سکھر کے راجا، جو اب بھی لچھے دار ٹافی بیچتے ہیں۔۔

ویب ڈیسک

بچپن کے دن کتنی پیاری باتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔۔ کیا آپ کو اپنا بچپن یاد ہے؟ کیسی میٹھی یادیں ذہن کے کسی گوشے میں چھپی ہوئی ہیں۔

چینی ڈال کر لپیٹا گیا روٹی کا رول، سوجی کی مٹھائی، مسی روٹی، پنجیری، پِنّیاں، بالو شاہی، مرونڈا، گچک، سوکھا دودھ، ڈیکو مکھن ٹافی اور ان سب میں بچپن کی سب سے اچھوتی چیز لچھے دار ٹافی

کیا دن تھے وہ بھی، محلہ میں گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دیتی، ہم بھی فوراً باہر نکلتے، ایک بابا جی ایک ڈنڈا پکڑے ہوتے جس کے اوپری سرے پر اس جادو بھری دیسی کینڈی کا گولہ لپٹا ہوا ہوتا۔ مخصوص انداز میں گھنٹی بجا کر گلی گلی فروخت کی جانے والی لچھا کینڈی ہر بچے کی پسندیدہ چیز ہوتی تھی، جس سے ہر بچہ اپنا پسندیدہ ڈیزائن بنواتا۔ مجھے بطخ بنا دو، مجھے مور بنادو، مجھے مرغی، مجھے سائیکل، مجھے جہاز۔۔۔ کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ پسند ہوتا

بابا جی ٹافی کو کبھی مرغی، کبھی بطخ کبھی مور کی شکل دے کر اسے ایک تیلہ پر لگا دیتا اور ہم پھر اس محنت کو ایک منٹ میں زبان پر گھول لیتے۔۔ اٹھنی، ایک روپیہ کی لچھا کینڈی اور اتنی محنت سے بنایا ہوا پرندہ دو منٹ میں چٹ کر جاتے

آج زمانہ بدل گیا ہے، لچھے کی جگہ کاٹن کینڈی نے لے لی ہے، لیکن سکھر کے راجہ، جو اب بھی لچھے دار ٹافی بیچتے ہیں

راجا اپنے خاندان والوں کے ساتھ مل کر پچھلے بیس سالوں سے لچھے والی ٹافی بنانے اور بیچنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کے والد اور دو بھائی بھی لچھے کے کام سے منسلک ہیں

راجا بتاتے ہیں ”ہم مختلف شہروں میں جا کر مزدوری کا یہ کام کرتے ہیں۔ ہم مختلف شہروں میں ایک گروپ کی شکل میں جاتے رہتے ہیں، تا کہ مل کر یہ کام کر سکیں۔“

انہوں نے بتایا ”اسے تیار کرنے کے لیے چینی کا شیرا تیار کیا جاتا ہے، جسے آگ پر پکا کر گاڑھا ہونے کے بعد، اس میں مینتھول، دودھ اور الائچی ڈالی جاتی ہے۔ خشک ہونے پر اس میں فوڈ کلر ڈال کر اسے ایک بڑے ڈنڈے پر لپیٹ دیا جاتا ہے اور پھر گلی گلی جا کر اسے فروخت کرتے ہیں۔“

اسے فروخت کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ اس کے لیے راجا، ان کے والد اور بھائیوں کو کئی گلیوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں ”روزانہ ہم پچیس سے تیس کلومیٹر پیدل چلتے ہیں، اکثر جب شام کو واپس لوٹتے ہیں تو تھکن سے چور ہو جاتے ہیں، مگر پھر بھی آرام نہیں کر سکتے۔۔ شام کو واپسی پر کھانا کھاتے ہی اگلے روز کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔“

راجا کے مطابق اس کی تیاری میں انہیں چار سے پانچ گھنٹے لگتے ہیں، جس کے بعد ہی وہ سوتے ہیں

راجہ نے بتایا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مضرِ صحت ہے مگر، ان کے مطابق، ایسا بالکل نہیں۔ یہ چینی، الائچی، دودھ اور مینتھول سے مل کر بنتی ہے

بچوں میں اس ٹافی کی مقبولیت کے حوالے سے راجا نے بتایا ”اس سے مختلف ڈیزائن جس میں چڑیا، طوطے، کبوتر، دل، گڑیا اور ہاتھی سمیت بچوں کی فرمائش پر بہت سی اشیا بنا کر دیتے ہیں جبکہ یہ چیزیں دس سے بیس روپے کی بنائی جاتی ہیں۔ قیمت ڈیزائن کے حساب سے لیتے ہیں“

راجا نے بتایا کہ اس کی زیادہ فروخت سکولوں کے باہر ہوتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close