بہت حد تک بھر دیا۔
اگلے دو سالوں میں بہنیں بھی بیاہ کر اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔
اس دوران ماں کبھی خواب کا ذکر کرتی تو چند دنوں کے لیے خزانے کا تصور اسے ایک نئی گرماہٹ سے آشنا رکھتا۔ وہ موقعہ دیکھ کر مختلف جگہوں کی کھدائی کر تا رہتا۔ مایوس ہوتا، چند دن بعد کسی دوسری جگہ کا انتخاب کرتا۔۔۔ کچھ دن خزانے کا خواب اسے نرم گرم بکل میں دبائے رکھتا، پھر آہستہ آہستہ زندگی کی رواروی کی ٹھنڈک اس پر غالب آ جاتی۔
ماں بھی اب خزانے کا ذکر سب کے سامنے نہ کرتی، شاید اسے بہو کے سامنے اپنے خواب کا ذکر کرتے جھجک آتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی جب بہو باورچی خانے میں ہوتی تو اِدھر ادھر دیکھ کر سرگوشی کرتی۔۔۔ ’’خزانہ کہیں ہے ضرور۔‘‘
وہ سنجیدگی سے پوچھتا۔۔۔ ’’لیکن کہاں؟‘‘
اور کبھی مذاق سے کہتا۔۔۔ ’’تو کیا سارے گھر کو کھود ڈالوں، ایک گھر ہی تو ہے ہمارے پاس۔‘‘
ماں چپ ہو جاتی اور خزانے کے ذکر پر کئی کئی مہینوں کی دھول پڑ جاتی، لیکن مرنے سے چند روز پہلے وہ تواتر سے خزانے کا ذکر کرنے لگی۔ ناشتہ کی میز پر جونہی بہو کچھ لینے ادھر ادھر ہوتی وہ سرگوشی میں کہتی۔۔۔ ’’پھر وہی خواب۔۔۔ ضرور یہ کوئی غیبی بشارت ہے۔‘‘
بظاہر وہ اس کی بات پر توجہ نہ دیتا لیکن اندر ہی اندر اسے یقین سا ہونے لگتا کہ خزانہ کہیں ہے ضرور۔ سب کی نظریں بچا کر وہ ان جگہوں کو بار بار دیکھتا جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ وہاں خزانہ ہو سکتا ہے۔
ماں کے مرنے کے بعد بھی خزانے کا تصور اس کے ذہن سے پوری طرح محو نہ ہوا۔ مرنے سے ایک دن پہلے اس نے پھر کہا تھا۔۔۔ ’’میرا خواب جھوٹا نہیں ہو سکتا، یہ تو غیبی اشارہ ہے۔‘‘
جب کبھی گھر خالی ہوتا تو وہ پرانے تھیلے سے اپنے اوزار نکال کر مختلف جگہیں ٹٹولتا۔ واپسی پر اس کی بیوی کسی اکھڑی ہوئی اینٹ یا الماری کا ٹوٹا خانہ دیکھ کر استفسار کرتی تو وہ اِدھر ادھر کی باتیں کر کے ٹال دیتا۔ کچھ دن کے لیے خزانے کا تصور دھند لا جاتا، پھر کسی صبح ماں یاد آ جاتی تو خزانہ بھی چمکنے لگتا اور جب بیوی بچوں کو لے کر کسی دن میکے جاتی تو وہ اپنے اوزاروں کے تھیلے کو نکال لیتا۔۔۔ ہاتھ زخمی ہوتے، دیواروں کا اکھڑا پلستر گھر کی خستگی میں اور اضافہ کر دیتا۔
پھر متعدد الماریوں، دیواروں اور فرش کے حصوں کو اکھیڑ اکھیڑ کر وہ خزانے سے مایوس ہو گیا اور رفتہ رفتہ کئی سالوں میں خزانے کا خواب، اس کی گرماہٹ اور چمک اس کی زندگی سے نکل گئی۔
لیکن اب برسوں بعد ناشتہ کرتے ہوئے جب اس کے بیٹے نے یہ کہا کہ ’’ابو! میرا خیال ہے اس گھر میں کہیں خزانہ ہے۔‘‘ تو وہ چونک پڑا۔
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘
بیٹا ایک لمحے چپ رہا پھر بولا۔۔۔ ’’ابو میں نے رات خواب دیکھا ہے۔‘‘
جواباً وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ اسے یاد آیا کہ اگلے ماہ وہ دونوں میاں بیوی ریٹائر ہو جائیں گے تو گھر کا سارا بوجھ بیٹے پر آن پڑے گا۔ اس نے اپنے کندھے پر اس ٹھنڈے برف ہاتھ کی ٹھنڈک کو محسوس کیا۔ ایک انجانا خوف اس کے سارے وجود پر چھا گیا۔ بڑی حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔۔۔ ’’شاید وراثت میں خواب بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔‘‘