پاکستان: سویلین اداروں میں فوجی افسران کی بھرمار۔۔

ویب ڈیسک

حال ہی میں ایک اور اہم ادارے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین کے عہدے پر حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل منیر افسر کا تقرر کیا گیا ہے، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے، جبکہ حکومت اس تقرری کا بھرپور دفاع کر رہی ہے

کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے بیرونِ ملک مقیم حامیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے، جب کہ کچھ اسے سویلین اداروں پر فوج کا کنٹرول بڑھانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں

واضح رہے کہ منیر افسر کے تقرری کی منظوری وفاقی کابینہ نے پیر کو دی تھی۔ نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے رواں برس جون میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے استعفیٰ کے پیچھے بھی مقتدر حلقوں کی دباؤ کی افواہیں گردش کر رہی تھیں

مختلف حلقوں کی جانب سے چیئرمین نادرا کے عہدے پر ایک جرنیل کی تقرری کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ اس عہدے کو انتہائی ٹیکنیکل سمجھا جاتا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ نادرا کے سربراہ کو ڈیٹا بیس اور رجسٹریشن سے متعلق امور پر بہت مہارت حاصل ہو

جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس تقرری پہ تبصرہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا، ”کچھ باقی بچا ہے؟‘‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایکس پر لکھا، ”ایک حاضر سروس جنرل کی تعیناتی پر مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف ردعمل آئے گا۔ بصد احترام، کاش یہ سویلین عہدے، جیسے ڈی جی ملٹری لینڈ اور اب نادرا کی پوسٹ کے بجائے، سیاچن فتح کرتے۔‘‘

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان گزشتہ ہچاس سال سے وفاقی پارلیمانی اکائی ہے، لیکن بقول ان کے، ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سال کے علاوہ ملک پر ہمیشہ بلا واسطہ یا بالواسطہ جرنیلوں کا کنٹرول رہا ہے

افراسیاب خٹک کہتے ہیں ”اب پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، جس میں جرنیل ریاست کے تمام اکائیوں پر مسلط ہیں، چاہے وہ معیشت ہو یا سیاست۔۔ ان جرنیلوں کو افسر شاہی سرمایہ دار طبقے کا نام دیا جا سکتا ہے، یہ افسر شاہی سرمایہ دار طبقہ، قومی سرمایہ دار طبقے سے مقابلے میں ہے۔ جرنیلوں نے مقابلے کے امتحان کے بغیر ہی سویلین پوسٹوں پہ قبضہ کیا ہوا ہے۔‘‘

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی تقرری فوج کے پروفیشنلزم کو متاثر کرتی ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے ”اس وقت ملک میں دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ اگست اور ستمبر اس حوالے سے انتہائی خطرناک رہے ہیں۔ ایسے میں فوج کو دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ جن کے پاس لڑنے کی صلاحیت ہے، ان کو سویلین اداروں میں متعین کیا جا رہا ہے۔‘‘

ڈاکٹر طلت اے وزارت کہتے ہیں ”سویلین اداروں میں تقرری سے انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں کی بھی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ملک میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ انٹیلیجنس اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کا کھوج لگاتی لیکن وہ کھوج لگانے میں ناکام ہوئی۔‘‘

واضح رہے کہ ملک میں اس وقت کئی سویلین اداروں میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسران کی اچھی خاصی تعداد کام کر رہی ہے، جیسے کہ نیب کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ، واپڈا کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ سجاد غنی، سربراہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی جنرل انعام حیدر ملک اور سربراہ اینٹی نارکوٹکس میجر جنرل محمد انیق الرحمان ہیں۔ اس کے علاوہ نیب، این ڈی ایم اے اور نادرا میں کئی دوسرے عہدوں پر بھی فوجی افسران کام کر رہے ہیں۔ جبکہ سپارکو میں بھی کلیدی عہدوں پر فوجی افسر براجمان ہیں

ایسے میں کئی ذہنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سویلین اداروں میں فوجی تعیناتیوں پر قانون کیا کہتا ہے؟

اس حوالے سے معروف قانون دان شیعب شاہین ایڈوکیٹ کہتے ہیں ”نادرا کے چیئرمین کے تقرر میں قانون کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ پہلے اشتہار دیا جائے، امیدوار تمام شرائط پر پورا اتریں، پھر سلیکشن کمیٹی تین امیدواروں کے ناموں کی سفارش کرے اور پھر تقرر کیا جائے۔‘‘

شیعب شاہین کا الزام ہے کہ اس تقرری میں سارے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

وفاقی حکومت کے ایک سابق افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”سویلین اداروں کو چلانے کے لیے بیوروکریٹس کو بہت سخت ٹریننگ دی جاتی ہے اور ان کا وسیع تجربہ ہوتا ہے، لیکن فوجی افسران بغیر کسی تجربے کے اعلٰی عہدوں پر تعینات ہو جاتے ہیں۔ اسٹیل مل، واپڈا اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں فوجی افسران بھیجے گئے اور ان کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔‘‘

دوسری جانب حکومت کی طرف سے اس تقرری کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں استفسار پر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اپنے اس بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ اس ادارے کا تعلق قومی سلامتی سے ہے اور اس کے پاس بہت اہم ڈیٹا ہے

سرفراز بگٹی کہتے ہیں ”یہ تقرری قومی سلامتی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈجیٹل اسپیس کے حوالے سے نئے چیئرمین کا وسیع تجربہ بھی ہے اور وہ اس عہدے کے لیے اہل بھی ہیں۔‘‘

سرفراز بگٹی نے مزید کہا، ”میرے خیال میں ان کا آنا قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ قومی سلامتی اور آئی ٹی میں ان کے تجربے سے نادرا میں بہتری آئے گی۔ کالی بھیڑوں کی نہ صرف شناخت ہوگی بلکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں بھی کھڑا کیا جائے گا اور سزا بھی ہوگی۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close