فلسطینی اسلامی گروپ حماس کے حالیہ حملے کو سنہ 1973 کی جنگ کے بعد سے اسرائیلی دفاعی حدود کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے جس میں تنظیم نے زمینی، بحری اور فضائی حملے کیے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دھوکہ دہی کی ایک محتاط مہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ حماس کا حملہ نہ صرف اسرائیلی فوج کے لیے حیرت کا باعث ہو بلکہ ایسے وقت پر کیا جائے جب وہ اس کی توقع بھی نہ کر رہے ہوں
حماس کے ایک ذرائع نے بتایا کہ جب اسرائیل کو یہ باور کرا دیا گیا کہ غزہ کے ورکرز کو معاشی مراعات فراہم کر کہ اس نے جنگ سے تھکے ہوئے حماس پر قابو پا لیا ہے، تو اس وقت تنظیم کے جنگجوؤں کو ٹریننگ فراہم کی جا رہی تھی اور حماس یہ کام کسی ڈھکے چھپے انداز میں بھی نہیں کر رہا تھا
ذرائع نے یوم کپور کے بعد ہونے والے اس خوفناک حملے کی منصوبہ سازی سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ”حماس نے اسرائیل کو یہ تاثر دیا کہ وہ لڑائی کے لیے تیار نہیں ہے“
”حماس نے گزشتہ مہینوں میں بے مثال انٹیلیجنس حربوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو گمراہ کیا، عوامی سطح پر یہ تاثر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ لڑنے یا تصام کے لیے رضامند نہیں ہے جبکہ دوسری جانب اس وسیع آپریشن کی تیاری کر رہا تھا“
اسرائیل تسلیم کر چکا ہے کہ یہ حملہ ان کے لیے حیران کن تھا اور ایسے وقت پر ہوا جب وہ اس کی توقع نہیں کر رہے تھے
حماس کے جنگجو اسرائیلی شہروں پر حملہ آور ہوئے، 700 اسرائیلیوں کو ہلاک کر ڈالا جبکہ درجنوں کو اغوا کیا
دوسری جانب اسرائیل غزہ پر حملے میں 400 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے
اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان میجر نیر دینار نے کہا ”یہ ہمارا 9/11 ہے۔ انہوں نے ہمیں حیران کر کے رکھ دیا اور بہت تیزی سے مختلف مقامات سے آئے۔۔ فضا، زمین اور سمندر سے“
حماس کے لبنان میں نمائندے اسامہ حمدان نے روئٹرز کو بتایا کہ حملے سے یہ واضح ہوا ہے کہ اسرائیل کی عسکری طاقت اور صلاحیتوں کے باوجود فلسطینیوں میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا عزم قائم ہے
حماس کے ایک اور قریبی ذرائع نے بتایا کہ اس حملے کی تیاری کا ایک اہم حصہ یہ تھا کہ تنظیم نے غزہ میں ایک جھوٹی اسرائیلی آبادی قائم کی جس پر حملے اور لینڈنگ کی مشق کرتے تھے اور اس کی ویڈیوز بھی بناتے تھے
”اسرائیل نے یقیناً یہ کرتے ہوئے انہیں دیکھا ہوگا لیکن وہ قائل تھا کہ حماس کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا“
اسی دوران حماس نے اسرائیل کو یہ بھی باور کروایا کہ اسے غزہ میں رہنے والے ورکرز کی زیادہ فکر ہے کہ انہیں سرحد پار نوکریوں تک رسائی ملے اور نئی جنگ شروع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا
ذرائع نے بتایا ”حماس یہ تاثر بنانے میں کامیاب ہوا کہ وہ اسرائیل کے خلاف عسکری مہم جوئی کے لیے تیار نہیں ہے“
2021 میں حماس کے ساتھ جنگ کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو بنیادی سطح کا معاشی استحکام فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور ہزاروں کو اسرائیل یا مغربی کنارے میں کام کرنے کے لیے ورک پرمٹ بھی دیے گئے
اسرائیلی فوج کے ایک اور ترجمان نے کہا ”ہمارا خیال تھا کہ یہ کام کے لیے آ رہے ہیں اور غزہ میں پیسے لا رہے ہیں جس سے کچھ حد تک سکون پیدا ہو گا۔ لیکن ہم غلط تھے“
اسرائیلی سکیورٹی ذرائع نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کی سکیورٹی سروسز حماس کے ہاتھوں بےوقوف بنی ہیں
”انہوں نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انہیں پیسے چاہیے۔ جبکہ اس سارے عرصے کے دوران وہ مشقیں کر رہے تھے جب تک کہ فساد نہ برپا کر دیں“
گزشتہ دو سالوں میں حماس نے ایک اور چال بھی اپنائی جس کے تحت اس نے اسرائیل کے خلاف کسی بھی عسکری آپریشن سے گریز کیا جبکہ اس دوران غزہ سے ایک اور اسلامی گروپ ’اسلامک جہاد‘ نے متعدد حملے اور راکٹ برسائے
ذرائع نے بتایا کہ ایک کمانڈو یونٹ نے اسرائیلی فوج کے جنوبی غزہ کے ہیڈکوراٹر پر حملہ کیا اور اس کے مواصلاتی نظام کو جام کر دیا تھا جس وجہ سے اہلکار اپنے کمانڈر یا ایک دوسرے کو فون نہیں کر سکے
حماس کے ایک قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے کے آخری حصے میں یرغمالیوں کو غزہ منتقل کرنا شامل تھا جو شروع میں ہی کر دیا گیا۔
اسرائیلی سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ غزہ کے قریب جنوبی حصے میں اسرائیلی فوجی بہت کم تعداد میں موجود تھے کیونکہ فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافے کے بعد انہیں مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کی حفاظت کے لیے بھیج دیا گیا تھا
ذرائع کے مطابق حماس نے اس صورتحال کو اپنے فائدے میں استعمال کیا ہے۔
وزیراعظم نیتن یاہو کے سابق قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ جنرل یاکوو امیڈرور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ جنوب میں انٹیلی جنس نظام اور ملٹری کے لیے ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔